میں تقلید کی تشریح فقہ حنفی اور حنفی علماء کے اقوال کی روشنی میں کروں گا۔ جو مندرجہ ذیل ہے۔
تقلید کی لغوی تعریف
دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب ”القاموس الوحید“ میں لکھا ہے
ہ(1) قلّد۔۔ فلاناً: تقلید کرنا، بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا۔ (القاموس الوحیدص:1346)ہ
ہ(2) التقلید: بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی، نقل، سپردگی (القاموس الوحیدص: 1346)ہ
ہ (3) امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"اما التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیربہاومنہ تقلیدالہدی فکان المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ"۔ یعنی تقلید لغت میں گلے میں ڈالے جانے والے پٹے سے ماخوز ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لئے کہتے ہیں کہ اسمیں مقلد جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا ہے۔ (ارشاد الفحول ص: 144) ہ
: ہ (4) اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے
"گردن بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن" یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے زمےکوئی کام لگانے کا نام ہے۔اسی طرح اپنے زمہ کوئی کام لینابھی تقلید کہلاتا ہے ، اس کے مجازی معنیٰ یہ ہیں کی حقیقت معلوم کیے بغیرکسی کی تا بعداری کی جائے۔ (غیاث الغات ص: 301)ہ
تقلید کی اصطلاحی تعریف
ہ(1) احناف کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے
التقلید: "العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین" الخ۔ یعنی تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہدکسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص982طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج2 ص600)
ہ(2) امام ابن ہمام حنفی (متوفی168ھ) نے لکھا ہے
"مسالة:التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ"یعنی مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔ پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔ (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول ج 3 ص 354) ہ
نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص 454،354 اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج 2ص7811 میں بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے)ہ
تو ان تشریحات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے اگر کسی کی بات پر بغیر قرآن و حدیث کی دلیل کے عمل کیا جائے وہ تقلید کہلاتی ہے۔ تو جو یہ تقلید کرنے والا ہو گا وہی مقلد کہلائے گا اور جو اس کا الٹ ہو گا وہ غیر مقلد کہلائے گا۔ یعنی اگر کسی عالم کے قول کو قرآن و حدیث کے مطابق لے گا وہ مقلد نہیں بلکہ متبع ہو گا۔ وہ تقلید نہیں اتباع کرنے والا ہو گا۔
[DOUBLEPOST=1349071194][/DOUBLEPOST]
تقلید اور اتباع میں فرق ہے۔
مقلدین ہر جگہ یہ شورمچاتے نظر آتے ہیں کہ فلاں غیر مقلد نے اپنے فلاں عالم کی کتاب سے استفادہ کر لیا یا فلاں عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اس لئیے وہ اُس عالم کا مقلد بن گیا ہے۔۔۔۔۔
جبکہ آلِ تقلید کے اپنے اکابرین نے تقلید کی جو تعریف کی ہے اُس کے مطابق دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہی نہیں۔
ہم مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک حنفی شخص تقی عثمانی سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور مولانا کے بتا ئے ہوئے مسئلے پر عمل بھی کرتا ہے تو وہ کس کا مقلد کہلائے گا، تقی عثمانی کا یا امام ابو حنیفہ کا؟؟؟ ظاہری بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد کہلائے گا یعنی کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں، اگر یہ تقلید ہے تو پھر اسوقت دنیا میں کوئی ایک بھی حنفی موجود نہیں بلکہ سب اپنے اپنے علماء کے مقلد ہیں۔۔۔۔فما کان جوابکم فھوجوابنا