Sehar honay tak

  • Work-from-home
Dec 11, 2008
932
510
0
dammam
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کا پہلا کالم ” سحر ھونے تک”



سحر ھونے تک ___ ڈاکٹر عبدالقدیر

کیا پوچھے ھے مجھ سے میری خاموشی کا باعث

کچھ تو سبب ایسا ھے کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا




1961ء میں جب میں اعلٰی تعلیم کے لئے برلن کی مشہور ٹیکنیکل یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے روانہ ھونے لگا تو میں نے سوچا کہ جرمنی کے حالات سے پاکستانی عوام خاص کر کے طلبہ کو اس سے مطلع کرونگا _ اس وقت روزنامہ جنگ کا دفتر کراچی بزنس روڈ پر تھا_ میں کالج کے (ڈی جی سندھ گورنمنٹ کالج)ہمیشہ اس دفتر کے سامنے سے گزرتا تھا _ میں پہنچ گیا کہ میر خلیل الرحمان سے ملاقات کر لوں اور انکا مشورہ حاصل کر لوں_ اس وقت ایڈیٹر تقی صاحب ہوا کرتے تھے ایہوں نے فوراً میری ملاقات میر صاحب سے کروا دی _نام سنا تھا اب ذاتی شناسائی بھی ھو گئی تھی _میر صاحب خوبصورت بارعب شخصیت کے مالک تھے دراز قد تھے انکی ذہانت انکی پیشانی سے صاف عیاں تھی _ انہوں نے بڑے خلوص سے ملاقات کی اور میر تجویز کو بہت پسند کیا اور کہا کے میں ضرور برلن سے جنگ کے قارئین کو وہاں سے مطلع کروں_اس طرح میں جرمنی روانہ ھو گیا _برلن اس وقت مشرق و مغرب کی سیاسی کشمکش کا اکھاڑہ تھا_ صرف 10 دن پہلے مشرق برلن(یعنی مشرقی کمیونسٹ جرمنی ) نے دیوار کھڑی کر دی تھی _لا تعداد جرمن کمیونسٹوں سے جان چحڑا کر جرمنی بھاگ رہےتھے اور روز کئیVopos یعنی مشرقی برلن کی ملیشیا کا نشانہ بن رھے تھے _ اور روسی مگ جہاز ون دن بھیر ساؤنڈ بیریر توڑ رہے تھے _ میرا ہوسٹل برانڈین برگر تور یعنی گیٹ سے 15 منٹ کے فاصلے پر تھا اور وکٹری کالم کے بلکل قریب تھا _


میں نے وہاں سے روزنامہ جنگ کو "مکتوب برلن" کے نام سے مراسلہ جات بھجنا شروع کر دیے جو جنگ میں باقاعدگی سے شائع ھونے لگے یہ سلسلہ دو سال تک جاری رھا _اور میں نے جنگ میں ھی پیشگوئی کی تھی کہ اس وقت کے برلن میئر جنابولی برانٹ ایک روز یقیناً جرمنی کے چانسلر بن جایئنگے اور وہ چند سال بعد بن گئے _ 1963ء کے آواخر میں برلن سے میں ہالینڈ میں ڈیلینٹ کی مشہور ٹیکنکل یونیورسٹی میں چلا گیا_ اور مکتوب برلن لکھنا بند کردیا_


حالات حاضرہ کی وجہ سے میں نے سوچا کیون نہ پھر طبع آزمائی کی جائے اور ملک کے اہم موضوعات پر کچھ لکھا جائے_مجھے لکھنے کا ہمیشہ سے شوق ھے اور کوئی اہم بات ہو تو ضرور لکھتا ھوں _بس عادت ھے


چھٹی نہیں ھے منہ سے یہ کافر لگی ھوئی


مطلب یہ نہیں کہ عوام میرے حالات و جذبات سے نا واقف ھیں


میں چپ بیٹھا ھوا ھوں اور یہ معلوم ھوتا ھے

کہ جیسے زمانہ کہہ رھا ھے داستان میری


دیکھئے جب کوئی شخص اخبار میں مضموں لکھنا شروع کرتا ھے تو لوگ اس کا مقصد یہ اسکا سبب تلاش کرنے لگتے ھیں
گماں اگر تم کو کچھ ھو تو ھو مگر ہم کو



سکون ملتا ھے روداد غم سنانے میں
ھم سب جانتے ھیں کہ خیر و شر کا تضاد ہمیشہ سے دینا میں رھا ھے_قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے ہمیشہ اس بارے میں خبردار کیا ھے_اور فرمایا کہ اللہ مجھے شر پسندوں اور ظالموں کے شر سے محفوظ رکھیں بعض خود غرض،غاصب لوگ خالصتاً ذاتی مفاد کے لئے عوام کے مفاد کو پیروں تلے روند ڈالتے ھیں_طاقت کا نشہ انہیں مدہوش کر دیتا ھے اور نعوذباللہ وہ اللہ کے وجود کو اور قوت کے بھی منکر ھو جاتے ھیں_ مشرف کی مثال آُکے سامنے موجود ھے
ھر دور میں انسان نے ڈھائے ھیں مظالم

ہر دور میں انسان خدا بنتا رھا ھے
لیکن نعوذباللہ خدا بننے کا گھمنڈ میں انسان خدا بن نہیں جاتا حالانکہ کے اکثر وہ خدا کی موجودگی کو بھول جاتا ھے
ظالموں نے سمجھ یہ رکھا ھے

جیسے دنیا میں اب خدا ھی نہیں

ناخدا کو خدا کا رتبہ دینے میں ہمارے بیوری کریسی اور خوشامدیوں کا بڑا ھاتھ ھے _ مشرف صرف ایف_ایے پاس تھا_ جو ہم میں عموماً چپڑاسی کے طور پر بھرتی کرتے ھیں ایک غلط طریقہ سے ہمارا سپہ سالار بن گیا اور ھمیں یہ دیکھ کر قے آتی تھی کہ یہ کم عقل یہ نہایت تعلیم یافتہ لوگوں کو ماہرین کو ، معاشیات تعلیم ، خارجہ، زرایعت اور صنعت پر سامنے بیٹھا کر لیکچر دیتا تھا_ اور وہ اس کے آگر گردن ہلا ہلا کر واہ واہ کرتے تھے ایک عقلمند اور ذی فہم حکمراں(یا ڈکٹیٹر)کا طریقہ یہ ھے کہ وہ اپنے رفقاء چاپلوسی کی بنیاد پر نہیں چنتا بلکہ ان کی مہارت اور علم کی بنیادوں پر انکے مشوروں کو سنتا ھے اور ان کو اہم پروجیکٹس کی تکمیلی کے لئے تمام مدد مہیا کرتا ھے_ مشرف کے بارے میں افواہ گشت کرتی رہتی تھی کہ اوہ اپنے فوجی ساتھیوں سے اکثر شکایت کرتا رہتا تھا کہ"مجھے دکھ اور پریشانی ھوتی ھے کہ اگر کم پڑھ اور جاہل میری بات کو نہ سمجھے تو کوئی بات نہیں مگر پڑھے لکھے لوگ میری بات نہیں سمجھتے" وجہ عیاں ھے بندوق کی لبلبی دبانے اور عقلوفہم کی بات کرنے میں فرق صاف ظاہر ھے
خود غرض اور موقع پرست لوگایسے لوگوں کی جھوٹی تعریف میں قلابے مل دیتے ھیں اور اس کو افلاطون بنا دیتے ھیں _ یہی وہ لوگ ھیں جو جو ان حرکتوں سے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتے ھیں _ یہ لوگ ہٹلر اور اور اس کے وزیر کے پروپیگنڈہ کے طریق کار پر عمل کر کے اتنے جھوٹ ھیں کہ حکمران اسے سچ ماننے لگتے ھیں اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتے ھیں_نتائج ملک کی تباہی کی شکل میں نکلتے ھیں_ اسی قسم کا جھوٹ شیخ مجیب الرّحمان نے بولا تھا کہ جوٹ کی کم فروخت سے حاصل کردہ رقم سے مغربی پاکسان والوں نے کراچی کی فٹ پاتھیں سونے کی اینٹوں سے سجائی تھی_ جھوٹ بڑا تھا فوراً قبول ھو گیا


میں سمبر کے چھوتے ہفتہ میں کرسمس کے موقعے پر پاکستان آیا تھا_ یہ 1975ء یعنی 33سال پہلے کی بات ھے_ میں بھٹو صاحب کی درخواست پر آیا تھا اور بیگم،دونوں بیٹیاں(7سال 5سال اور ڈیڑھ سال)اور مجھے و 15 جنوری کو واپس جانا تھا _ بھٹو ساحب کی مخلصانہ دوخواست اور وطن کے مفاداتکی خاطرہم نے ایک لمحہ بھی تامل نہ کیا اور بہترین کیریئر،بڑی تنخواہ اور سہولتیں چھوڑ کر یہی رک گئے_ یہاں پہلی تنخواہ 3 ہزار 6ماہ بعد ملی نہ ھی حکومت نے کچھ پیشکش کی
عجب نعمت عطاکی ھے خدا نے اہل عزت کو

عجب یہ لوگ ھیں غم کھا کر دل کو شاد کرتے ھیں


ملک کے نام نہاد ماہر سائنسدانوں نے نھٹو صاحب اور غلام اسحاق خان صاحب کے کام بھرے کہ یہ نوجوان انجان چھوکرا آپ کو بیوقوف بنانے آیا ھے چند دن کھائے پیئے گا اور راستہ لے لیگا_انہوں نے اس ٹیکنالوجی کی پیچیدگیاں اور مشکلات بتائیں_ اور یہ بھی کہ دنیا میں صرف 3 نہایت ترقی یافتہ ممالک یعنی ہالینڈ جرمنی اور انگلینڈ ھی اس میں مہارت رکھتےھیں اور انہوں نے یہ مہارت 20 سال کی محنت اور تقریبا 2 ارب دالر خرچ کر کے حاصل کی ھے_بھٹو ساھب اور غلام اسحاق صاحب صاحب بصیرت آدمی تھے _انہیں میری راست گوئی پر شک نہ تھا اور نہ میں نے کوئی غلط بات کہی تھی_مجھ سے بعض لوگوں نے کہا ان سے کہہ دو کہ 3 سال میں ایٹم بم بنا دینگے_
میں نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا کہ وہ اس کے مطابق خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ارو پھر منہ کی کھانی پڑتی _ چند مشہور سائنسدانوں نے یہ مشورہ کیا کے کسی غار میں 2سے 3 ہزار ٹن آتش گیر مادہ رکھ کر اور اس میں کائی تابکاری مادہ رکھ کر دھماکا کردینگے اور بھٹو صاحب کو تسکین ھو جائیگی اور انکا جنون ختم ھا جایئگا_دیکھئے اگر سیاستدان جھوٹ بولیں تو انکا پیشہ ھے وہ بیشرمی سے جھوٹ بولیں_ لیکن ہم سائنسدانوں اور انجینئرز پر فرض ھے کہ اپنے پیشے اور ضمیر کا لحاظ رکھ کر ہمیشہ سچ بولیں میں نے تو ہمشہ اسی اصول پر کام کیا ھے اور کبھی غلط بیانی نہیں سے کام نہیں لیا
صادق ھوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ

کہتا ھوں سچ کہ جھوٹ بولنے کی عادت نہیں

عرض مدعا یہ ھے کہ میں نے اپنے رفقائے کار کو ساتھ ملا کر ناممکن کو ممکن بنا دیا اور صرف 8 سال کے قلیل عرصے میں نہایت خطیر رقم خرچ کر کے اس پسماندہ ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا _بھٹو صاحب ، غلام اسحاق خان ساحب اور ضیاءالحق ساحب نے بلا خوف و خطر پوری مدد کی _ نیک نیتی صدق دل اور محنت سے جو بھی کام کیا جائے اللہ یقینا کامیابی دیتا ھے _ محترمہ بینظر بھٹو ساحبہ کی مدد سے یہ ملک ایک ایٹمی طاقت بنا_میری درخواست پر انہوں نے مجھے چین اور شمالی کوریا سے میزائل پروگوام ھاصل کرنے اور اسے شروع کرنے کع اجاذت دے دی_ اس میں جنرل اسلم مرزا بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے کلیدی کردار ادا کیا _ یہاں قابل غور بات یہ ھے کہ اگر لاتعداد خودغرض،راشی،ضمیر فروش اس ملک کو بھوکے بھیڑوں کی طرح کھانے لگے ھوئے ھیں_مگر بھر بہت سے مخلص ، دیندار اور اہل ہنر دل و جان سے اسکی خدمت کر کے اس وطن عزیز کو آہستہ آہستہ ترقی کی پر گامزن کر رکھے ھوئے ھیں_ ہم انشاءاللہ ان لوگوں کی مدد سے اس ملک کو ایک ترقی یافتہ، فلاحی اور اسلام مملکت بنا دیں گے

میں زندگی کا بیشتر بلکہ تمام حصہ گزار چکا ھوں_ جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ھوں تو سکون و اطمینان ھوتا ھے کہ میں نے اپنی بساط کے مطابق ااپنے وطن عزیز کی خدمت کردی ھے _ میں نے ملک پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ بڑے احسان جو اس نے مجھ پر کیا ھے تھوڑا بہت حصہ ادا کیا ھے میں نے اپنی زندگی کی 15 سال یورپ میں اعلی تعلیم اور فنی مہارت حاصل کی اور میں اسے اس ملککے مزید اہم کاموں میں استعمال کرنا چاہتا تھا-1999ء میں میں نے سیارہ فضا میں چھوڑنے کی تجویز پیش کی مگر ایک ایف_ایے پاس
ڈکٹیٹر نے منظور نہیں کی بہر حال مجھے وطن عزیز کی خدمت پر فخر ھے

میں نے ایٹمی میزائل مہیا کرنے کیساتھ ساتھ لاتعداد تعلیمی اور فلاحی ادارے قائم کیئے ھیں اور خیبر سے کراچی تک لوگوں کے دلوں میں میرے لئے جو عزت ھے وہ میرا انعام ھے _ ایک ذلیل غدار اور غیر ملکی ایجنٹ نے صدارت کا خول پہن کر مجھے نقصان پہنچانے کی مگر اپنے مکروہ ارادے میں ناکام رھا اور خود سخت ذلیل و خوا ھو کے ایوان صدر سے نکالا گیا اور اب یہ خود ساختہ کمانڈو اندگی بھر اس ملکے کی سڑک پر پاؤں نہ رکھ سکے گا عوام اسکے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلا دینگے_ میرا تعلق تو 17 کروڈ عوام سے ھے اور ہمیشہ رھے گا مجھے اطن عزیز کی خدمت سے کوئی نہیں روک سکتا _ ہمارے سامنے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی قربانی کی مثالیں موجود ھیں انہوں نے جان دے دی مگر ملک کا سودا نہیں کیا اور زندہ جاوید ھو گئے یہی وجہ سحر ھونے تک کو موضوع سے گاہے بگاہے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ھے
"شمع ہر رنگ میں جلتی ھے سحر ھونے تک "
 
Top