jazakAllah khair..محترم قارئین کرام!یہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ایک صاحب نے کچھ فقہ ھنفی سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کے "تقلید کی مذمت" میں اقوال شئیر کئے ۔۔۔لیکن جب ہم نے ثبوت مانگا تو وہ صاحب بد اخلاقی پر اتر آئے ۔۔۔۔ اسی طرح یہاں اس تھریڈ میں ان محترمہ نے کسی کتاب کا صفحہ یہاں پوسٹ کیا ہے ۔۔۔ جس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بارور کرانے کی کوشش کی جیسے تقلید ہر دور میں انتہائی قابل مذمت چیز ہے یہاں ہم قارئین کرام کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عبارت کی وضاحت سے قبل تقلید کے حوالے سے انتہائی اہم نکتہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جو لوگ تقلید کی مذمت میں مختلف بزرگوں کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ عموما جان بوجھ کر یا انجانے میں بے خبر ہیں تقلید کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔ تقلید کی اول قسم مذموم(یعنی قابل مذمت) ہے ۔۔۔اور تقلید کی دوسری قسم محمود ہے ۔۔۔لیکن کچھ لوگ جانے انجانے میں محض تقلید کو لے کر صرف اور صرف قابل مذمت رخ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا رخ عوام کے سامنے یا تو پیش ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔بلکہ جہاں تقلید کی حمایت میں بزرگوں کے اقوال پیش کئے جائیں تو بہت آسان سا جواب دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد نہیں یا ہمارے لئے فلاں کا قول حجت نہیں (اس قول کی حقیقت ہم دوسرے تھریڈ میں واضح کرچکے ہیں)۔لیکن قابل گور بات یہ ہے کہ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب آپ لوگوں کے نزدیک کسی بزرگ کا قول حجت نہیں تو پھر جب ان بزرگ کا قول تقلید کی مذمت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کے جو لوگ لفظ "تقلید" کو پکڑ کر کہیں پٹہ کا استعمال کہیں گندہ عقیدہ کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بے چارے انجان ہیں کہ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ جو لوگ "تقلید" سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کا تقلید پر اصل موقف کیا ہے ۔۔۔۔ اور اُن کے درمیان مقلدین سے اصل اختلاف کیا ہے ؟؟؟قاررئین کرام کی معملومات میں اضافہ کے لئے بتاتے چلیں کہ ان لوگوں کے اکابرین جنہوں نے عوام الناس کو ائمہ کرام کی تقلید چھوڑنے کا سبق سکھایا ۔۔۔۔ اُن کے نزدیک بھی محض"تقلید" قابل مذمت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اکابرین بھی تقلید کے جواز کے قائل ہیں ۔۔۔۔ اختلاف صرف اور صرف "تقلید مطلق اور تقلید شخصی کے درمیان ہے ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ تقلید مطلق ٓکے قائل ہیں ۔۔۔۔ اور باقی تمام امت مسلمہ تقلید شخصی یعنی کسی معینہ امام کی تقید کے قائل ہیں ۔لیکن افسوس کہ آج یہاں اس فورم کے چند نام نہاد عالم حضرات اپنے بڑوں سے بھی آگے بڑھ کر ہر قسم کی تقلید کے نہ صرف انکاری ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ہر طرح کی تقلید پر نہایےت سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں ؟؟؟اب اگر ہم یہاں ان کے لئے اکابرین کی عبارتیں پیش کریں ۔۔۔۔ تو اس فورم کے عالم حضرات کا عالمانہ جواب یہی ہوگا کہ ہم لوگ کسی کے مقلد نہیں ؟؟؟چلیں یوں بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ کسی کی بات ماننے کے پابند نہیں ۔۔۔۔ لیکن کم از کم قارئین کرام کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگا کہ یہ لوگ جو کچھ تقلید کے مذمت میں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد سوائے اس فورم کے ان چند لوگوں کے (یا ان کے ہی جیسے اور بھی چند لوگوں کے سوا) دنیا کا کوئی مسلمان بھی ان کی مذمت سے نہیں بچ سکتا ؟؟؟؟گویا ان لوگوں کے سوا یا ان ہی کے جیسے چند اور لوگوں کے سوا پوری دنیا میں اسلام کو کوئی بھی صحیح سے نہ سمجھ سکا ؟؟؟(کیوں کہ ان کے بزرگ بھی مطلق تقلید کے انکاری نہیں ۔۔۔۔ باقی تو صرف یہی چند لوگ رہ جاتے ہیں)بہرحال اس سے قبل بات طویل ہو قارئین کرام کی خدمت میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی مختلف عبارتوں کے چند نمونے آپ سب کے سامنے پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔ جس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ کس طرح"تقلید" (جو مقلدین کے نزدیک بھی قابل مذمت ہے) کا ایک رخ دکھا کر نہ صرف علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ عوام کو حقیقت حال سے بھی آگاہ نہیں کرتے ؟؟؟شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ خصوصاََ مذہب حنفی کا کیا مقام ہے ذیل میں ان کی تحریروں کے اقتباسات اور تر جمہ ملاحظہ فر مائیں فائدہ راقم الحروف نے تحریر کیا ہے ۔(1)باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔فائدہ ! حضرت شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔۔۔۔۔ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے(2)وثانیا قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ (عقد الجید ص ۳۳تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ))فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳)3۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ عقد الجید ص ۲۹ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔فائدہ: قرآن وحدیث سے دلیل مانگے بغیر مجتہد عالم کی تقلید صحابہ کے زمانے سے جاری ہے ۔شاہ صاحب کے زمانے تک کسی صحابی ، تابعی ،امام اورمعتبر عالم نے تقلید سے نہیں روکا ۔(اور جہاں تقلید کی مذمت فرمائی گئی ہے وہ تقلید کی دوسری قسم ہے جو مقلدین کے نزدیک بھی مذموم یعنی قابل مذمت ہے)۔لیکن قارئین کرام کے لئے قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ یہ وہی بات ہے جس ایک موقع پر عارف مقصود صاحب نے فرمائی۔۔۔۔ اور ایک مثال سے محترمہ پر واضح کیا کہ تقلید شخصی کا وجود صحابہ کرام کے زمانے میں بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن ان محترمہ نے عارف مقصود بھائی کی بات سمجھنے کے بجائے الٹا اُن پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگادیا ۔۔۔۔ اب کوئی ان محترمہ کو یہ پوچھے کہ ایک عدد فتوی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ پر بھی لگائیں ۔۔۔۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے بھی تقلید شخصی کی تائید میں صحابہ کرام کی مثال دی ہے ؟؟؟(4)شاہ صاحب ،امام بغوی رحمہ اللہ کا قول بطور تا ئید نقل فرماتے ہیں ۔ ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث ۔عقد الجید9ترجمہ: اور اس شخص پر جو ان شرائط ( یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث (مسائل) میں جو اس کو پیش آئیں ۔ (5)وفی ذالک (ای التقلید ) من المصالح مالا یخفی لا سیّما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدّا واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رای برایہ۔( حجۃ اللہ ص ۳۶۱ج ۱ترجمہ: اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں ۔خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہو گئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہے اورہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر نے لگا ہے )فائدہ: اماموں کے بعد لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں ۔خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے لگےاور اپنی رائے کو قرآن وحدیث سمجھنے لگ گئے ایسے لوگوں کی تقلید جائز نہیں ۔(6)وبعد المائتین ظھرت فیھم التّمذھب للمجتھدین باَعْیَانھم وَقَلَّ مَنْ کان لا یعتمد علیٰ مذھب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔۔۔۔انصاف مع ترجمہ کشاف ۵۹ترجمہ:اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( یعنی تقلید شخصی ) کا رواج پیدا ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خا ص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں ( یعنی عموماََ تقلید شخصی کا رواج ہو گیا ) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا ۔)(7)وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہےملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟(8)وبا لجملۃ فا التمذہب للمجتہدین سرّا الہمہ اللہ تعالی العلماء جمعہم علیہ من حیثُ یشعرون اولا یشعرون ۔ انصاف مع الکشاف ص۶۳ترجمہ: الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) کے مذہب کی پابندی( یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علما ء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پر ان کو متفق کیا ہے ۔وہ تقلید کر نے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں) یعنی تقلید کی حکمت اور کوخوبی ان کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔(9)انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے (10)واسْتفدت منہ ثلاثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیلُ الیہ اشد میل فصارتْ ھذہ الاستفادۃُ من براھین الحق تعالی علی۔( فیوض الحرمین ص ۶۴)ترجمہ: مجھے ایسی باتیں حاصل ہو ئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا ۔اور اس طرف قلبی میلان با لکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہانِ حق بن گیا ۔محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی واضح ترین عبارتوں کے بعد ہمیں یہاں کے چند لوگوں (جو کچھ سیکھنا سمجھنا ہی نہیں چاہتے) کا جواب تو معلوم ہے کہ :ہم کسی کے مقلد نہیں ۔۔۔۔ یا ہم پر ان کا قول حجت نہیں لیکن یہ تمام تفصیل اُن تمام غیر جانبدار بھائیوں بہنوں کے لئے ضرور رہنمائی ہوگی ۔۔۔جو واقعتا سنیجدگی سے "حق و انصاف" کا فیصلہ کرنا جانتے ہیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان تمام صریح اقوال کے بعد تمام قارئین کرام کے سامنے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کسی بھی بزرگ کا یک طرفہ قول (یعنی تقلید کی مذمت) دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی خاص صورتحال میں قابل مذمت ہے تو دوسری طرف کسی عام صورتحال میں وہی چیز نہ صرف قابل قبول بلکہ لازم ہوجاتی ہے جیسے عام حالات میں کسی مرادر کا گوشت کھانا حرام ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہی مردار کا گوشت ایک خاص صورت (یعنی کوئی موت کے قریب ہو اور کوئی چیز میسر نہ ہو ) میں کھانے کی اجازت ہے لہذا کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ نہ کیجیے ۔۔۔۔بلکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے دوسرے کا موقف بھی معلوم کیجیے ۔مزید کسی بھی یھائی یا دوست کو کسی چیز کے سمجھنے میں کوئی دوسشواری محسوس ہو تو مخصرا ضرور لکھیے گا ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم مزید وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہاللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین(بحث برائے بحث والے حضرات سے معذرت)
jb bhs nhi krni to reply kyon krte hain???محترم قارئین کرام!یہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ایک صاحب نے کچھ فقہ ھنفی سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کے "تقلید کی مذمت" میں اقوال شئیر کئے ۔۔۔لیکن جب ہم نے ثبوت مانگا تو وہ صاحب بد اخلاقی پر اتر آئے ۔۔۔۔ اسی طرح یہاں اس تھریڈ میں ان محترمہ نے کسی کتاب کا صفحہ یہاں پوسٹ کیا ہے ۔۔۔ جس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بارور کرانے کی کوشش کی جیسے تقلید ہر دور میں انتہائی قابل مذمت چیز ہے یہاں ہم قارئین کرام کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عبارت کی وضاحت سے قبل تقلید کے حوالے سے انتہائی اہم نکتہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جو لوگ تقلید کی مذمت میں مختلف بزرگوں کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ عموما جان بوجھ کر یا انجانے میں بے خبر ہیں تقلید کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔ تقلید کی اول قسم مذموم(یعنی قابل مذمت) ہے ۔۔۔اور تقلید کی دوسری قسم محمود ہے ۔۔۔لیکن کچھ لوگ جانے انجانے میں محض تقلید کو لے کر صرف اور صرف قابل مذمت رخ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا رخ عوام کے سامنے یا تو پیش ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔بلکہ جہاں تقلید کی حمایت میں بزرگوں کے اقوال پیش کئے جائیں تو بہت آسان سا جواب دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد نہیں یا ہمارے لئے فلاں کا قول حجت نہیں (اس قول کی حقیقت ہم دوسرے تھریڈ میں واضح کرچکے ہیں)۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب آپ لوگوں کے نزدیک کسی بزرگ کا قول حجت نہیں تو پھر جب ان بزرگ کا قول تقلید کی مذمت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کے جو لوگ لفظ "تقلید" کو پکڑ کر کہیں پٹہ کا استعمال کہیں گندہ عقیدہ کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بے چارے انجان ہیں کہ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ جو لوگ "تقلید" سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کا تقلید پر اصل موقف کیا ہے ۔۔۔۔ اور اُن کے درمیان مقلدین سے اصل اختلاف کیا ہے ؟؟؟قاررئین کرام کی معملومات میں اضافہ کے لئے بتاتے چلیں کہ ان لوگوں کے اکابرین جنہوں نے عوام الناس کو ائمہ کرام کی تقلید چھوڑنے کا سبق سکھایا ۔۔۔۔ اُن کے نزدیک بھی محض"تقلید" قابل مذمت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اکابرین بھی تقلید کے جواز کے قائل ہیں ۔۔۔۔ اختلاف صرف اور صرف "تقلید مطلق اور تقلید شخصی کے درمیان ہے ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ تقلید مطلق ٓکے قائل ہیں ۔۔۔۔ اور باقی تمام امت مسلمہ تقلید شخصی یعنی کسی معینہ امام کی تقید کے قائل ہیں ۔لیکن افسوس کہ آج یہاں اس فورم کے چند نام نہاد عالم حضرات اپنے بڑوں سے بھی آگے بڑھ کر ہر قسم کی تقلید کے نہ صرف انکاری ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ہر طرح کی تقلید پر نہایےت سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں ؟؟؟اب اگر ہم یہاں ان کے لئے اکابرین کی عبارتیں پیش کریں ۔۔۔۔ تو اس فورم کے عالم حضرات کا عالمانہ جواب یہی ہوگا کہ ہم لوگ کسی کے مقلد نہیں ؟؟؟چلیں یوں بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ کسی کی بات ماننے کے پابند نہیں ۔۔۔۔ لیکن کم از کم قارئین کرام کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگا کہ یہ لوگ جو کچھ تقلید کے مذمت میں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد سوائے اس فورم کے ان چند لوگوں کے (یا ان کے ہی جیسے اور بھی چند لوگوں کے سوا) دنیا کا کوئی مسلمان بھی ان کی مذمت سے نہیں بچ سکتا ؟؟؟؟گویا ان لوگوں کے سوا یا ان ہی کے جیسے چند اور لوگوں کے سوا پوری دنیا میں اسلام کو کوئی بھی صحیح سے نہ سمجھ سکا ؟؟؟(کیوں کہ ان کے بزرگ بھی مطلق تقلید کے انکاری نہیں ۔۔۔۔ باقی تو صرف یہی چند لوگ رہ جاتے ہیں)بہرحال اس سے قبل بات طویل ہو قارئین کرام کی خدمت میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی مختلف عبارتوں کے چند نمونے آپ سب کے سامنے پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔ جس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ کس طرح"تقلید" (جو مقلدین کے نزدیک بھی قابل مذمت ہے) کا ایک رخ دکھا کر نہ صرف علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ عوام کو حقیقت حال سے بھی آگاہ نہیں کرتے ؟؟؟شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ خصوصاََ مذہب حنفی کا کیا مقام ہے ذیل میں ان کی تحریروں کے اقتباسات اور تر جمہ ملاحظہ فر مائیں فائدہ راقم الحروف نے تحریر کیا ہے ۔(1)باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔فائدہ ! حضرت شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔۔۔۔۔ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے(2)وثانیا قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ (عقد الجید ص ۳۳تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ))فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳)3۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ عقد الجید ص ۲۹ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔فائدہ: قرآن وحدیث سے دلیل مانگے بغیر مجتہد عالم کی تقلید صحابہ کے زمانے سے جاری ہے ۔شاہ صاحب کے زمانے تک کسی صحابی ، تابعی ،امام اورمعتبر عالم نے تقلید سے نہیں روکا ۔(اور جہاں تقلید کی مذمت فرمائی گئی ہے وہ تقلید کی دوسری قسم ہے جو مقلدین کے نزدیک بھی مذموم یعنی قابل مذمت ہے)۔لیکن قارئین کرام کے لئے قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ یہ وہی بات ہے جس ایک موقع پر عارف مقصود صاحب نے فرمائی۔۔۔۔ اور ایک مثال سے محترمہ پر واضح کیا کہ تقلید شخصی کا وجود صحابہ کرام کے زمانے میں بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن ان محترمہ نے عارف مقصود بھائی کی بات سمجھنے کے بجائے الٹا اُن پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگادیا ۔۔۔۔ اب کوئی ان محترمہ کو یہ پوچھے کہ ایک عدد فتوی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ پر بھی لگائیں ۔۔۔۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے بھی تقلید شخصی کی تائید میں صحابہ کرام کی مثال دی ہے ؟؟؟(4)شاہ صاحب ،امام بغوی رحمہ اللہ کا قول بطور تا ئید نقل فرماتے ہیں ۔ ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث ۔عقد الجید9ترجمہ: اور اس شخص پر جو ان شرائط ( یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث (مسائل) میں جو اس کو پیش آئیں ۔ (5)وفی ذالک (ای التقلید ) من المصالح مالا یخفی لا سیّما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدّا واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رای برایہ۔( حجۃ اللہ ص ۳۶۱ج ۱ترجمہ: اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں ۔خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہو گئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہے اورہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر نے لگا ہے )فائدہ: اماموں کے بعد لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں ۔خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے لگےاور اپنی رائے کو قرآن وحدیث سمجھنے لگ گئے ایسے لوگوں کی تقلید جائز نہیں ۔(6)وبعد المائتین ظھرت فیھم التّمذھب للمجتھدین باَعْیَانھم وَقَلَّ مَنْ کان لا یعتمد علیٰ مذھب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔۔۔۔انصاف مع ترجمہ کشاف ۵۹ترجمہ:اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( یعنی تقلید شخصی ) کا رواج پیدا ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خا ص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں ( یعنی عموماََ تقلید شخصی کا رواج ہو گیا ) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا ۔)(7)وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہےملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟(8)وبا لجملۃ فا التمذہب للمجتہدین سرّا الہمہ اللہ تعالی العلماء جمعہم علیہ من حیثُ یشعرون اولا یشعرون ۔ انصاف مع الکشاف ص۶۳ترجمہ: الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) کے مذہب کی پابندی( یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علما ء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پر ان کو متفق کیا ہے ۔وہ تقلید کر نے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں) یعنی تقلید کی حکمت اور کوخوبی ان کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔(9)انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے (10)واسْتفدت منہ ثلاثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیلُ الیہ اشد میل فصارتْ ھذہ الاستفادۃُ من براھین الحق تعالی علی۔( فیوض الحرمین ص ۶۴)ترجمہ: مجھے ایسی باتیں حاصل ہو ئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا ۔اور اس طرف قلبی میلان با لکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہانِ حق بن گیا ۔محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی واضح ترین عبارتوں کے بعد ہمیں یہاں کے چند لوگوں (جو کچھ سیکھنا سمجھنا ہی نہیں چاہتے) کا جواب تو معلوم ہے کہ :ہم کسی کے مقلد نہیں ۔۔۔۔ یا ہم پر ان کا قول حجت نہیں لیکن یہ تمام تفصیل اُن تمام غیر جانبدار بھائیوں بہنوں کے لئے ضرور رہنمائی ہوگی ۔۔۔جو واقعتا سنیجدگی سے "حق و انصاف" کا فیصلہ کرنا جانتے ہیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان تمام صریح اقوال کے بعد تمام قارئین کرام کے سامنے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کسی بھی بزرگ کا یک طرفہ قول (یعنی تقلید کی مذمت) دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی خاص صورتحال میں قابل مذمت ہے تو دوسری طرف کسی عام صورتحال میں وہی چیز نہ صرف قابل قبول بلکہ لازم ہوجاتی ہے جیسے عام حالات میں کسی مرادر کا گوشت کھانا حرام ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہی مردار کا گوشت ایک خاص صورت (یعنی کوئی موت کے قریب ہو اور کوئی چیز میسر نہ ہو ) میں کھانے کی اجازت ہے لہذا کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ نہ کیجیے ۔۔۔۔بلکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے دوسرے کا موقف بھی معلوم کیجیے ۔مزید کسی بھی یھائی یا دوست کو کسی چیز کے سمجھنے میں کوئی دوسشواری محسوس ہو تو مخصرا ضرور لکھیے گا ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم مزید وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہاللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین(بحث برائے بحث والے حضرات سے معذرت)
Assalam.....محترم قارئین کرام!یہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ایک صاحب نے کچھ فقہ ھنفی سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کے "تقلید کی مذمت" میں اقوال شئیر کئے ۔۔۔لیکن جب ہم نے ثبوت مانگا تو وہ صاحب بد اخلاقی پر اتر آئے ۔۔۔۔ اسی طرح یہاں اس تھریڈ میں ان محترمہ نے کسی کتاب کا صفحہ یہاں پوسٹ کیا ہے ۔۔۔ جس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بارور کرانے کی کوشش کی جیسے تقلید ہر دور میں انتہائی قابل مذمت چیز ہے یہاں ہم قارئین کرام کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عبارت کی وضاحت سے قبل تقلید کے حوالے سے انتہائی اہم نکتہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جو لوگ تقلید کی مذمت میں مختلف بزرگوں کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ عموما جان بوجھ کر یا انجانے میں بے خبر ہیں تقلید کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔ تقلید کی اول قسم مذموم(یعنی قابل مذمت) ہے ۔۔۔اور تقلید کی دوسری قسم محمود ہے ۔۔۔لیکن کچھ لوگ جانے انجانے میں محض تقلید کو لے کر صرف اور صرف قابل مذمت رخ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا رخ عوام کے سامنے یا تو پیش ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔بلکہ جہاں تقلید کی حمایت میں بزرگوں کے اقوال پیش کئے جائیں تو بہت آسان سا جواب دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد نہیں یا ہمارے لئے فلاں کا قول حجت نہیں (اس قول کی حقیقت ہم دوسرے تھریڈ میں واضح کرچکے ہیں)۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب آپ لوگوں کے نزدیک کسی بزرگ کا قول حجت نہیں تو پھر جب ان بزرگ کا قول تقلید کی مذمت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کے جو لوگ لفظ "تقلید" کو پکڑ کر کہیں پٹہ کا استعمال کہیں گندہ عقیدہ کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بے چارے انجان ہیں کہ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ جو لوگ "تقلید" سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کا تقلید پر اصل موقف کیا ہے ۔۔۔۔ اور اُن کے درمیان مقلدین سے اصل اختلاف کیا ہے ؟؟؟قاررئین کرام کی معملومات میں اضافہ کے لئے بتاتے چلیں کہ ان لوگوں کے اکابرین جنہوں نے عوام الناس کو ائمہ کرام کی تقلید چھوڑنے کا سبق سکھایا ۔۔۔۔ اُن کے نزدیک بھی محض"تقلید" قابل مذمت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اکابرین بھی تقلید کے جواز کے قائل ہیں ۔۔۔۔ اختلاف صرف اور صرف "تقلید مطلق اور تقلید شخصی کے درمیان ہے ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ تقلید مطلق ٓکے قائل ہیں ۔۔۔۔ اور باقی تمام امت مسلمہ تقلید شخصی یعنی کسی معینہ امام کی تقید کے قائل ہیں ۔لیکن افسوس کہ آج یہاں اس فورم کے چند نام نہاد عالم حضرات اپنے بڑوں سے بھی آگے بڑھ کر ہر قسم کی تقلید کے نہ صرف انکاری ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ہر طرح کی تقلید پر نہایےت سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں ؟؟؟اب اگر ہم یہاں ان کے لئے اکابرین کی عبارتیں پیش کریں ۔۔۔۔ تو اس فورم کے عالم حضرات کا عالمانہ جواب یہی ہوگا کہ ہم لوگ کسی کے مقلد نہیں ؟؟؟چلیں یوں بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ کسی کی بات ماننے کے پابند نہیں ۔۔۔۔ لیکن کم از کم قارئین کرام کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگا کہ یہ لوگ جو کچھ تقلید کے مذمت میں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد سوائے اس فورم کے ان چند لوگوں کے (یا ان کے ہی جیسے اور بھی چند لوگوں کے سوا) دنیا کا کوئی مسلمان بھی ان کی مذمت سے نہیں بچ سکتا ؟؟؟؟گویا ان لوگوں کے سوا یا ان ہی کے جیسے چند اور لوگوں کے سوا پوری دنیا میں اسلام کو کوئی بھی صحیح سے نہ سمجھ سکا ؟؟؟(کیوں کہ ان کے بزرگ بھی مطلق تقلید کے انکاری نہیں ۔۔۔۔ باقی تو صرف یہی چند لوگ رہ جاتے ہیں)بہرحال اس سے قبل بات طویل ہو قارئین کرام کی خدمت میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی مختلف عبارتوں کے چند نمونے آپ سب کے سامنے پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔ جس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ کس طرح"تقلید" (جو مقلدین کے نزدیک بھی قابل مذمت ہے) کا ایک رخ دکھا کر نہ صرف علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ عوام کو حقیقت حال سے بھی آگاہ نہیں کرتے ؟؟؟شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ خصوصاََ مذہب حنفی کا کیا مقام ہے ذیل میں ان کی تحریروں کے اقتباسات اور تر جمہ ملاحظہ فر مائیں فائدہ راقم الحروف نے تحریر کیا ہے ۔(1)باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔فائدہ ! حضرت شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔۔۔۔۔ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے(2)وثانیا قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ (عقد الجید ص ۳۳تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ))فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳)3۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ عقد الجید ص ۲۹ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔فائدہ: قرآن وحدیث سے دلیل مانگے بغیر مجتہد عالم کی تقلید صحابہ کے زمانے سے جاری ہے ۔شاہ صاحب کے زمانے تک کسی صحابی ، تابعی ،امام اورمعتبر عالم نے تقلید سے نہیں روکا ۔(اور جہاں تقلید کی مذمت فرمائی گئی ہے وہ تقلید کی دوسری قسم ہے جو مقلدین کے نزدیک بھی مذموم یعنی قابل مذمت ہے)۔لیکن قارئین کرام کے لئے قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ یہ وہی بات ہے جس ایک موقع پر عارف مقصود صاحب نے فرمائی۔۔۔۔ اور ایک مثال سے محترمہ پر واضح کیا کہ تقلید شخصی کا وجود صحابہ کرام کے زمانے میں بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن ان محترمہ نے عارف مقصود بھائی کی بات سمجھنے کے بجائے الٹا اُن پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگادیا ۔۔۔۔ اب کوئی ان محترمہ کو یہ پوچھے کہ ایک عدد فتوی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ پر بھی لگائیں ۔۔۔۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے بھی تقلید شخصی کی تائید میں صحابہ کرام کی مثال دی ہے ؟؟؟(4)شاہ صاحب ،امام بغوی رحمہ اللہ کا قول بطور تا ئید نقل فرماتے ہیں ۔ ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث ۔عقد الجید9ترجمہ: اور اس شخص پر جو ان شرائط ( یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث (مسائل) میں جو اس کو پیش آئیں ۔ (5)وفی ذالک (ای التقلید ) من المصالح مالا یخفی لا سیّما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدّا واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رای برایہ۔( حجۃ اللہ ص ۳۶۱ج ۱ترجمہ: اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں ۔خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہو گئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہے اورہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر نے لگا ہے )فائدہ: اماموں کے بعد لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں ۔خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے لگےاور اپنی رائے کو قرآن وحدیث سمجھنے لگ گئے ایسے لوگوں کی تقلید جائز نہیں ۔(6)وبعد المائتین ظھرت فیھم التّمذھب للمجتھدین باَعْیَانھم وَقَلَّ مَنْ کان لا یعتمد علیٰ مذھب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔۔۔۔انصاف مع ترجمہ کشاف ۵۹ترجمہ:اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( یعنی تقلید شخصی ) کا رواج پیدا ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خا ص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں ( یعنی عموماََ تقلید شخصی کا رواج ہو گیا ) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا ۔)(7)وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہےملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟(8)وبا لجملۃ فا التمذہب للمجتہدین سرّا الہمہ اللہ تعالی العلماء جمعہم علیہ من حیثُ یشعرون اولا یشعرون ۔ انصاف مع الکشاف ص۶۳ترجمہ: الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) کے مذہب کی پابندی( یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علما ء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پر ان کو متفق کیا ہے ۔وہ تقلید کر نے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں) یعنی تقلید کی حکمت اور کوخوبی ان کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔(9)انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے (10)واسْتفدت منہ ثلاثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیلُ الیہ اشد میل فصارتْ ھذہ الاستفادۃُ من براھین الحق تعالی علی۔( فیوض الحرمین ص ۶۴)ترجمہ: مجھے ایسی باتیں حاصل ہو ئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا ۔اور اس طرف قلبی میلان با لکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہانِ حق بن گیا ۔محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی واضح ترین عبارتوں کے بعد ہمیں یہاں کے چند لوگوں (جو کچھ سیکھنا سمجھنا ہی نہیں چاہتے) کا جواب تو معلوم ہے کہ :ہم کسی کے مقلد نہیں ۔۔۔۔ یا ہم پر ان کا قول حجت نہیں لیکن یہ تمام تفصیل اُن تمام غیر جانبدار بھائیوں بہنوں کے لئے ضرور رہنمائی ہوگی ۔۔۔جو واقعتا سنیجدگی سے "حق و انصاف" کا فیصلہ کرنا جانتے ہیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان تمام صریح اقوال کے بعد تمام قارئین کرام کے سامنے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کسی بھی بزرگ کا یک طرفہ قول (یعنی تقلید کی مذمت) دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی خاص صورتحال میں قابل مذمت ہے تو دوسری طرف کسی عام صورتحال میں وہی چیز نہ صرف قابل قبول بلکہ لازم ہوجاتی ہے جیسے عام حالات میں کسی مرادر کا گوشت کھانا حرام ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہی مردار کا گوشت ایک خاص صورت (یعنی کوئی موت کے قریب ہو اور کوئی چیز میسر نہ ہو ) میں کھانے کی اجازت ہے لہذا کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ نہ کیجیے ۔۔۔۔بلکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے دوسرے کا موقف بھی معلوم کیجیے ۔مزید کسی بھی یھائی یا دوست کو کسی چیز کے سمجھنے میں کوئی دوسشواری محسوس ہو تو مخصرا ضرور لکھیے گا ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم مزید وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہاللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین(بحث برائے بحث والے حضرات سے معذرت)
jb bhs nhi krni to reply kyon krte hain???
محترم قارئین کرام!یہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ایک صاحب نے کچھ فقہ ھنفی سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کے "تقلید کی مذمت" میں اقوال شئیر کئے ۔۔۔لیکن جب ہم نے ثبوت مانگا تو وہ صاحب بد اخلاقی پر اتر آئے ۔۔۔۔ اسی طرح یہاں اس تھریڈ میں ان محترمہ نے کسی کتاب کا صفحہ یہاں پوسٹ کیا ہے ۔۔۔ جس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بارور کرانے کی کوشش کی جیسے تقلید ہر دور میں انتہائی قابل مذمت چیز ہے یہاں ہم قارئین کرام کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عبارت کی وضاحت سے قبل تقلید کے حوالے سے انتہائی اہم نکتہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جو لوگ تقلید کی مذمت میں مختلف بزرگوں کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ عموما جان بوجھ کر یا انجانے میں بے خبر ہیں تقلید کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔ تقلید کی اول قسم مذموم(یعنی قابل مذمت) ہے ۔۔۔اور تقلید کی دوسری قسم محمود ہے ۔۔۔لیکن کچھ لوگ جانے انجانے میں محض تقلید کو لے کر صرف اور صرف قابل مذمت رخ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا رخ عوام کے سامنے یا تو پیش ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔بلکہ جہاں تقلید کی حمایت میں بزرگوں کے اقوال پیش کئے جائیں تو بہت آسان سا جواب دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد نہیں یا ہمارے لئے فلاں کا قول حجت نہیں (اس قول کی حقیقت ہم دوسرے تھریڈ میں واضح کرچکے ہیں)۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب آپ لوگوں کے نزدیک کسی بزرگ کا قول حجت نہیں تو پھر جب ان بزرگ کا قول تقلید کی مذمت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کے جو لوگ لفظ "تقلید" کو پکڑ کر کہیں پٹہ کا استعمال کہیں گندہ عقیدہ کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بے چارے انجان ہیں کہ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ جو لوگ "تقلید" سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کا تقلید پر اصل موقف کیا ہے ۔۔۔۔ اور اُن کے درمیان مقلدین سے اصل اختلاف کیا ہے ؟؟؟قاررئین کرام کی معملومات میں اضافہ کے لئے بتاتے چلیں کہ ان لوگوں کے اکابرین جنہوں نے عوام الناس کو ائمہ کرام کی تقلید چھوڑنے کا سبق سکھایا ۔۔۔۔ اُن کے نزدیک بھی محض"تقلید" قابل مذمت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اکابرین بھی تقلید کے جواز کے قائل ہیں ۔۔۔۔ اختلاف صرف اور صرف "تقلید مطلق اور تقلید شخصی کے درمیان ہے ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ تقلید مطلق ٓکے قائل ہیں ۔۔۔۔ اور باقی تمام امت مسلمہ تقلید شخصی یعنی کسی معینہ امام کی تقید کے قائل ہیں ۔لیکن افسوس کہ آج یہاں اس فورم کے چند نام نہاد عالم حضرات اپنے بڑوں سے بھی آگے بڑھ کر ہر قسم کی تقلید کے نہ صرف انکاری ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ہر طرح کی تقلید پر نہایےت سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں ؟؟؟اب اگر ہم یہاں ان کے لئے اکابرین کی عبارتیں پیش کریں ۔۔۔۔ تو اس فورم کے عالم حضرات کا عالمانہ جواب یہی ہوگا کہ ہم لوگ کسی کے مقلد نہیں ؟؟؟چلیں یوں بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ کسی کی بات ماننے کے پابند نہیں ۔۔۔۔ لیکن کم از کم قارئین کرام کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگا کہ یہ لوگ جو کچھ تقلید کے مذمت میں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد سوائے اس فورم کے ان چند لوگوں کے (یا ان کے ہی جیسے اور بھی چند لوگوں کے سوا) دنیا کا کوئی مسلمان بھی ان کی مذمت سے نہیں بچ سکتا ؟؟؟؟گویا ان لوگوں کے سوا یا ان ہی کے جیسے چند اور لوگوں کے سوا پوری دنیا میں اسلام کو کوئی بھی صحیح سے نہ سمجھ سکا ؟؟؟(کیوں کہ ان کے بزرگ بھی مطلق تقلید کے انکاری نہیں ۔۔۔۔ باقی تو صرف یہی چند لوگ رہ جاتے ہیں)بہرحال اس سے قبل بات طویل ہو قارئین کرام کی خدمت میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی مختلف عبارتوں کے چند نمونے آپ سب کے سامنے پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔ جس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ کس طرح"تقلید" (جو مقلدین کے نزدیک بھی قابل مذمت ہے) کا ایک رخ دکھا کر نہ صرف علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ عوام کو حقیقت حال سے بھی آگاہ نہیں کرتے ؟؟؟شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ خصوصاََ مذہب حنفی کا کیا مقام ہے ذیل میں ان کی تحریروں کے اقتباسات اور تر جمہ ملاحظہ فر مائیں فائدہ راقم الحروف نے تحریر کیا ہے ۔(1)باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔فائدہ ! حضرت شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔۔۔۔۔ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے(2)وثانیا قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ (عقد الجید ص ۳۳تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ))فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳)3۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ عقد الجید ص ۲۹ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔فائدہ: قرآن وحدیث سے دلیل مانگے بغیر مجتہد عالم کی تقلید صحابہ کے زمانے سے جاری ہے ۔شاہ صاحب کے زمانے تک کسی صحابی ، تابعی ،امام اورمعتبر عالم نے تقلید سے نہیں روکا ۔(اور جہاں تقلید کی مذمت فرمائی گئی ہے وہ تقلید کی دوسری قسم ہے جو مقلدین کے نزدیک بھی مذموم یعنی قابل مذمت ہے)۔لیکن قارئین کرام کے لئے قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ یہ وہی بات ہے جس ایک موقع پر عارف مقصود صاحب نے فرمائی۔۔۔۔ اور ایک مثال سے محترمہ پر واضح کیا کہ تقلید شخصی کا وجود صحابہ کرام کے زمانے میں بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن ان محترمہ نے عارف مقصود بھائی کی بات سمجھنے کے بجائے الٹا اُن پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگادیا ۔۔۔۔ اب کوئی ان محترمہ کو یہ پوچھے کہ ایک عدد فتوی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ پر بھی لگائیں ۔۔۔۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے بھی تقلید شخصی کی تائید میں صحابہ کرام کی مثال دی ہے ؟؟؟(4)شاہ صاحب ،امام بغوی رحمہ اللہ کا قول بطور تا ئید نقل فرماتے ہیں ۔ ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث ۔عقد الجید9ترجمہ: اور اس شخص پر جو ان شرائط ( یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث (مسائل) میں جو اس کو پیش آئیں ۔ (5)وفی ذالک (ای التقلید ) من المصالح مالا یخفی لا سیّما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدّا واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رای برایہ۔( حجۃ اللہ ص ۳۶۱ج ۱ترجمہ: اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں ۔خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہو گئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہے اورہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر نے لگا ہے )فائدہ: اماموں کے بعد لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں ۔خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے لگےاور اپنی رائے کو قرآن وحدیث سمجھنے لگ گئے ایسے لوگوں کی تقلید جائز نہیں ۔(6)وبعد المائتین ظھرت فیھم التّمذھب للمجتھدین باَعْیَانھم وَقَلَّ مَنْ کان لا یعتمد علیٰ مذھب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔۔۔۔انصاف مع ترجمہ کشاف ۵۹ترجمہ:اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( یعنی تقلید شخصی ) کا رواج پیدا ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خا ص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں ( یعنی عموماََ تقلید شخصی کا رواج ہو گیا ) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا ۔)(7)وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہےملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟(8)وبا لجملۃ فا التمذہب للمجتہدین سرّا الہمہ اللہ تعالی العلماء جمعہم علیہ من حیثُ یشعرون اولا یشعرون ۔ انصاف مع الکشاف ص۶۳ترجمہ: الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) کے مذہب کی پابندی( یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علما ء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پر ان کو متفق کیا ہے ۔وہ تقلید کر نے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں) یعنی تقلید کی حکمت اور کوخوبی ان کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔(9)انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے (10)واسْتفدت منہ ثلاثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیلُ الیہ اشد میل فصارتْ ھذہ الاستفادۃُ من براھین الحق تعالی علی۔( فیوض الحرمین ص ۶۴)ترجمہ: مجھے ایسی باتیں حاصل ہو ئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا ۔اور اس طرف قلبی میلان با لکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہانِ حق بن گیا ۔محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی واضح ترین عبارتوں کے بعد ہمیں یہاں کے چند لوگوں (جو کچھ سیکھنا سمجھنا ہی نہیں چاہتے) کا جواب تو معلوم ہے کہ :ہم کسی کے مقلد نہیں ۔۔۔۔ یا ہم پر ان کا قول حجت نہیں لیکن یہ تمام تفصیل اُن تمام غیر جانبدار بھائیوں بہنوں کے لئے ضرور رہنمائی ہوگی ۔۔۔جو واقعتا سنیجدگی سے "حق و انصاف" کا فیصلہ کرنا جانتے ہیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان تمام صریح اقوال کے بعد تمام قارئین کرام کے سامنے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کسی بھی بزرگ کا یک طرفہ قول (یعنی تقلید کی مذمت) دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی خاص صورتحال میں قابل مذمت ہے تو دوسری طرف کسی عام صورتحال میں وہی چیز نہ صرف قابل قبول بلکہ لازم ہوجاتی ہے جیسے عام حالات میں کسی مرادر کا گوشت کھانا حرام ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہی مردار کا گوشت ایک خاص صورت (یعنی کوئی موت کے قریب ہو اور کوئی چیز میسر نہ ہو ) میں کھانے کی اجازت ہے لہذا کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ نہ کیجیے ۔۔۔۔بلکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے دوسرے کا موقف بھی معلوم کیجیے ۔مزید کسی بھی یھائی یا دوست کو کسی چیز کے سمجھنے میں کوئی دوسشواری محسوس ہو تو مخصرا ضرور لکھیے گا ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم مزید وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہاللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین(بحث برائے بحث والے حضرات سے معذرت)
وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہےملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟
محترم قارئین کرام!یہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ایک صاحب نے کچھ فقہ ھنفی سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کے "تقلید کی مذمت" میں اقوال شئیر کئے ۔۔۔لیکن جب ہم نے ثبوت مانگا تو وہ صاحب بد اخلاقی پر اتر آئے ۔۔۔۔ اسی طرح یہاں اس تھریڈ میں ان محترمہ نے کسی کتاب کا صفحہ یہاں پوسٹ کیا ہے ۔۔۔ جس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بارور کرانے کی کوشش کی جیسے تقلید ہر دور میں انتہائی قابل مذمت چیز ہے یہاں ہم قارئین کرام کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عبارت کی وضاحت سے قبل تقلید کے حوالے سے انتہائی اہم نکتہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جو لوگ تقلید کی مذمت میں مختلف بزرگوں کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ عموما جان بوجھ کر یا انجانے میں بے خبر ہیں تقلید کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔ تقلید کی اول قسم مذموم(یعنی قابل مذمت) ہے ۔۔۔اور تقلید کی دوسری قسم محمود ہے ۔۔۔لیکن کچھ لوگ جانے انجانے میں محض تقلید کو لے کر صرف اور صرف قابل مذمت رخ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا رخ عوام کے سامنے یا تو پیش ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔بلکہ جہاں تقلید کی حمایت میں بزرگوں کے اقوال پیش کئے جائیں تو بہت آسان سا جواب دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد نہیں یا ہمارے لئے فلاں کا قول حجت نہیں (اس قول کی حقیقت ہم دوسرے تھریڈ میں واضح کرچکے ہیں)۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب آپ لوگوں کے نزدیک کسی بزرگ کا قول حجت نہیں تو پھر جب ان بزرگ کا قول تقلید کی مذمت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کے جو لوگ لفظ "تقلید" کو پکڑ کر کہیں پٹہ کا استعمال کہیں گندہ عقیدہ کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بے چارے انجان ہیں کہ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ جو لوگ "تقلید" سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کا تقلید پر اصل موقف کیا ہے ۔۔۔۔ اور اُن کے درمیان مقلدین سے اصل اختلاف کیا ہے ؟؟؟قاررئین کرام کی معملومات میں اضافہ کے لئے بتاتے چلیں کہ ان لوگوں کے اکابرین جنہوں نے عوام الناس کو ائمہ کرام کی تقلید چھوڑنے کا سبق سکھایا ۔۔۔۔ اُن کے نزدیک بھی محض"تقلید" قابل مذمت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اکابرین بھی تقلید کے جواز کے قائل ہیں ۔۔۔۔ اختلاف صرف اور صرف "تقلید مطلق اور تقلید شخصی کے درمیان ہے ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ تقلید مطلق ٓکے قائل ہیں ۔۔۔۔ اور باقی تمام امت مسلمہ تقلید شخصی یعنی کسی معینہ امام کی تقید کے قائل ہیں ۔لیکن افسوس کہ آج یہاں اس فورم کے چند نام نہاد عالم حضرات اپنے بڑوں سے بھی آگے بڑھ کر ہر قسم کی تقلید کے نہ صرف انکاری ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ہر طرح کی تقلید پر نہایےت سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں ؟؟؟اب اگر ہم یہاں ان کے لئے اکابرین کی عبارتیں پیش کریں ۔۔۔۔ تو اس فورم کے عالم حضرات کا عالمانہ جواب یہی ہوگا کہ ہم لوگ کسی کے مقلد نہیں ؟؟؟چلیں یوں بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ کسی کی بات ماننے کے پابند نہیں ۔۔۔۔ لیکن کم از کم قارئین کرام کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگا کہ یہ لوگ جو کچھ تقلید کے مذمت میں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد سوائے اس فورم کے ان چند لوگوں کے (یا ان کے ہی جیسے اور بھی چند لوگوں کے سوا) دنیا کا کوئی مسلمان بھی ان کی مذمت سے نہیں بچ سکتا ؟؟؟؟گویا ان لوگوں کے سوا یا ان ہی کے جیسے چند اور لوگوں کے سوا پوری دنیا میں اسلام کو کوئی بھی صحیح سے نہ سمجھ سکا ؟؟؟(کیوں کہ ان کے بزرگ بھی مطلق تقلید کے انکاری نہیں ۔۔۔۔ باقی تو صرف یہی چند لوگ رہ جاتے ہیں)بہرحال اس سے قبل بات طویل ہو قارئین کرام کی خدمت میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی مختلف عبارتوں کے چند نمونے آپ سب کے سامنے پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔ جس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ کس طرح"تقلید" (جو مقلدین کے نزدیک بھی قابل مذمت ہے) کا ایک رخ دکھا کر نہ صرف علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ عوام کو حقیقت حال سے بھی آگاہ نہیں کرتے ؟؟؟شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ خصوصاََ مذہب حنفی کا کیا مقام ہے ذیل میں ان کی تحریروں کے اقتباسات اور تر جمہ ملاحظہ فر مائیں فائدہ راقم الحروف نے تحریر کیا ہے ۔(1)باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔فائدہ ! حضرت شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔۔۔۔۔ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے(2)وثانیا قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ (عقد الجید ص ۳۳تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ))فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳)3۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ عقد الجید ص ۲۹ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔فائدہ: قرآن وحدیث سے دلیل مانگے بغیر مجتہد عالم کی تقلید صحابہ کے زمانے سے جاری ہے ۔شاہ صاحب کے زمانے تک کسی صحابی ، تابعی ،امام اورمعتبر عالم نے تقلید سے نہیں روکا ۔(اور جہاں تقلید کی مذمت فرمائی گئی ہے وہ تقلید کی دوسری قسم ہے جو مقلدین کے نزدیک بھی مذموم یعنی قابل مذمت ہے)۔لیکن قارئین کرام کے لئے قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ یہ وہی بات ہے جس ایک موقع پر عارف مقصود صاحب نے فرمائی۔۔۔۔ اور ایک مثال سے محترمہ پر واضح کیا کہ تقلید شخصی کا وجود صحابہ کرام کے زمانے میں بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن ان محترمہ نے عارف مقصود بھائی کی بات سمجھنے کے بجائے الٹا اُن پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگادیا ۔۔۔۔ اب کوئی ان محترمہ کو یہ پوچھے کہ ایک عدد فتوی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ پر بھی لگائیں ۔۔۔۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے بھی تقلید شخصی کی تائید میں صحابہ کرام کی مثال دی ہے ؟؟؟(4)شاہ صاحب ،امام بغوی رحمہ اللہ کا قول بطور تا ئید نقل فرماتے ہیں ۔ ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث ۔عقد الجید9ترجمہ: اور اس شخص پر جو ان شرائط ( یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث (مسائل) میں جو اس کو پیش آئیں ۔ (5)وفی ذالک (ای التقلید ) من المصالح مالا یخفی لا سیّما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدّا واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رای برایہ۔( حجۃ اللہ ص ۳۶۱ج ۱ترجمہ: اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں ۔خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہو گئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہے اورہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر نے لگا ہے )فائدہ: اماموں کے بعد لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں ۔خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے لگےاور اپنی رائے کو قرآن وحدیث سمجھنے لگ گئے ایسے لوگوں کی تقلید جائز نہیں ۔(6)وبعد المائتین ظھرت فیھم التّمذھب للمجتھدین باَعْیَانھم وَقَلَّ مَنْ کان لا یعتمد علیٰ مذھب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔۔۔۔انصاف مع ترجمہ کشاف ۵۹ترجمہ:اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( یعنی تقلید شخصی ) کا رواج پیدا ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خا ص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں ( یعنی عموماََ تقلید شخصی کا رواج ہو گیا ) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا ۔)(7)وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہےملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟(8)وبا لجملۃ فا التمذہب للمجتہدین سرّا الہمہ اللہ تعالی العلماء جمعہم علیہ من حیثُ یشعرون اولا یشعرون ۔ انصاف مع الکشاف ص۶۳ترجمہ: الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) کے مذہب کی پابندی( یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علما ء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پر ان کو متفق کیا ہے ۔وہ تقلید کر نے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں) یعنی تقلید کی حکمت اور کوخوبی ان کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔(9)انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے (10)واسْتفدت منہ ثلاثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیلُ الیہ اشد میل فصارتْ ھذہ الاستفادۃُ من براھین الحق تعالی علی۔( فیوض الحرمین ص ۶۴)ترجمہ: مجھے ایسی باتیں حاصل ہو ئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا ۔اور اس طرف قلبی میلان با لکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہانِ حق بن گیا ۔محترم قارئین کرام ۔۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی واضح ترین عبارتوں کے بعد ہمیں یہاں کے چند لوگوں (جو کچھ سیکھنا سمجھنا ہی نہیں چاہتے) کا جواب تو معلوم ہے کہ :ہم کسی کے مقلد نہیں ۔۔۔۔ یا ہم پر ان کا قول حجت نہیں لیکن یہ تمام تفصیل اُن تمام غیر جانبدار بھائیوں بہنوں کے لئے ضرور رہنمائی ہوگی ۔۔۔جو واقعتا سنیجدگی سے "حق و انصاف" کا فیصلہ کرنا جانتے ہیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان تمام صریح اقوال کے بعد تمام قارئین کرام کے سامنے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کسی بھی بزرگ کا یک طرفہ قول (یعنی تقلید کی مذمت) دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی خاص صورتحال میں قابل مذمت ہے تو دوسری طرف کسی عام صورتحال میں وہی چیز نہ صرف قابل قبول بلکہ لازم ہوجاتی ہے جیسے عام حالات میں کسی مرادر کا گوشت کھانا حرام ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہی مردار کا گوشت ایک خاص صورت (یعنی کوئی موت کے قریب ہو اور کوئی چیز میسر نہ ہو ) میں کھانے کی اجازت ہے لہذا کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ نہ کیجیے ۔۔۔۔بلکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے دوسرے کا موقف بھی معلوم کیجیے ۔مزید کسی بھی یھائی یا دوست کو کسی چیز کے سمجھنے میں کوئی دوسشواری محسوس ہو تو مخصرا ضرور لکھیے گا ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم مزید وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہاللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین(بحث برائے بحث والے حضرات سے معذرت)
یار چراغ صاحب آپ لوگوں کے ساتھ یہی پرابلم ہے جس وجہ سے آپ کے ٹیگ کئے ہوئے تھریڈز میں نہ تو ہم پڑھتے ہیں اور نہ ہی آپ جیسے دوستوں کی پوسٹوں کا جواب دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔۔۔۔ کیوں کہ آپ لوگوں کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ آپ لوگ دوسرے کی بات سمجھنا تو دور کی بات پڑھنا تک گوارا نہیں کرتے ۔۔۔۔۔ اور جب جواب دیتے ہیں تو کبھی بھی سوال کے مطابق نہیں ہوتا ۔۔۔۔ یا تو وہی پرانے رٹی رٹائی باتیں دہراتےدیتے ہیں ۔۔۔۔ جن کے جوابات وقتا فوقتا مختلف تھریڈز میں دئیے جاچکے ہیں ۔۔۔۔ یا پھر ادھر ادھر کی غیر متعلقہ بحث لے کر شروع ہوجاتے ہین ۔۔۔۔اور ہماری وضاحت کے جواب میں آپ کا یہ جواب ہماری بات کا بہترین ثبوت ہے کہ موضوع کیا تھا ؟؟؟ہم نے کس چیز کی وضاحت کی ہے ؟؟؟اور آپ نے جواب کس چیز کا دیا ہے ؟؟؟؟بس اسی لئے ہم نے لکھا ہے کہ بحث برائے بحث کرنے والے حضرات سے معذرت
Bhai rati rataiy doston ke jawab ke liye aanabara problem ??tameez se baat kiya karen bhai sahabbaat mauzu hi per mene bhi ki haikyunke mauzu taqleed per thataqleed bad me shuru huwi pehle nahin thiis per tha aur wahaan Shah mohdis dahelvi rahemullah alaeheke aqwaal the so aap ne kaha ke pehle bhi ho chuka haike hanafiyon ke qoul peish kiye to wo janabbe adabi pe utar aaye etc extra aur ye saabit karne ki bharpoor koshish kiye aapke Shah sahab taqleed ke haq me hi hain so mene Imam Abu Hanifa rahemullah alaehetak ke aqwaal peish kiye aur aap se sawal kiya keab bhi aap kahoge ke taqleed sahi hai ?? to aapmuqallid hi nahin rahoge..behes nahin karni naa sahilekin jawab adabana lihaz se dijiyega aaiynda
YE HOTA HAI TAQLEED KA ANJAM MAIN NE QOL KI WAZAHAT KI OR IBARAT KAY BARAY MAI BTAYA MAGAR AP NE USE RAD KR DIAجزاک اللہ ناصر بھائی، بہت اچھے طریقے سے آپ نے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے حوالوں سے تقلید کی وضاحت کی.
شاہ صاحب کی اس عبارت سے یہ سبط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ ان چاروں مذاہب کی تقلید کو جائز سمجھتے تھے جب کہ شاہ صاحب ہر گز وہ مطلب نہیں ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے،اس عبارت سے پہلے اور بعد کی عبارتیں اس کی تردید کرتی ہیں، جو کے یہ ہیں:اس مقام کے مناسب یہ ہے کہ ان مسائل سے لوگوں کا آگاہ کر دیا جاۓ کہ جن صحراؤں میں افہام بہک گۓ قدم لغزش کھا گۓ اور قلموں نے کج روی کی ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہے مذاہب اربعہ جو مدون ہو چکے ہیں اور تحریر میں آ چکے ہیں وغیرہ وغیرہاس آگے آپکی بیان کی ہی عبارت ہے، ان کا مطلب یہ تھا کہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ تقلید جائز ہے اور اس میں مصلحتیں ہیں اور یہ کہ اس کے جواز پر امّت کا اجماع ہے تو یہ سب کچھ غلط فہمی ہے افہام بہک گۓقدم لغزش کھا گۓ اور قلموں نے کج روی کی،،لیکن کچھ لوگ جانے انجانے میں محض تقلید کو لے کر صرف اور صرف قابل مذمت رخ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا رخ عوام کے سامنے یا تو پیش ہی نہیں کرتےیہ الفاظ اپ کے ہی ہیں جب کہ آدھی ادھوری باتوں کو لے کر اپنا مطلب نکالنا مقلدین کا کام ہے جیسا کہ آدھی عبارت کو پیش کیا گیا، اس سے پہلے میں نے امام ابن تیمیہ کے قول کی وضاحت کی تھی.
YE HOTA HAI TAQLEED KA ANJAM MAIN NE QOL KI WAZAHAT KI OR IBARAT KAY BARAY MAI BTAYA MAGAR AP NE USE RAD KR DIA
YANI K AP APNE IN DOST K B MUQALLID HAIN??? KYO K AP NE SAHI BAT K SAMNE APNE IN DOST KI BAT MAANI OR SAHI BAT KO RAD KR DIA.
yehi nasehat zara MUSLIM sahib ko bhi de deejye ga.
yr yeh to bata den shiz ne jo apke bataye hoye Qoul ko adhura Qoul keh kr pura Qoul dikhaya hai woh thik hai ya ghaltانا للہ وانا الیہ راجعون
yr yeh to bata den shiz ne jo apke bataye hoye Qoul ko adhura Qoul keh kr pura Qoul dikhaya hai woh thik hai ya ghalt
take ap logon ki ilmi behes dekhne walon ko b yaqin ho sake ke yahanpr javab Innah Lillahe Wa innah Ilyihi Raji Oon keh kr goul nhi kye ja rhe
kia hy bade bhai kch din nahi tha my aap bechain ho gaye har jagah mere naam ka wird karreyehi nasehat zara MUSLIM sahib ko bhi de deejye ga.