uff ye khamoshi

  • Work-from-home

u kan

Newbie
Jan 8, 2009
28
9
703


خاموشی



کہیں سنا تھا یاد ماضی عزاب ھے یارب مگر میں کہتا ھوں


یاد ماضی نہیں خاموشی عزاب ھے یارب۔ کیوں عجیب لگ رہا ھے کیا ؟اسکا مطلب


آپ بھی ان لوگوں میں سے ھیں جو آج بھی "ایک چپ ہزار سکھ " کے حق میں ھیں


کوئ بات نہیں صاحب آج ھماری آپ بیتی پڑھ لیجیئے زرا پھر پوچھیں گیے یہ کمبخت


خاموشی کیا بلا ھے۔


جب سے ھوش سنبھالا ہر ایک کو اپنے حق پر ڈاکہ مارتے ھی پایا اماں نےگوشت


کی بوٹی پلیٹ میں ڈالی نہیں کہ بڑے بھیا کی نظر ھماری پلیٹ کا حصار کرنے لگتی


اور آنکھوں سے ایسی حسرت ٹپکتی کہ مانو انہوں نے کبھی گوشت زندگی میں دیکھا


نہ ھوخواہ مخواہ کی باتیں شروع کر دیتے اور آہستہ سےنجانے کیسے میری پلیٹ


سے بوٹی غائب انکی پلیٹ میں موجود ھوتی اورمیں خاموشی سے کبھی انکی پلیٹ کو


تکا کرتا تو کبھی اپنی پلیٹ کو ۔۔ھا آہ۔ ۔ ۔ ۔اسکول جاتے ھوے راستے میں ایک پارک پڑتا


تھا چھوٹی(چھوٹ� � بہن)کو جھولے جھولنے کا بہت شوق تھا اب میڈم کی فرمائش بھائ


جھولا جھلا دو ناں لاکھ اسے سمجھاتا دیکھو دیر ھو جائے گی مس ڈانٹے گی مگر


کہتی کوئ نہیں کچھ نہیں ھوتااگر کچھ ھوا تو میں سنبھال لونگی۔چار رونا چار اسے


جھولا جھلانا ھی پڑتا اور جب اسکول پہنچتے اور مس دیر سے آنے کی وجہ سے


سزا دیتی تو یہ چھوٹی صاف مکر جاتی اور رو رو کر کہتی بھائ جھولے جھولنے کو


پارک میں رکتا ھےاور میرا وہی حال کہ خاموش کھڑے ھیں چاہے بھلے سے دل میں


اس چھوٹی کو کچا کھانے کا پروگرام ھی کیوں نہ بن رہا ھومگر منہ سے اپنی صفائ


کے لیئے بھی کچھ نہ نکلتا بس خاموش چھوٹی کے حصہ کی سزا بھگتائے جاتا


اور خاموشی کی یہ سوغاتیں صرف گھر کے لیئے ھی نہیں تھیں بلکہ ساتھ


کے یار دوستوں نے بھی میری اس عادت کا خوب خوب فایئدہ اٹھایا بھت آرام سے


چائے اور سموسوں کے ساتھ انصاف کرتے ھوئے کہتے کے یار آج کلاس لینے کا


موڈ نھیں ھےتم لیکچر نوٹ کرلینا ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔بھئ آخر میں بھی انسان ھوں دل رکھتا ھوں


سموسے مجھے بھی پسند ھو سکتے ھین مگر نہیں جی دل میں آنے والی یہ باتیں حلق


سے ادا ھوں تب نہ بس یہ خاموشی اُف یہ خاموشی ۔ ۔۔ ۔۔ ۔اپنے آپ کو ہی کوستے


ھوئے دل ہی دل میں بکتے جھکتے دو مالے چڑھ کر لیکچر نوٹ کر کے لاتا اور


دوستوں کے درمیان رکھ دیتا جواب میں تھینکس کا ایک لفظ منہ چڑانے کو خالی پلیٹوں


کے ساتھ تیار ملتا چلو جی،بات یہیں تک رھتی تو برداشت بھی ھو جاتا مگرجب محلے


کی ایک کمسن حسینہ نے من کے سمندر میں طوفان اٹھایا توتب میں نے اس خاموشی


کے خوب لتے لیئے، ھوا یوں کہ ،ھمارے محلے میں برسوں سے ایک روایت چلی


آرہی تھی کہ کہ جب بھی محلے میں کوئی نئے کرایہ دار آتے تو کم از کم دو دنوں تک


محلے والے انکے گھر کھانا بھیجا کرتےمقصد یہ ھوتا کہ نئے آنے والے کرایہ دار


اطمینان سے گھر سیٹ کر لیں اور اس دوران انھیں کھانا پانی اور چائے کی فراھمی


محلے والےکیا کرتے سو ایک دن ھم نے صبح صبح دیکھا برابر والے گھر پر


سے "کرائے پر خالی ھے" کا بورڈ غائب ھے اور دروازے کھڑکیں سب کھلی ھیں


مجھے کچھ کھلبلی سی ھوئ کہ آخر نئے لوگ کون ھیں اور کیسے ھیں میں نے اچک


کر گیٹ کے اندر جھانکا تواندر کے نظارے نے جیسے مجھےمبہوت سا کر دیا میرے


سامنے ایک نازک حسینہ اندر کے دروازے پر ایک عدد خوبصورت پینٹگ لگانے کی


کوشش میں مصروف تھی۔ میں تنہا کھڑا اسے اور اسکی کوشش کو دیکھے جا رہا تھا


وہ بےحد خوبصورت تھی ،لمبے بال اور چمپیئی رنگت سردی کی دھوپ میں خوب ھی


کھلی پڑ رہی تھی ، مصحور سا کھڑا تھا کہ دفعتا" اسکی نظر مجھ پر پڑ گئیپہلے تو


وہ گڑبڑا گئی پھر آھستہ سے چلتی ھوئ آگے آئی، میں بھی ایکدم سیدھا کھڑا ھو گیاوہ


آگے آئ تو میں نے سلام کیااسنے جواب دیا اور کہنے لگی دور کھڑے ھو کر دیکھنے


کہ بجائے آپکو میری مدد کرنی چاہیئے میں حیران سا آگے بڑھا اور کہا دراصل یہ


گھر خالی تھا آج آپ کو یہاں دیکھا تو۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہنے لگی جی ہاں ھم آج ھی تو یہاں


آئے ھیں آپکے نئے پڑوسی ھیں ھم ،مجھے نیل کہتے ھیں اور آپ؟ میں نے کہا میں


ساحل ھوں اسے میرا نام بھت اچھا لگا (خیر اسمیں میرا کوئی کمال نہیں یہ تو اماں


نے رکھا تھا ابا سے لڑکر ،ابا توکچھ اور نام رکھنا چاھتے تھےشاید میرے پر دادا کا نام


مگر بھلا ھو اماں کا اماں کےپسندیدہ ناول کے ہیرو کا نام ساحل تھا سو اماں نے سب


کی مخالفت کے باوجود وہی رکھا) شکریئہ آپکی امی وغیرہ ۔ ۔ ۔ ہاں وہ اندر ھیں میری


امی ، ابو اور ایک چھوٹا بھائ ھے میں نے کہا بھت اچھا آپ گھر سیٹ کر لیں پھر


ھمارے گھر آیئے گا اسنے ہامی بھر لی۔ پھر کہنے لگی ،کیا آپ میرا ایک چھوٹا سا کام


کر دیں گے میں نے کہا ضرور مجھے خوشی ھوگی (پہلی دفعہ جنس مخالف کی


طرف دوستی کا اندیہ ملا تھا دل میں عجیب سی گدگدی ھورہی تھی، چلو جی کسی نے


تو اس قابل سمجھا)خیر اسنے کہا کہ آپ زرا یہ پینٹگ لگا دیں اور میں نے لمبے قد کا


فایئدہ اٹھاتے ھوئےفٹافٹ پینٹنگ لگا دی۔وہ کہنے لگی سوری میں آپ کو چائے کے لیئے


بھی نہیں پوچھ سکتی کیوں کہ ابھی کچن ارینج نہیں ھوا ھے میں نے کہا ارے نہیں


چائے پھر پی لینگے لیکن آج کا کھانا ھماری طرف سے ھوگا،وہ انکار کرنے لگی تو


میں نے اسے ھمارے محلے کی روایت کے بارے میں بتایا وہ مسکرا دی،اُف مسکراہٹ


ایسی جیسے کوئ غنچہ چٹک جائےھا ۔ ۔ آہ خیر اسطرح میری اس سے پہلی ملاقات


ھوئی پھر ھم روز ہی ملنے لگے ھمارے گھر والوں کی بھی دوستی ھو گئی میں چھت


پر پڑھتا تھا وہ بھی اکثر ہی چھت پر چلی آتی اور ھم کافی دیر ساتھ رہتے اس سے ایک


دو ملاقاتوں کے بعد مجھے اندازہ ھوا کہ اسے بولنے کا خبط تھا ھم جتنی دیر ساتھ


رہتے وہ مسلسل بولتی ہی رہتی اور میں بس ہاں ہوں کرتا رہتا بعض اوقات اسکے


سوالوں کا جواب بھی ٹھیک سے نہ دے پاتا وہ اکثر مجھ سے بولنے کو اصرار کرتی


اور میں کہتا کہ میں تمہاری باتیں سن رہا ہوں وہ مسکرا دیتی۔


وقت گزرتا رہا ایک دن اچانک مجھے احساس ھوا میں اس سے محبت


کرنے لگا ھوں میں اسے بتانا چاھتا تھا اور اسکے جزبات جاننا چاہتا تھاکہ انہی دنوں


عامر کی انٹری ھمارے درمیان ھو گئی عامر خاصا دل پھینک قسم کا لڑکا تھا عمر میں


مجھ سے بھی کچھ بڑا ھی تھا تعلیم ختم کر چکا تھا اور نوکری پیشہ تھا،اسکا گھر نیل


کے گھر کے برابر والا تھاعامر کے کئی لڑکیوں سے چکر تھے،میں دیکھ رہا تھا کہ


عامر آجکل روز ہی چھت پر آجاتا ھے پہلے تو کبھی نہیں آتا تھا اور اب۔ ۔ ۔ ۔وہ جب


بھی اوپر آتا نیل مجھ سے کوئ نہ کوئ بہانہ کر کے اس سے باتیں کرنے چھت کے


اس طرف چلی جاتی میں ھمیشہ کی طرح ٹکرٹکر دیکھا کرتا اور دل ہی دل میں پیچ


وتاب کھاتا رہتا مین اسے بتانا چاہتا تھا کہ عامر اچھا لڑکا نہیں ھے وہ اس سے بچ کر


رہے اور اپنی دل کی حالت اس پر عیاں کرنا چاھتا تھا مگر وہ ظالم جونہی سامنے آتی


تو میری زبان گویا تالو سے چپک جاتی اور میں صرف اسکی سنتا رہتا اور تھوڑی ہی


دیر میں وہ چھت کے اس پار چلی جاتی کچھ دن یونہی گزرے ایک دن میں کالج آیا تو


چھوٹی نےلڈو سے بھری پلیٹ پکڑائ میں نے تکڑا توڑتے ھوئے پوچھا کہان سے آیا


ھےچھوٹی کہنے لگی آپ کو تو معلوم ھوگامیں نے لڈو کا مزہ لیتے ھوے کہا نہیں


بھئی مجھے نہیں معلوم تم ھی بتادوتو کہنے لگی بھائی نیل باجی کی شادی طے ھو گئی


ھے، یہ سننا تھا کہ منہ کا مزہ خطرناک حد تک کڑوہ ھو گیااور میں ھمیشہ کی طرح


خآموش۔ ۔ ۔ ۔ ۔


اسکے بعد نیل سے میری ایک دفعہ ملاقات ھوئی اس دن میں نے اپنی زبان پر پڑے


ھوے سارے قفل توڑ دالے اور اس سے پوچھا کہ تم نے اتنی جلدی کیوں کی وہ فلرٹ


عامر تمہیں خوش نہیں رکھ سکے گا تو کہنے لگی تمیز سے بات کرو وہ میرے


ھونے والے شوہر ھیں میں کسی صورت انکی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر


سکتی اور تم کون ھوتے ھو مجھے اچھا برا سمجھانے والے ، میں نے کہا میں کون


ھوتا ھوں مین میں تم سے پیار کرتا ھوں چاہتا ھوں تمہیں، تمہیں برباد نہیں دیکھ سکتا


اور نہ ہی تمہیں کسی اور کا ھوتے ھوئے دیکھ سکتا ھوں ۔وہ کہنے لگ اچھا آج تمہیں


خیال آیا ھے اپنی محبت کا ھنہ۔ ۔ ۔ ۔ جب میں تم سے اظہار چاہتی تھی تب تم خاموش


رہے مجھے نا امید کیا اور اب جب مین کسی اور کا پیار پا چکی تو تمہاری محبت جاگ


گئی ھے ، میں نے کہا نیل محبت اظہارکی محتاج نہیں ھوتی تو وہ چیخ پڑی نہیں


ساحل نہیں محبت ھی نہیں ھر جزبہ اظہار کا محتاج ھے۔جبتک بچہ روئے نہ ماں


بھی دودھ نہیں پلاتی۔کنوی ئں میں کتنا ہی پانی کیوں نہ ہو اگر پیاسے کی پیاس نہ بجھ


سکے تو اتنا پانی کس کام کا، میں اسکی سچایئوں کے آگے چپ ھوگیا،وہ کہنے لگی


میں بھی تمہیں پسند کرنے لگی تھی مگر تمھاری طرف سے کوئی اشارہ نہ پا کر میں


نے اپنے دل کو بہلا لیا۔میں نے کہا اب بھی کچھ نہیں بگڑا تم انکار کر دو تو وہ چونک


کر مڑی اور کہا کس بنیاد پر؟ میں تمھیں بتا چکی ھوں تم میریے احساس میرے


جزبوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے ہر عورت اظہار چاہتی ھے چاہے جانا


چاہتی ھے ،اسمیں غلط کیا ھے شادی کو چلانے کے لیئے محبت کی ضرورت ھوتی


ھے اور محبت کو قائم رکھنے کے لیئے اظہار کی ضرورت ھو تی ھے وہ تم نہیں کر


سکتے جاؤ ساحل پہلے اپنے اندر اظہار کی کچھ بولنے کی قوت تو پیدا کرو پھر کسی


سے دل لگانا یاد رکھو میں ھی نہیں کوئی بھی لڑکی بےزبان پتھر سے سر پھوڑنے کو


تیار نہیں ھوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ، اور میں ایک بار پھر خاموش ھو گیا۔آجکل ماہر نفسیات کے


مشوروں پر عمل کرتے ھوے بند کمرے میں آیئنے کے سامنے تقرییر کیا کرتا ھوں۔اکثر اسے خوابوں میں دیکھ کر اظہار بھی کرتا ھوں اب تو بھت سیے ظریقے بھی آگئے ھیں مگر وہ نہیں ھے آہ یہ خاموشی جس نے میرا پیار چھین لیا۔



تو جناب اب بتایئے آپکے خیال میں خاموشی کیا ھے۔


" ایک چپ ہزار سکھ" یا 'ایک چپ ہزار دکھ"
__________________
 

gullyb

Newbie
Jan 21, 2009
9
0
0
england
خاموشی



کہیں سنا تھا یاد ماضی عزاب ھے یارب مگر میں کہتا ھوں


یاد ماضی نہیں خاموشی عزاب ھے یارب۔ کیوں عجیب لگ رہا ھے کیا ؟اسکا مطلب


آپ بھی ان لوگوں میں سے ھیں جو آج بھی "ایک چپ ہزار سکھ " کے حق میں ھیں


کوئ بات نہیں صاحب آج ھماری آپ بیتی پڑھ لیجیئے زرا پھر پوچھیں گیے یہ کمبخت


خاموشی کیا بلا ھے۔


جب سے ھوش سنبھالا ہر ایک کو اپنے حق پر ڈاکہ مارتے ھی پایا اماں نےگوشت


کی بوٹی پلیٹ میں ڈالی نہیں کہ بڑے بھیا کی نظر ھماری پلیٹ کا حصار کرنے لگتی


اور آنکھوں سے ایسی حسرت ٹپکتی کہ مانو انہوں نے کبھی گوشت زندگی میں دیکھا


نہ ھوخواہ مخواہ کی باتیں شروع کر دیتے اور آہستہ سےنجانے کیسے میری پلیٹ


سے بوٹی غائب انکی پلیٹ میں موجود ھوتی اورمیں خاموشی سے کبھی انکی پلیٹ کو


تکا کرتا تو کبھی اپنی پلیٹ کو ۔۔ھا آہ۔ ۔ ۔ ۔اسکول جاتے ھوے راستے میں ایک پارک پڑتا


تھا چھوٹی(چھوٹ� � بہن)کو جھولے جھولنے کا بہت شوق تھا اب میڈم کی فرمائش بھائ


جھولا جھلا دو ناں لاکھ اسے سمجھاتا دیکھو دیر ھو جائے گی مس ڈانٹے گی مگر


کہتی کوئ نہیں کچھ نہیں ھوتااگر کچھ ھوا تو میں سنبھال لونگی۔چار رونا چار اسے


جھولا جھلانا ھی پڑتا اور جب اسکول پہنچتے اور مس دیر سے آنے کی وجہ سے


سزا دیتی تو یہ چھوٹی صاف مکر جاتی اور رو رو کر کہتی بھائ جھولے جھولنے کو


پارک میں رکتا ھےاور میرا وہی حال کہ خاموش کھڑے ھیں چاہے بھلے سے دل میں


اس چھوٹی کو کچا کھانے کا پروگرام ھی کیوں نہ بن رہا ھومگر منہ سے اپنی صفائ


کے لیئے بھی کچھ نہ نکلتا بس خاموش چھوٹی کے حصہ کی سزا بھگتائے جاتا


اور خاموشی کی یہ سوغاتیں صرف گھر کے لیئے ھی نہیں تھیں بلکہ ساتھ


کے یار دوستوں نے بھی میری اس عادت کا خوب خوب فایئدہ اٹھایا بھت آرام سے


چائے اور سموسوں کے ساتھ انصاف کرتے ھوئے کہتے کے یار آج کلاس لینے کا


موڈ نھیں ھےتم لیکچر نوٹ کرلینا ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔بھئ آخر میں بھی انسان ھوں دل رکھتا ھوں


سموسے مجھے بھی پسند ھو سکتے ھین مگر نہیں جی دل میں آنے والی یہ باتیں حلق


سے ادا ھوں تب نہ بس یہ خاموشی اُف یہ خاموشی ۔ ۔۔ ۔۔ ۔اپنے آپ کو ہی کوستے


ھوئے دل ہی دل میں بکتے جھکتے دو مالے چڑھ کر لیکچر نوٹ کر کے لاتا اور


دوستوں کے درمیان رکھ دیتا جواب میں تھینکس کا ایک لفظ منہ چڑانے کو خالی پلیٹوں


کے ساتھ تیار ملتا چلو جی،بات یہیں تک رھتی تو برداشت بھی ھو جاتا مگرجب محلے


کی ایک کمسن حسینہ نے من کے سمندر میں طوفان اٹھایا توتب میں نے اس خاموشی


کے خوب لتے لیئے، ھوا یوں کہ ،ھمارے محلے میں برسوں سے ایک روایت چلی


آرہی تھی کہ کہ جب بھی محلے میں کوئی نئے کرایہ دار آتے تو کم از کم دو دنوں تک


محلے والے انکے گھر کھانا بھیجا کرتےمقصد یہ ھوتا کہ نئے آنے والے کرایہ دار


اطمینان سے گھر سیٹ کر لیں اور اس دوران انھیں کھانا پانی اور چائے کی فراھمی


محلے والےکیا کرتے سو ایک دن ھم نے صبح صبح دیکھا برابر والے گھر پر


سے "کرائے پر خالی ھے" کا بورڈ غائب ھے اور دروازے کھڑکیں سب کھلی ھیں


مجھے کچھ کھلبلی سی ھوئ کہ آخر نئے لوگ کون ھیں اور کیسے ھیں میں نے اچک


کر گیٹ کے اندر جھانکا تواندر کے نظارے نے جیسے مجھےمبہوت سا کر دیا میرے


سامنے ایک نازک حسینہ اندر کے دروازے پر ایک عدد خوبصورت پینٹگ لگانے کی


کوشش میں مصروف تھی۔ میں تنہا کھڑا اسے اور اسکی کوشش کو دیکھے جا رہا تھا


وہ بےحد خوبصورت تھی ،لمبے بال اور چمپیئی رنگت سردی کی دھوپ میں خوب ھی


کھلی پڑ رہی تھی ، مصحور سا کھڑا تھا کہ دفعتا" اسکی نظر مجھ پر پڑ گئیپہلے تو


وہ گڑبڑا گئی پھر آھستہ سے چلتی ھوئ آگے آئی، میں بھی ایکدم سیدھا کھڑا ھو گیاوہ


آگے آئ تو میں نے سلام کیااسنے جواب دیا اور کہنے لگی دور کھڑے ھو کر دیکھنے


کہ بجائے آپکو میری مدد کرنی چاہیئے میں حیران سا آگے بڑھا اور کہا دراصل یہ


گھر خالی تھا آج آپ کو یہاں دیکھا تو۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہنے لگی جی ہاں ھم آج ھی تو یہاں


آئے ھیں آپکے نئے پڑوسی ھیں ھم ،مجھے نیل کہتے ھیں اور آپ؟ میں نے کہا میں


ساحل ھوں اسے میرا نام بھت اچھا لگا (خیر اسمیں میرا کوئی کمال نہیں یہ تو اماں


نے رکھا تھا ابا سے لڑکر ،ابا توکچھ اور نام رکھنا چاھتے تھےشاید میرے پر دادا کا نام


مگر بھلا ھو اماں کا اماں کےپسندیدہ ناول کے ہیرو کا نام ساحل تھا سو اماں نے سب


کی مخالفت کے باوجود وہی رکھا) شکریئہ آپکی امی وغیرہ ۔ ۔ ۔ ہاں وہ اندر ھیں میری


امی ، ابو اور ایک چھوٹا بھائ ھے میں نے کہا بھت اچھا آپ گھر سیٹ کر لیں پھر


ھمارے گھر آیئے گا اسنے ہامی بھر لی۔ پھر کہنے لگی ،کیا آپ میرا ایک چھوٹا سا کام


کر دیں گے میں نے کہا ضرور مجھے خوشی ھوگی (پہلی دفعہ جنس مخالف کی


طرف دوستی کا اندیہ ملا تھا دل میں عجیب سی گدگدی ھورہی تھی، چلو جی کسی نے


تو اس قابل سمجھا)خیر اسنے کہا کہ آپ زرا یہ پینٹگ لگا دیں اور میں نے لمبے قد کا


فایئدہ اٹھاتے ھوئےفٹافٹ پینٹنگ لگا دی۔وہ کہنے لگی سوری میں آپ کو چائے کے لیئے


بھی نہیں پوچھ سکتی کیوں کہ ابھی کچن ارینج نہیں ھوا ھے میں نے کہا ارے نہیں


چائے پھر پی لینگے لیکن آج کا کھانا ھماری طرف سے ھوگا،وہ انکار کرنے لگی تو


میں نے اسے ھمارے محلے کی روایت کے بارے میں بتایا وہ مسکرا دی،اُف مسکراہٹ


ایسی جیسے کوئ غنچہ چٹک جائےھا ۔ ۔ آہ خیر اسطرح میری اس سے پہلی ملاقات


ھوئی پھر ھم روز ہی ملنے لگے ھمارے گھر والوں کی بھی دوستی ھو گئی میں چھت


پر پڑھتا تھا وہ بھی اکثر ہی چھت پر چلی آتی اور ھم کافی دیر ساتھ رہتے اس سے ایک


دو ملاقاتوں کے بعد مجھے اندازہ ھوا کہ اسے بولنے کا خبط تھا ھم جتنی دیر ساتھ


رہتے وہ مسلسل بولتی ہی رہتی اور میں بس ہاں ہوں کرتا رہتا بعض اوقات اسکے


سوالوں کا جواب بھی ٹھیک سے نہ دے پاتا وہ اکثر مجھ سے بولنے کو اصرار کرتی


اور میں کہتا کہ میں تمہاری باتیں سن رہا ہوں وہ مسکرا دیتی۔


وقت گزرتا رہا ایک دن اچانک مجھے احساس ھوا میں اس سے محبت


کرنے لگا ھوں میں اسے بتانا چاھتا تھا اور اسکے جزبات جاننا چاہتا تھاکہ انہی دنوں


عامر کی انٹری ھمارے درمیان ھو گئی عامر خاصا دل پھینک قسم کا لڑکا تھا عمر میں


مجھ سے بھی کچھ بڑا ھی تھا تعلیم ختم کر چکا تھا اور نوکری پیشہ تھا،اسکا گھر نیل


کے گھر کے برابر والا تھاعامر کے کئی لڑکیوں سے چکر تھے،میں دیکھ رہا تھا کہ


عامر آجکل روز ہی چھت پر آجاتا ھے پہلے تو کبھی نہیں آتا تھا اور اب۔ ۔ ۔ ۔وہ جب


بھی اوپر آتا نیل مجھ سے کوئ نہ کوئ بہانہ کر کے اس سے باتیں کرنے چھت کے


اس طرف چلی جاتی میں ھمیشہ کی طرح ٹکرٹکر دیکھا کرتا اور دل ہی دل میں پیچ


وتاب کھاتا رہتا مین اسے بتانا چاہتا تھا کہ عامر اچھا لڑکا نہیں ھے وہ اس سے بچ کر


رہے اور اپنی دل کی حالت اس پر عیاں کرنا چاھتا تھا مگر وہ ظالم جونہی سامنے آتی


تو میری زبان گویا تالو سے چپک جاتی اور میں صرف اسکی سنتا رہتا اور تھوڑی ہی


دیر میں وہ چھت کے اس پار چلی جاتی کچھ دن یونہی گزرے ایک دن میں کالج آیا تو


چھوٹی نےلڈو سے بھری پلیٹ پکڑائ میں نے تکڑا توڑتے ھوئے پوچھا کہان سے آیا


ھےچھوٹی کہنے لگی آپ کو تو معلوم ھوگامیں نے لڈو کا مزہ لیتے ھوے کہا نہیں


بھئی مجھے نہیں معلوم تم ھی بتادوتو کہنے لگی بھائی نیل باجی کی شادی طے ھو گئی


ھے، یہ سننا تھا کہ منہ کا مزہ خطرناک حد تک کڑوہ ھو گیااور میں ھمیشہ کی طرح


خآموش۔ ۔ ۔ ۔ ۔


اسکے بعد نیل سے میری ایک دفعہ ملاقات ھوئی اس دن میں نے اپنی زبان پر پڑے


ھوے سارے قفل توڑ دالے اور اس سے پوچھا کہ تم نے اتنی جلدی کیوں کی وہ فلرٹ


عامر تمہیں خوش نہیں رکھ سکے گا تو کہنے لگی تمیز سے بات کرو وہ میرے


ھونے والے شوہر ھیں میں کسی صورت انکی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر


سکتی اور تم کون ھوتے ھو مجھے اچھا برا سمجھانے والے ، میں نے کہا میں کون


ھوتا ھوں مین میں تم سے پیار کرتا ھوں چاہتا ھوں تمہیں، تمہیں برباد نہیں دیکھ سکتا


اور نہ ہی تمہیں کسی اور کا ھوتے ھوئے دیکھ سکتا ھوں ۔وہ کہنے لگ اچھا آج تمہیں


خیال آیا ھے اپنی محبت کا ھنہ۔ ۔ ۔ ۔ جب میں تم سے اظہار چاہتی تھی تب تم خاموش


رہے مجھے نا امید کیا اور اب جب مین کسی اور کا پیار پا چکی تو تمہاری محبت جاگ


گئی ھے ، میں نے کہا نیل محبت اظہارکی محتاج نہیں ھوتی تو وہ چیخ پڑی نہیں


ساحل نہیں محبت ھی نہیں ھر جزبہ اظہار کا محتاج ھے۔جبتک بچہ روئے نہ ماں


بھی دودھ نہیں پلاتی۔کنوی ئں میں کتنا ہی پانی کیوں نہ ہو اگر پیاسے کی پیاس نہ بجھ


سکے تو اتنا پانی کس کام کا، میں اسکی سچایئوں کے آگے چپ ھوگیا،وہ کہنے لگی


میں بھی تمہیں پسند کرنے لگی تھی مگر تمھاری طرف سے کوئی اشارہ نہ پا کر میں


نے اپنے دل کو بہلا لیا۔میں نے کہا اب بھی کچھ نہیں بگڑا تم انکار کر دو تو وہ چونک


کر مڑی اور کہا کس بنیاد پر؟ میں تمھیں بتا چکی ھوں تم میریے احساس میرے


جزبوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے ہر عورت اظہار چاہتی ھے چاہے جانا


چاہتی ھے ،اسمیں غلط کیا ھے شادی کو چلانے کے لیئے محبت کی ضرورت ھوتی


ھے اور محبت کو قائم رکھنے کے لیئے اظہار کی ضرورت ھو تی ھے وہ تم نہیں کر


سکتے جاؤ ساحل پہلے اپنے اندر اظہار کی کچھ بولنے کی قوت تو پیدا کرو پھر کسی


سے دل لگانا یاد رکھو میں ھی نہیں کوئی بھی لڑکی بےزبان پتھر سے سر پھوڑنے کو


تیار نہیں ھوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ، اور میں ایک بار پھر خاموش ھو گیا۔آجکل ماہر نفسیات کے


مشوروں پر عمل کرتے ھوے بند کمرے میں آیئنے کے سامنے تقرییر کیا کرتا ھوں۔اکثر اسے خوابوں میں دیکھ کر اظہار بھی کرتا ھوں اب تو بھت سیے ظریقے بھی آگئے ھیں مگر وہ نہیں ھے آہ یہ خاموشی جس نے میرا پیار چھین لیا۔



تو جناب اب بتایئے آپکے خیال میں خاموشی کیا ھے۔


" ایک چپ ہزار سکھ" یا 'ایک چپ ہزار دکھ"

__________________
what does all this mean
 
Top