Coffe With Rr- Dr. Maqsood Hasni!

  • Work-from-home

thefire1

TM Star
May 31, 2014
1,802
586
163
Assalaam-O-alaikum Uncle

Bohat hi khoobsurat jawaab diye aap nay, humain inn sab bohat kuch seekhnay aur samajhnay ka mouqa mila jiss kay liye hum sab aap kay bayhadh mamnoon-o-mashkoor hain.

aap nay jiss tehreer ka zikar kia hay, woh isi site per moujodd hay, agar hay tou uss ka 'link' inaayat farmayay, yaa section bata dain main khudh dhoondh laita hoon, I can wait to read it. :)

ALLAH SWT aap ko bhi aasaniyon main rakhay aur aap ki tamam dili naik aur jayiz khuwahishaat ko qaubool-o-manzoor karay ameen.

Khush rahyeh :)


 

is hawala se mai mazmoon ....mohavra pait se hona ke haqiqi maeni.....ho sakay to zaroor parh lain

Allah aap ko asanioon main rakhe
 
  • Like
Reactions: dr maqsood hasni

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
73
kasur, pakistan
1. ji haan
2. ammi abba ke bagheiar abba 1988 main chalay gay immi 1996 main choor gaein
3. zindgi ka her lamha tabdili lata hai
4. mein khaidari kam hi karta hoon yah kaam aap ki amman hi karti hain haan 1988 main ghalib ke diwan ka mosawar edion anarkali se mil gaya tha is par aagha ghulam hussain ke dast'khat hain aur 1951 darj hai
5. koee nhain haan albata yah zaroor khaesh rahi hai kah main Allah aur Hazoor Karim ka ho jaoon.
6. jab dostoon main koee lar parta hai to jhoot bolta hoon kah woh to aap ki tarifain kar raha tha. yah jhoot donoon se bolta hoon
7. Khuda lagti kehta hoon mujhy khanay se koee dilchaspi nahain. jo aa jata hai kha laita hoon sath sath kaam bhi karta rehta hoon. woh bhi mukhtasar mukhtasar. haan cha'ay cig. chalta rehta hai.
8.sada aur aam si zindgi gozar raha hoon aur khush hoon
9. ghalt ho ja'ay aur mujhy mehsous bhi ho to moafi mangnay main dair nahain karta
bare logoon se ta'alaqaat nahain hain is liay moafi mangnay ki zarorat hi paish nahain aati aur yah Allah ka mujh na'cheez par bohat bat ehsan hai.
6. maan ke pas baith kar aur oon ke diay ko khaoon
abba ke sath baith kar batain karoon aur oon ki sonoon
 

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
73
kasur, pakistan
Assalaam-O-alaikum Uncle

Bohat hi khoobsurat jawaab diye aap nay, humain inn sab bohat kuch seekhnay aur samajhnay ka mouqa mila jiss kay liye hum sab aap kay bayhadh mamnoon-o-mashkoor hain.

aap nay jiss tehreer ka zikar kia hay, woh isi site per moujodd hay, agar hay tou uss ka 'link' inaayat farmayay, yaa section bata dain main khudh dhoondh laita hoon, I can wait to read it. :)

ALLAH SWT aap ko bhi aasaniyon main rakhay aur aap ki tamam dili naik aur jayiz khuwahishaat ko qaubool-o-manzoor karay ameen.

Khush rahyeh :)
idhar khaein ho ga dobara se rakh raha hoon:




محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی

ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا‘ پروفیسر! کوئی کام بھی کرتے ہو‘ یا صرف باتوں کی کھٹی کھاتے ہو۔ انھوں نے مزید فرمایا‘ مجھے تو یہ طبقہ فارغ ہی لگتا ہے۔
پروفیسر بیک وقت تین کام کرتا ہے
١۔ معلومات فراہم کرتا ہے
٢۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا‘ بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا ہے‘ گویا رویے تشکیل دیتا ہے۔
٣۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔
ایک شخص‘ آٹھ گھنٹے بیالیس منٹ جسمانی کام کرتا ہے‘ جب کہ پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے‘ دونوں برابر کی‘ تھکاوٹ محسوس کرتےہیں۔ پروفیسر جو سوچتا ہے‘ وہ ڈیلور بھی کرتا ہے۔ گویا جسمانی کام کرنے والوں سے‘ پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔
شاید ہی‘ کوئی ایسا پروفیسر ہو گا‘ جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئ موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے‘ تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے میں مبتلا ہو گا۔ مناسب انداز سے‘ فکری نکاسی نہ ہونے کے سبب بھی‘ موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان‘ دونوں خطرے کی توپ کے دہانے پر‘ ڈیرہ گزیں رہتے ہیں‘ اس لیے‘ ڈیلوری ایسا آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا‘ تو کسی خاتون سے پوچھ لیں‘ کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار ہوتا ہے۔ کوئ خاتون خفیہ بات‘ دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ میں نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں‘ پروفیسر تو الگ‘ کہ اس کا کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر‘ بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی‘ خفیہ بات یا کسی کا کوئی انتہائی حساس راز‘ زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہ ہی ہیں۔
آج‘ موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے‘ بات ہو رہی تھی۔ سوال اٹھ سکتا ہے‘ وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے‘ وہ کھا کھا کر موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے‘ اسی فیصد اتفاق نہیں۔ معدہ کی بیماری کے سبب‘ کوئ تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک طرف معدہ پرابلم‘ دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ‘ تو تیسری طرف رازوں کی عدم نکاسی۔
کسی موٹے تھانیدار پر‘ کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر کہہ کر چڑھا دیں‘ وہ‘ وہ راز اگلے گا‘ کہ عقل سوچ اور دل و دماغ کی روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے افسروں‘ نبی نما سیاست دانوں سیٹھوں‘ مذہبی لوگوں کے وہ وہ راز ہوتے ہیں‘ جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو‘ علم نہیں ہوتا۔ اس مدے پر بات کرنا ہی فضول بات ہے‘ کیوں کہ تھانیدار ان لوگوں پر تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار‘ عوام کو گز رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا شرفاء کے اعلی طبقے میں شمار ہوتا ہے۔
۔سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا‘ بڑا ہی مشکل‘ بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ‘ پہلے سوال کی طرح‘ لازمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات آئی ہو گی‘ کہ مرنے والے کا کوئی قریبی رو نہ رہا ہو‘ تو اس کو رولانے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ میں رہتی ہے‘ کہ اس قریبی نے‘ اس کی موت پر شکر کا سانس لیا ہو۔ دلوں کے حال الله ہی جانتا ہے‘ اس لیے بات پردہ میں ہی رہ جاتی ہے۔ تاہم اس کا کچھ ہی دنوں میں‘ پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔ اس حوالہ سے‘ کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے‘ بڑا ہی پاپ لگتا ہے۔ کسی موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوتا ہے۔
آج ہی کی بات ہے‘ بشپ صاحب کی طرف سے‘ امن سیمینار منعقد ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے‘ بد ہضمی اور گیس کا شکار ہوں۔ کیا کروں‘ میں بات نہیں کر سکتا‘ کہ لالہ جو گولیاں اور چھتر کھا رہے ہیں‘ انھیں امن کی کتھا سنا رہے ہو اور جو گولیاں اور چھتر مار رہا ہے‘اس کے معاملہ میں آنکھ بند کیے ہوئے ہو۔ میں یہ سب کہہ نہیں سکتا۔ کمزور‘ بوڑھا اور بیمار آدمی ہوں۔ میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ کے سوا‘ کچھ نہیں۔
ایک موبائل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قائد اعظم کے پاس‘ ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے‘ مقدمہ لڑا اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں‘ کل آپ نہ ہوئے‘ تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا‘ نوٹوں پر چھپی میری تصویر‘ ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن پڑا ہے‘ کہ نوٹ‘ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ ایسےبرے وقتوں میں‘ خاموشی ہی بہتر اور کارگر ہتھیار ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے‘ تو ہوتا رہے‘ مجھے کیا پڑی ہے‘ جو اس امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا لازم آتا ہے‘ کہ کہو گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ‘ چپ رہو‘ سکون کی گزارو۔ اؤں آں اور ہائے وائے کرکے‘ دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو۔
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
kahan kya?
hum to bs waqfy waqfy se aapka zikr krrhy hyn taky uncle g aapko bhul na jyen :cigar
umar ka taqaza jo hy :D
uncle mje nahi bhool sktay main un ko .. hum dono aik raaz hain dafan ess foram kay seenay main.... dhoodnay walon ne kia kia nahi dhooonda... par hum ko na koi dhoond ska...
 

Rubi

๋• ˆ⌣ˆ ● ĴнαLLi ● ˆ⌣ˆ •๋
Hot Shot
Aug 17, 2010
47,979
14,096
913
WoℵdeℜLaℵd ツ
chalo fer us din se daro jab TM ny aap dono ko b usi raaz k saath dafna dena hy :D
uncle mje nahi bhool sktay main un ko .. hum dono aik raaz hain dafan ess foram kay seenay main.... dhoodnay walon ne kia kia nahi dhooonda... par hum ko na koi dhoond ska...
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
dr maqsood sahib ka aik khoobsorat mazmoomn


ان پڑھ


کمال اے‘ اکرم کو میں نہیں جانتا‘
ہم ایک ہی محلہ میں‘ رہتے ہیں۔ ہمارا بچپن‘ ایک ساتھ گزرا ہے۔ ہمارا شروع سے‘ دن میں‘ ایک دو بار‘ ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ وہ دوسری جماعت سے‘ آگے نہ بڑھ سکا۔ کند ذہن کا مالک تھا۔ مسجد میں بھی‘ نہ چل سکا۔ وہ تو خیر‘ امام مسجد صاحب کی‘ روز اول کی‘ پھینٹی برداشت نہ کر سکا۔ امام مسجد صاحب نے‘ تین چار مرتبہ‘ سبق بتایا‘ لیکن وہ یاد نہ کر سکا۔ انہیں تاؤ آ گیا‘ کان پکڑا کر‘ ایسا وجایا‘ کہ آج بھی‘ یاد کرتا ہو گا۔

اس نے نان چنے کی ریڑھی لگا لی۔ میں نے تعلیم جاری رکھی۔ میں نے درجہ دوئم میں‘ بی اے پاس کیا اور اچھی پوسٹ پر تعینات ہو گیا۔ صرف دو سال ہوم اسٹیشن نہ ملا۔ یہ ہی میرے اوراس کے‘ جدائی کے دن تھے۔ میں جب بھی چھٹی پر آتا‘ اسے ضرور ملتا۔ مجھے ہر بار‘ نیا اکرم ملتا۔ اب جب کہ میں ہوم اسٹیشن پر ہوں‘ اس لیے میری اور اس کی‘ ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ اکرم‘ وہ اکرم نہیںتھا ۔ مزاج میں حد درجہ کی سنجیدگی اور متانت آگئی تھی۔۔ میں نے بات بات پر‘ اسے قہقہے لگاتے نہیں دیکھا۔ مسکراہٹ میں بھی‘ سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوتا۔ اس سے بڑھ کر‘ بات تو یہ تھی‘ کہ جب کوئی بات کرتا‘ تو یوں لگتا‘ جیسے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر‘ واپس پلٹا ہو۔ اس کی ہر بات میں معقولیت‘ تجربہ اور دلیل ہوتی۔

میری بات کا‘ یہ مطلب نہ لیا جائے‘ کہ مجھے کوئی جلاپا تھا۔ لوگ‘ اسے بڑی عزت دیتے اور اس کی قدر بھی کرتے تھے۔ اس کے برعکس‘ میں پڑھا لکھا اور معقول ملازمت رکھتے ہوئے بھی‘ لوگوں سے‘ اس سی عزت اور احترام حاصل نہ کر پایا تھا۔ اس کی بیوی‘ پورے محلے میں‘ شیداں کپتی کے نام سے‘ جانی جاتی تھی۔ وہ بولتے نہ تھکتی تھی۔ گھر میں؛ اس نے اکرم کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ مجال ہے‘ اس نے کبھی اپنی بیوی کی‘ کسی سے شکایت کی ہو۔ ایک بار اس کے بھائی نے‘ اکرم کو شیداں کو طلاق دے‘ کر کسی دوسری عورت سے‘ شادی کر لینے کا مشورہ دیا۔ اس کے بھائی کے ہاتھ میں‘ رشتہ بھی تھا۔ اکرم نے‘ مسکراتے ہوئے‘ فقط چندد جملوں میں بات ختم کر دی۔

اس کا کہنا تھا: آنے والی‘ نہ لڑے گی‘ فطرت کو کون بدل سکتا ہے۔ روز اول سے‘ سب اسی طرح چلا آتا ہے۔ الله نے‘ آدمی کو لاتعداد‘ صلاحیتوں سے‘ نوازا ہے۔ توازن کے لیے‘ مرد کا عورت سے‘ ملاپ رکھ دیا ہے۔ ورنہ یہ کائنات کے‘ پاؤں زمین پر نہ آنے دیتا۔

کمال صاحب‘ حج کرکے آئے۔ سب انہیں مبارک باد کہنے کے لیے‘ ان کے ہاں‘ حاضر ہوئے۔ اکرم بھی‘ انہیں مبارک باد کہنے کے لیے حاضر ہوا۔ باتوں ہی باتوں میں‘ عصری جبریت اور معاشی و معاشرتی گھٹن کا ذکر چل نکلا۔ اس کو ختم کرنے کے لیے‘ ہر کوئی اپنی رائے رکھتا تھا۔ اکرم سب کی‘ خاموشی سے‘ باتیں سن رہا تھا۔

ایک صاحب کے خیال میں‘ حقیقی جمہوریت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ نصیر صاحب کا خیال تھا‘ کہ اسلامی جمہوریت سے ہی‘ ہر قسم کی خرابی دور ہو سکتی ہے۔ نبی بخش کا خیال تھا‘ کہ خلافت زندگی کو‘ آسودہ کر سکتی ہے۔ اکرم نے‘ ہر تین نظام پر بات کی‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ
جمہوریت‘ قطعی غیر فطری نظام ہے۔ عوام کون ہوتے ہیں‘ حکومت کرنے والے۔ حکومت کا حق‘ صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ حکومت عوام کے ذریعے نہیں‘ قرآن و سنت کے ذریعے ہی‘ اصولی اور فطری بات ہے۔
اسلامی جمہوریت‘ تو ایسی ہی بات ہے اسلامی چوری‘ اسلامی قتل‘ اسلامی زنا وغیرہ
کس خلافت کی بات کرتے ہو‘ جس نے منصور کو‘ شہید کیا۔ نام بدلنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ تھی تو بادشاہت‘ باپ کے بعد بیٹا۔ کام بھی ان کے باشاہوں والے تھے۔
شرف علی بولا: پھر تم بتاؤ‘ کیا ہونا چاہیے۔
بھائی! مسلہ اس وقت تک حل نہ ہو گا‘ جب تک‘ انسان کا اندر نہیں بدلا جاتا۔ انبیا اور صالیحین‘ یہ ہی تو کرنے کی‘ کوشش کرتے آئے ہیں۔
ریاض بولا: یہ تو نہیں ہو سکتا۔ نامکنات میں ہے۔
اگر یہ نہیں ہو سکتا‘ تو کوئی بھی نظام‘ خرابی دور نہ کر سکے گا۔ لوگ تو‘ یہ ہی رہیں گے نا۔ استحصال کرنے والے‘ اپنی ڈگر پر رہیں گے۔ کم زور‘ کوہلو کا بیل بنا رہے گا۔ لکھ لو‘ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ ۔
وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔

اس قسم کی باتیں‘ ایک چٹا ان پڑھ‘ کس طرح کر سکتا ہے۔ ناممکن‘ قطعی ناممکن۔ میں گڑبڑا گیا۔ نان چنے بیچنے والا‘ اس قسم کی باتیں کر ہی نہیں سکتا۔ اسے خداداد صلاحیت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میری نظر سے‘ سیکڑوں‘ ان پڑھ گزرے ہیں‘ ایسا ان پڑھ‘ میں نے نہیں دیکھا۔ اگر اس قسم کے ان پڑھ‘ پیدا ہو جائیں‘ تو اس قوم کی قسمت ہی نہ بدل جائے۔

وہ کھرا سودا بیچتا تھا‘ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ اسے گاہکی بڑی پڑتی تھی۔ بےایمانی اور ہیرا پھیری یا غلط بیانی‘ تو اس کے کاغذوں میں ہی نہ لکھی تھی‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ کہ وہ ان چیزوں سے‘ سخت نفرت کرتا تھا۔ کسی سے‘ ادھار نہیں کرتا تھا‘ ہاں ضرورت مند کا پیٹ بھر دیتا تھا۔ ادھار لیتا بھی نہ تھا۔ کہتا تھا‘ پتا نہیں‘ سانس کب ساتھ چھوڑ جائے‘ میرا ادھار‘ کوئی دوسرا کیوں چکائے۔

میں اس انوکھے ان پڑھ کی‘ ٹوہ میں لگ گیا۔ اس کے معمولات جان کر ہی‘ اصل حقیقت‘ تک‘ رسائی ممکن تھی۔ صبح سویرے‘ اٹھ جاتا۔ مسجد میں‘ ہر قماش کے لوگ ملتے ہیں۔ وہ وہاں سب سے‘ سلام دعا کرتا۔ ہاں ماسٹرلال دین صاحب سے‘ ناصرف بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ ملاتا‘ بلکہ بغل گیر بھی ہوتا۔ ان کے درمیان‘ بات کم ہی ہوتی‘ ہاں پرخلوص مسکراہٹ کا تبادلہ‘ ضرور ہوتا۔ مسجد سے فراغت کے بعد ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب کے ہاں‘ حاضر ہوتا۔ حضرت سید حیدر امام صاحب کے قدم لیتا۔ وہ اس سے‘ ہاتھ ملاتے‘ گلے ملتے‘ بڑی محبت سے‘ اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے۔ اسے مسکرا کر دیکھتے۔ شام کی نماز کے بعد بھی‘ اس کا یہ ہی معمول ہوتا۔ جب کبھی‘ کوئی پڑھا لکھا‘ محلہ میں‘ کسی کے ہاں‘ مہمان ہوتا‘ وہ اسے ملنے ضرور جاتا۔ اس سے‘ بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ ملاتا اور اسے گلے ضرور ملتا۔ تحفہ میں‘ دو نان اور کچھ چنے لے جانا نہ بھولتا۔

اکرم اچھا خاصا تھا۔ ستاون سال‘ عمر کم نہیں‘ تو اتنی زیادہ بھی نہیں۔ اچھا خاصا‘ چلتا پھرتا تھا۔ چہرے پر‘ بڑھاپے کا‘ دور تک‘ اتا پتا بھی نہ تھا۔ وہ بوڑھا بھی تو نہ تھا‘ اچانک چل بسا۔ وہ یہاں‘ مہمانوں کی طرح رہا۔ اکٹھا کر لینے کی ہوس‘ اس میں بالکل نہ تھی۔ جو‘ اور جتنا ملا‘ اسی پر‘ گزارا کرتا رہا۔ یہ کیا ہوا‘ صبح کی جماعت میں شریک تھا‘ شام کو‘ لوگ‘ اس کے جنازہ میں‘ شامل تھے۔ ہر زبان پر‘ اکرم چل بسا‘ تھا۔ ہائیں‘ یہ کیسا جانا ہوا۔ جانے سے پہلے‘ جانے کے‘ اثار تک نہ تھے۔ ابھی زندہ تھا‘ ابھی فوت ہو گیا۔ یہ مرنا بھی‘ کیسا مرنا ہوا۔ آج اس کا ساتواں تھا۔ اس کے اپنوں میں‘ گنتی کے چند لوگ تھے۔ محلہ کا‘ شاید ہی کوئی شخص رہ گیا ہو گا۔

ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔ وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔ حالات اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا علاقہ‘ ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جلال تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش آنسو رواں تھے

اب میرے پاس‘ اس کی فراست اور متانت کے‘ دونوں سرے تھے۔ حضور کریم نے‘ ہاتھ ملانے اور ایک دوسرے سے گلے ملنے کی‘ کیوں تاکید کی تھی۔ ہاتھ ملانے سے‘ ناصرف ریکھاوں کا ملن ہوتا ہے‘ بلکہ نادانستہ طور پر‘ جذبات‘ اطوار اور دانش بھی منتقل ہوتی ہے۔ جب کوئی گناہ گار‘ کسی صالح سے‘ ہاتھ ملاتا ہے تو مثبت عناصر منتقل ہو جاتے ہیں۔
دوسرے سرے پر یہ مقولہ موجود تھا: صحبت صالح‘ صالح کند صحبت طالع‘ طالع کند
جس طرح‘ سگریٹ کی عادت چھوڑنے سے‘ نہیں چھٹتی‘ اسی طرح‘ اچھا کرنے کی عادت‘ جو انسان اپنی فطرت میں‘ لے کر جنم لیتا ہے‘ دم نہیں توڑ سکتی۔ اگر یہ چھٹنے کی ہوتی‘ تو سقراط کبھی زہر نہ پیتا۔ حسین کیوں کربلا تک آتے۔ منصور کو کیا پڑی تھی‘ کہ قتل ہوتا‘ پھر اگلے دن جلایا جاتا‘ اس سے اگلے دن‘ اس کی رکھ اڑائی جاتی۔
اکرم‘ باعمل ان پڑھ تھا۔ ہم‘ بےعمل پڑھے ہیں۔ اس کی ان پڑھی‘ ہم سے‘ بدرجہا بہتر تھی۔ ہم نے جو پڑھا‘ ہمیشہ اس کے برعکس عمل کیا۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے‘ اکرم پڑھا ہوا‘ باحکمت شخص تھا۔ ہم‘ ان پڑھ اور حکمت و دانش سے محروم لوگ ہیں۔
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
chalo fer us din se daro jab TM ny aap dono ko b usi raaz k saath dafna dena hy :D
jo dar gaya woh mr gaya..
anay walay bacho kay lie ibrat ho gi... keh miss rubi ne aik behroopia ko janany ki koshish ki jis kay bht roop thay
 

thefire1

TM Star
May 31, 2014
1,802
586
163
idhar khaein ho ga dobara se rakh raha hoon:



محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی

ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا‘ پروفیسر! کوئی کام بھی کرتے ہو‘ یا صرف باتوں کی کھٹی کھاتے ہو۔ انھوں نے مزید فرمایا‘ مجھے تو یہ طبقہ فارغ ہی لگتا ہے۔
پروفیسر بیک وقت تین کام کرتا ہے
١۔ معلومات فراہم کرتا ہے
٢۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا‘ بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا ہے‘ گویا رویے تشکیل دیتا ہے۔
٣۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔
ایک شخص‘ آٹھ گھنٹے بیالیس منٹ جسمانی کام کرتا ہے‘ جب کہ پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے‘ دونوں برابر کی‘ تھکاوٹ محسوس کرتےہیں۔ پروفیسر جو سوچتا ہے‘ وہ ڈیلور بھی کرتا ہے۔ گویا جسمانی کام کرنے والوں سے‘ پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔
شاید ہی‘ کوئی ایسا پروفیسر ہو گا‘ جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئ موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے‘ تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے میں مبتلا ہو گا۔ مناسب انداز سے‘ فکری نکاسی نہ ہونے کے سبب بھی‘ موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان‘ دونوں خطرے کی توپ کے دہانے پر‘ ڈیرہ گزیں رہتے ہیں‘ اس لیے‘ ڈیلوری ایسا آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا‘ تو کسی خاتون سے پوچھ لیں‘ کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار ہوتا ہے۔ کوئ خاتون خفیہ بات‘ دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ میں نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں‘ پروفیسر تو الگ‘ کہ اس کا کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر‘ بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی‘ خفیہ بات یا کسی کا کوئی انتہائی حساس راز‘ زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہ ہی ہیں۔
آج‘ موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے‘ بات ہو رہی تھی۔ سوال اٹھ سکتا ہے‘ وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے‘ وہ کھا کھا کر موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے‘ اسی فیصد اتفاق نہیں۔ معدہ کی بیماری کے سبب‘ کوئ تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک طرف معدہ پرابلم‘ دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ‘ تو تیسری طرف رازوں کی عدم نکاسی۔
کسی موٹے تھانیدار پر‘ کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر کہہ کر چڑھا دیں‘ وہ‘ وہ راز اگلے گا‘ کہ عقل سوچ اور دل و دماغ کی روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے افسروں‘ نبی نما سیاست دانوں سیٹھوں‘ مذہبی لوگوں کے وہ وہ راز ہوتے ہیں‘ جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو‘ علم نہیں ہوتا۔ اس مدے پر بات کرنا ہی فضول بات ہے‘ کیوں کہ تھانیدار ان لوگوں پر تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار‘ عوام کو گز رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا شرفاء کے اعلی طبقے میں شمار ہوتا ہے۔
۔سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا‘ بڑا ہی مشکل‘ بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ‘ پہلے سوال کی طرح‘ لازمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات آئی ہو گی‘ کہ مرنے والے کا کوئی قریبی رو نہ رہا ہو‘ تو اس کو رولانے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ میں رہتی ہے‘ کہ اس قریبی نے‘ اس کی موت پر شکر کا سانس لیا ہو۔ دلوں کے حال الله ہی جانتا ہے‘ اس لیے بات پردہ میں ہی رہ جاتی ہے۔ تاہم اس کا کچھ ہی دنوں میں‘ پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔ اس حوالہ سے‘ کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے‘ بڑا ہی پاپ لگتا ہے۔ کسی موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوتا ہے۔
آج ہی کی بات ہے‘ بشپ صاحب کی طرف سے‘ امن سیمینار منعقد ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے‘ بد ہضمی اور گیس کا شکار ہوں۔ کیا کروں‘ میں بات نہیں کر سکتا‘ کہ لالہ جو گولیاں اور چھتر کھا رہے ہیں‘ انھیں امن کی کتھا سنا رہے ہو اور جو گولیاں اور چھتر مار رہا ہے‘اس کے معاملہ میں آنکھ بند کیے ہوئے ہو۔ میں یہ سب کہہ نہیں سکتا۔ کمزور‘ بوڑھا اور بیمار آدمی ہوں۔ میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ کے سوا‘ کچھ نہیں۔
ایک موبائل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قائد اعظم کے پاس‘ ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے‘ مقدمہ لڑا اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں‘ کل آپ نہ ہوئے‘ تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا‘ نوٹوں پر چھپی میری تصویر‘ ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن پڑا ہے‘ کہ نوٹ‘ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ ایسےبرے وقتوں میں‘ خاموشی ہی بہتر اور کارگر ہتھیار ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے‘ تو ہوتا رہے‘ مجھے کیا پڑی ہے‘ جو اس امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا لازم آتا ہے‘ کہ کہو گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ‘ چپ رہو‘ سکون کی گزارو۔ اؤں آں اور ہائے وائے کرکے‘ دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو۔
Wah Dr. Sahab, Kamal kii tehreer hay..

Ap ki ijaazat kay baghair issay apni collection main shaamil kar raha hoon :)
 
  • Like
Reactions: dr maqsood hasni

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
73
kasur, pakistan
nhi hum aapky nazuk se sar aur sar py kisi b LAQAB ka boj nhi daalna chahti :D
akhir wazni hty hyn alqabat :p
isliye raan dyty hyn :cigar
hazoor kya baat kar rahe hain aap shadi shuda hoon dostoon wala hoon sar nazok kis tara ho sakta hai. lifzi title paish kar raha
BTW baba aapko kehna hy k horror ko? {(thinkg)}
in main se eak ka indraj kar dain dr riaz anjam khush hoon ge chalo khuch to azafa howa

 
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
kisi ko jaanny ki kohish main kbhi sar-e-aam nhi krti :D
g g ess lie horror horror ki gardaan lagai hai...lekan aik baat bata doon abi b main ap kay ass pass majood hn par ap ko khabr nahi...
:alien

اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
hazoor kya baat kar rahe hain aap shadi shuda hoon dostoon wala hoon sar nazok kis tara ho sakta hai. lifzi title paish kar raha
BTW baba aapko kehna hy k horror ko? {(thinkg)}
in main se eak ka indraj kar dain dr riaz anjam khush hoon ge chalo khuch to azafa howa

 
hahahahhahahaha
 
Top