کو سے کہو گئے ہم خاک تو تیری آواز آئی
زندگی تو نے بہت دیر سے ڈھونڈا ہم کو
نہ کوئی شعر نہ کوئی غزل نہ نام تیرا
قلم کی نوک پر کیسا سکوت طاری ہے
جلدی سے آ قضا تیری مدد درکار ہے
انسان پھنس گیا ہے خداوں کی بھیڑ میں
دنیا کی اور بات ہے دنیا تو غیر ہے
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ اک تم بھی سہی
اب اتنی بات پر کیا زندگی حرام کریں
کرتے سے کمجھے نہ سمجھاو محسن اب تو ہو چکی مجھ کو
محبت مشورہ ہوتی تو تم سے پوچھ کر کرتے
ہے سے ہکسی درخت کی حدت میں دن گزارنا ہے
کسی چراغ کی چھاؤں میں رات کرنی ہے
رکھنا سے رجاؤ کہیں بھی صنم، تمہیں اتنی قسم, ہمیں یاد رکھنا
تیری دنیا سے دور، چلے ہو کے مجبور، ہمیں یاد رکھنا
بھی سے بkro
کچھ تو اُس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بیتاب سے بھی
دوستی بھی کبھی رہی ہو گی
دشمنی بےسبَب نہیں ہوتی
گا سے گگلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
ہیں سے ہکوئی پاگل ہی محبت سے نوازے گا مجھے
آپ تو خیر سمجھ دار نظر آتے ہیں
ہے سے ہتا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے