اب تیرا کیا ہوگا کالیا

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
کالیا ٹیلیوژن کے سامنے اپنے نرم، گداز اور آرام دہ صوفہ پر دھنسا ہوا بیٹھا تھا اور ریموٹ کنٹرول سے چینل بدل بدل کر این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور فیصلہ پر ماہر وکیلوں اور ریٹائرڈد ججوں کے تاثرات نہایت اطمینان سے سن رہا تھا۔ اسکے چہرے سے لگتا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ وہ برسوں سے پینے پلانے کا عادی ہے۔ جب بھی آپ اس کو ملیں گے اس کی آنکھوں کے پپوٹے پھولے پھولے دیکھیں گے یہ علامت ہینگ اوور کی نشانی ہے۔
صوفہ سے منسلک سائیڈ ٹیبل پر سگار کا ڈبہ اور سگریٹ کے پیکٹ رکھے تھے۔ ایشٹرے سگریٹ کے ٹوٹوں سے تقریباً بھر چکا تھا۔ قریب ہی اسکاچ وسکی کی ایک خالی اور ایک آدھی بھری ہوئی بوتل رکھی ہوئی تھی۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتا اور اسی ہاتھ سے گلاس اٹھا کر وسکی سپ کر رہا تھا۔ میں خوش تھا کہ کالیا پریشان نہ تھا۔ میں حیران تھا کہ اسے کسی بات کی پروا نہ تھی۔ میں ذرہ دور ایک صوفہ پر آدھا لیٹا ہوا تھا اور مونگ پھلی کھا رہا تھا اس کے مطمئن نظر آنے کی وجہ میں جانتا تھا۔ اس نے اپنی تمام املاک بیرون ملک رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی لاابابی فیملی پہلے سے باہر بھیج دی ہے۔ اس کے پاس طرح طرح کے پاسپورٹ اور مختلف ایئر لائنز کے ٹکٹ ہیں۔ اس نے امیگریشن، کسٹمز اور خفیہ ایجنسیوں میں اہم لوگوں کی قیمت لگا لی ہے۔ ان کو منہ مانگی دام پر خرید لیا ہے۔ وہ منسٹر ہے۔ ایوان اقتدار میں اس کا طوطی بولتا ہے۔ پاکستان میں جائز ناجائز پکڑ دھکڑ کرنے والے ان کی پکڑ میں ہیں۔ آج کالیے پر کڑا وقت آن پڑا تھا تو ایسے میں اسے اکیلا میں کیسے چھوڑ سکتا تھا۔
کالیا دوست ہے میرا۔ ہم تب سے دوست ہیں جب ہم دونوں کنگلے ہوتے تھے کراچی کی فٹ پاتھوں پر کھیل تماشے دکھاتے تھے کبھی خود تماشہ بنتے تھے اور کبھی لوگوں کا تماشہ بناتے تھے لوگ ہمیں شادی بیاہ اور برتھ ڈے کی تقریبات میں بلاتے تھے۔ ہم انہیں لطیفے سنا کر جادو کے کرتب دکھا کر مرغی سے انڈا اور انڈے سے مرغی بنا کر دکھاتے تھے۔ ایسی ہی ایک تقریب میں کالیے کی لاٹری کھل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کالیا کی کایا پلٹ گئی۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا ارب پتی سیٹھوں، بینکروں، اسمگلروں، کرپٹ بیوروکریٹوں میں ہونے لگا۔ اسے ارب پتی بننے میں دیر نہیں لگی۔ ارب پتی بن جانے کے بعد اس نے عربوں سے بھی راہ و رسم بڑھا لیا۔
اللہ کی مرضی ہے جسے چاہے، اسے دے۔ جسے چاہئے، اسے نہ دے۔ کالیا ارب پتی بن جانے کے بعد پاکستانی حکمرانوں کو پیارا، بلکہ راج دلارا لگنے لگا۔ میں وہی پھٹیچر کا پھٹیچر رہ گیا مگر کیا مجال کہ کالیا نے مجھ سے کبھی آنکھیں پھیری ہوں۔ میرے دکھ سکھ میں بے دریغ آ کر شامل ہوتا ہے۔ ایک روز مجھے دکھی دیکھ کر کالیا نے پوچھا تھا ”پیٹرول پمپ کی پرمٹ دلوا دوں؟“
میں نے اسے ہنس کر ٹال دیا تھا۔
”اب تو مجھ سے بھی شرمانے لگا ہے!“ کالیا نے کہا تھا۔ ”تو کہیں شرمیلا ٹیگور تو نہیں بنتا جا رہا ہے؟“ اس کے بھونڈے مذاق پر میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ”رلا دینے والی ہے تیری مسکراہٹ“۔ کالیا نے کہا تھا۔ ”دوچار سو ایکڑ زرعی زمیں دلوا دو؟“
”یہ اپنے بس کی بات نہیں ہے“۔
”کوئی فیکٹری، کوئی کارخانہ، کوئی مل“۔
”ارے نہیں بھائی“۔
”تجھے کمشنر لگوا دوں؟ کسی ملک کا ایمبیسڈر بنوا دوں؟“
میں نے اسے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا ”یار، تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دے“۔
”کیسے چھوڑ دوں؟“ کالیا نے کہا تھا۔ ”تیری شکل پر بارہ بجے ہوئے ہیں اور تو کہتا ہے کہ تجھے تیرے حال پر چھوڑ دوں؟“
وہ اٹھ کر میرے قریب آیا تھا۔ اپنی جیب دکھاتے ہوئے کالیا نے کہا تھا ”یہ دیکھ، حکومت پاکستان میری جیب میں پڑی ہوئی ہے۔ بول تجھے کیا چاہئے؟ تیرے رقیب کو غائب کروا دوں؟ پولیس مقابلے میں کسی کو مروا دوں؟ تو منہ سے کچھ تو پھوٹ“۔
”بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے میری ناک میں دم کر رکھا ہے“۔ میں نے کالیے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا“ کرسکتے ہو تم میری کوئی مدد؟“
”یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔“ کالیا نے کہا تھا ”تیرا مرض لاعلاج ہے“۔
اب آپ خود ہی سوچئے۔ آزمائش کی گھڑی میں، کیا میں اپنے جگری یار کو تنہا چھوڑ سکتا ہوں؟ اس سے کنارا کشی اختیار کر سکتا ہوں؟ اسے بھلا سکتا ہوں؟ یہ ہو نہیں سکتا تھا۔
این آر او کے خلاف فیصلہ آنے سے بہت پہلے میں کالیا کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ بدبخت وزیر ہے آج کل۔ میں جب اس کے ہاں پہنچا تو وہ اپنے وسیع و عریض لاؤنج میں بیٹھا ہوا کسی چینل پر ریسلنگ کے پروگرام دیکھ رہا تھا۔ مجھے تعجب ہوا۔
”یار، تو بڑا عجیب آدمی ہے!“ میں نے کہا ”این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے والا ہے اور تو ہے کہ کُشتی کے پروگرام دیکھ رہا ہے!“
”مجھے معلوم ہے پانچ منٹ بعد فیصلہ آنے والا ہے“۔ کالیا نے کشتی دیکھتے ہوئے کہا۔ ”پانچ منٹوں میں اس ریسلنگ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سنیں گے۔ بیٹھ جا اور ریسلنگ دیکھ“۔
مجھے تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا ”تو اس وقت ٹن ہے یا پھر بن رہا ہے؟“
”نہ میں ٹن ہوں اور نہ بن رہا ہوں“۔ کالیا نے کہا ”تو چپ کر کے کُشتی دیکھ۔ بیچ میں مت بول“۔
”تجھے ڈر نہیں لگ رہا ہے؟“ میں بول پڑا۔
”کس بات کا ڈر؟“ اس کی نگاہیں اسکرین پر گڑی ہوئی تھیں۔
”این آر او کے تحت تیرے جب کیس ختم ہوئے تھے تب عدالت نے تجھے مفرور ملزم قرار دے رکھا تھا“۔ میں نے کہا ”این آر او کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد عدالتوں میں بند پڑے ہوئے کیس پھر سے کھولے جائیں گے، تب تیرا کیا ہوگا کالیا، تو تو مفرور ملزم ہے فوراً پکڑا جائے گا“۔
”میں فیڈرل منسٹر ہوں بونگے“ کالیا نے کہا ”تو چپ کر کے بیٹھ۔ ریسلنگ کا مزا کرکرا مت کر“۔
میں چپ کر کے ریسلنگ دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں کالیے کو کوستا رہا۔
”اس حمام میں اکیلا میں ننگا نہیں ہوں“۔ کالیا اچانک جیسے پھٹ پڑا ”اس حمام میں سب ننگے ہیں“۔
میں چپ رہا۔ اسی میں میری عافیت تھی۔ اسی اثنا میں دبلے پتلے پہلوان نے دیوہیکل پہلوان کو پچھاڑ دیا۔ کالیے نے ریموٹ اٹھا کر چینل بدلا۔ نیوز چینل سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خبریں اور خبروں پر تبصرے چل رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے این آر او کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا۔ مقدمے پھر سے شروع ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں مگر کالیا کو کسی بات کی پروا نہ تھی۔ وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا رہا تھا اور وسکی کے گھونٹ حلق میں اتارتا جا رہا تھا۔ بظاہر اسے ایک عجیب سا اطمینان تھا۔
”تو مفرور ملزم ہے وہ جب چاہیں، تجھے پکڑ سکتے ہیں“۔ اپنا جملہ دہراتے ہوئے میں نے کہا۔ ”ایسے میں تیرا کیا ہوگا کالیا؟“
گردن گھما کر کالیا نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا ”یہاں سب بکتے ہیں۔ میں جب چاہوں یہاں سے فرار ہو سکتا ہوں
 
Top