History حضرت عمرؓ کادریائے نیل کے نام خط کہ ابھی تک دریائے نیل خشک نہیں ہوا

  • Work-from-home

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
جب مصر فتح ہوا تو مسلمانوں نے ایک روز ایک عجیب ماجرہ دیکھا کہ مصری ایک نہایت ھی حسین و جمیل لڑکی کو سجا سنوار کر دریائے نیل میں ڈالنے لگے ھیں.. مسلمانوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور ان مصریوں کو ساتھ لیکر فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا قصہ بیان کیا..
اہل مصر نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ ھمارے ملک میں کاشتکاری کا دارو مدار دریائے نیل پر ھے.. ھمارے ھاں یہ دستور ھے کہ ھر سال ایک حسین و جمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ھے.. اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ھو جاتا ھے اور قحط پڑ جاتا ھے..
تاھم حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور اھل مصر کو سختی سے اس غیر انسانی ظالمانہ رسم سے روک دیا..
اللہ رب العزت کی شان کہ وہ دریا واقعی میں خشک ھونا شروع ھوگیا.. حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سارا واقعہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھ بھیجا..
جواب میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ و جاھلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا.. تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھا.. جس کا مضمون یہ تھا..
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم..
یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب )رضی اللہ تعالٰی عنہ( کی طرف سے نیل مصر کے نام ھے.. اگر تو اپنے اختیار سے جاری ھے تو بےشک جاری نہ ھو
لیکن اگر تو اللہ کے حکم )و اختیار( سے جاری ھوتا ھے تو پھر میں اللہ سے دعا کرتا ھوں کہ وہ تجھ کو جاری کردے.. ”
اس خط کے ڈالتے ھی دریائے نیل بڑھنا شروع ھوا اور پچھلے سالوں کی بہ نسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اس کے بعد پھر کبھی نہیں سوکھا..!
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
@Don @RedRose64 @saviou @Shiraz-Khan @AnadiL @Bird-Of-Paradise @DiLkash @shehr-e-tanhayi
@Ahmad-Hasan @fahadhassan @Umm-e-ahmad
@Abidi @Aayat @Aina_ @Armaghankhan @Angel_A @Ajnabhi @-Anna- @*Arshia* @Aks_ @Aaidah @Aizaa
@amerzish_malik @Arz0o @Arzoomehak @Asheer @Atif-adi @Awadiya @Aaylaaaaa @Ayesha-Ali @Afnan_ @A7if @Aliean
@Adorable_Pari @Awesome_Sunny @Ajnabee_Hoon
@Babar-Azam @Blue-Black @Bela @Brilliant_Boy @Binte_Hawwa @bilal_ishaq_786 @baba-cakes @Banjara_
@chai-mein-biscuit @CuTe_HiNa @Cheeky @Charming_Deep @colgatepak @Catastrophe @Chai- mein-biscut
@Danee @Dua001 @DevilJin @Dua_ @Dreamy Boy @dur-e-shawar @diya. @errorsss @DeMon- @Diya_noor @Dil-Wale @Eshal-Hoor
@Faiz4lyf @Flower_Flora @Fizaali @Fatima- @France-Boy
@genuine @gullubat @gulfishan @Ghazal_Ka_Chiragh @Guriya_Rani
@huny @H@!der @H!N@ @Hoorain @hania7012 @HWJ @Haider_Mk
@Iceage-TM @i love sahabah @italianVirus @illusionist @Island_Jewel @ijazamin @imama
@junaid_ak47 @Justin_ @Jahanger @Just_Like_Roze @kaskar @Kavi @khalid_khan @koochi @KrazzzyBoy
@lovely_eyes @Lost Passenger @Lightman @LUBABA @LostSea @Lafanter
@Mano_Doll @Mahen @maanu115 @Mantasha_Zawaar @Manxil @Marah @Mas00m-DeVil @marib @Menaz @minaahil
@Meekaeel @MSC @Minal @mrX @MumS @Muhammad_Rehman_Sabir @Mawaa_Khan @Mazyona
@Nadaan_Shazie @Naila_Rubab @namaal @NamaL @Nikka_Raja @nighatnaseem21 @Noor_Afridi @nizamuddin @Noman-
@Ocean-of-love @onemanarmy @p3arl @Pari_Qrakh @Prince-Farry @Princess_Nisa @Princess_E @pakhtun @PrinCe_
@Raat ki Rani @raaz the secret @Rahath @Ramsha_Cat @Ramiz @RaPuNzLe @reality @REHAN_UK @Robina_Rainbow
@seemab_khan @Syeda-Hilya @sweet-c-chori @ShehrYaar @shailina @Shoaib_Nasir @Salman_ @S_M_Muneeb @Star24 @sonofaziz
@shzd @Sunny_Rano @Silent_tear_hurt @sweet bhoot @silent_heart @Sanafatima @SairaRizwan @Sweeta @Shona619
@soul_of_silence. @Stylo_Princess @SUMAIKA @soul_snatcher @sweet_lily @sweet_c_kuri @Shayana @Sahil_ @SARKASH @SadiaXtyle
@Toobi @Twinkle Queen @Tanha_Dil @Tariq Saeed @ujalaa @Umeed_Ki_Kiran @umeedz @unpredictable2 @Untamed-Heart
@Vasim @Wafa_Khan @wajahat_ahmad @X_w @yoursks @Yuxra
@Zia_Hayderi @zaryaab @Ziddi_anGel @zonii @Z-4-Zahid @zealous @Zaad @Zypher @Zahabia @Zulfishan
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


تخریج۔۔۔
اس روایت کو ابو الشیخ (العظمہ ج ٤ ص ١٤٢٤) اللالکائی (الکرامات ص ١١٩) اور ابن عبدالحکیم نے فتوح مصر (ص ١٠٤) میں ابن لہیعہ عن قیس بن الحجاج عمن حدثہ کی سند سے روایت کیا۔۔۔

جرح! اس کی سند ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں۔۔۔۔

پہلی علت!۔ ابن لہیعہ ہے اور یہ عبداللہ بن لہیعہ الحضرمی ہے یہ سُی الحفظ (برے حافظے والا) اور ضعیف ہے۔۔۔

دوسری علت!۔ اس میں ایک راوی (مجہول) ہے جس کا نام نہیں بیان کیا گیا۔۔۔ حوالے دیکھئے تہذیب التہذیب (ج٥ ص ٣٢٧) تقریب التہذیب (ص٣١٩ تا ٣٥٦٣) میزان الاعتدال (ج ٣ ص ١٨٩) الکاشف (ج ٢ ص ١٠٩) ابن الجوزی کی الضعفاء (ج ٢ ص ١٣٠) السندھی کی کشف الاستار (ص٥٨) اور ابن الکیال کی الکواکب النیرات (ص ٤٨١)۔

علامہ سیوطی نے “تخریج احادیث العقائد میں کہا کہ اس روایت کو ابو الشیخ ابن حبان نے کتاب العظمہ میں جس سند کے ساتھ بیان کیا اس سند میں ایک راوی مجہول ہے (ص١٤)۔

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں (ج ١ ص ٢٧) اور سیوطی نے حسن المحاضرہ (ج ٢ ص ٣٥٣) میں اسے ذکر کیا ہے (انتھی)۔۔۔

عرض مترجم!۔
اس قصہ کا ضعف آپ کے سامنے ہے کہ اس کے بیان کرنے والے کا سراغ ہی نہیں ملتا کہ کون تھا؟؟؟۔۔۔ کیسا تھا؟؟؟۔۔۔ ایک مجہول نامعلوم شخص ہے جس نے یہ قصہ بیان کیا لیکن افسوس کے آج کتنے ہی محراب ومنبر ہیں کے جن پر یہ اور اس قسم کی سینکڑوں، ہزاروں کہانیوں کی گونج سنائی دیتی ہے اور کتنے ہی قصہ گوواعظین وخطباہیں جو جوش خطابت میں یا اپنے وعظ وتقریر کو خوش نما بنانے کے لئے اسے بیان کردیتے ہیں اور خبر قبولیت خبرواشاعت خبر سے متعلق قرآن وسنت کے بیان کردہ محکم اصول وضوابط کی کچھ پروا نہیں کرتے اور کتنے ہی ایسے علماء سوء ہیں جو عقیدہ توحید پر حملہ آور شرک وبدعات اور توہم پرستی کو سہارا دینے والی ایسی کہانیاں بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے طلسماتی ومن گھڑت کراماتی مذہب کو تقویت پہنچانے کے لئے اس قسم کی بےسند و بے ثبوت کہانیوں سے استدلال وحجت پکڑنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتےکاش ایسا کرتے ہوئے وہ لمحہ بھر کو بوقف فرمائیں غور وفکر اور تدبر سے کام لیتے ہوئے ان کی قباحت وشناعت کا بھی اندازہ لگائیں تو شاید کے اپنے اس طرز تغافل سے باز آجائیں اب ذرا اس کہانی کی قباحب ملاحظہ کیجئے۔۔۔

کہانی بتلاتی ہے کہ ہر سال دریائے نیل اپنی روانی وبہاؤ کو روک دیتا پھر جب اہل مصر ایک کنواری لڑکی کو سجا دھجا کر اُسے دلہن بنا کر اُس کی بھینٹ چڑھاتے تو پھر دریائے نیل اُن کی اس قربانی سے خوش وخرم ہوکر اپنی ناراضگی ختم کردیتا ورنہ وہ اپنی روانی روک کر ایک ظالمانہ، وحشیانہ اور انسانیت سوز قربانی کا مطالبہ اور اصرار کرتا۔۔۔

یہ کہانی بتلاتی ہے کہ وہ کوئی ایک آدھ سال کا اتفاق حادثہ یا واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ تو ہرسال کا معمول تھا اُس کی پختہ عادت، قانون اور دستور تھا دریائے نیل ہر سال ایک دلہن ایک کنواری دوشیزہ کا چڑھاوا اور بھینٹ لئے بغیر چلتا ہی نہیں تھا اُس کا یہ قانون ودستور ایسا اٹل تھا کے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے انکار پر اُس نے تیزی کے ساتھ بہنا تو درکنار سست روی کے ساتھ بھی بہنا گوارہ نہیں کیا۔۔۔ حتٰی کے خود سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا مشاہدہ کیا گویا کے دریائے نیل میں یہ قوت وصلاحیت اختیاری طور پر موجود تھی کے چاہتا تو بہتا رہتا اور چاہتا تو اپنی روانی پر فل اسٹاپ لگا دیتا اور اپنا بہاؤ روک دیتا اور پھر دریائے نیل عقل وشعور سے بھی مالا مال تھا کے اپنا مطالبہ پورا ہوتے ہی بہنا شروع کردیتا کیا ہی زبردست کرشمہ تھا؟؟؟۔۔۔

بہت خوب! اب سرسوتی اور گنگا، جمنانامی، دریاؤں میں کرشموں کے قائل اور اُن کی داستانیں سنانے والوں کو کس منہ سے احمق کہا جائے؟؟؟۔۔۔ افسوس ہے ایسی کہانیوں کو سچا سمجھ کر بیان کرنے والوں کی عقل وفہم پر اُن کی چھوٹی سمجھ اور محدود سوچ پر۔۔۔

المختصر!۔ اس قسم کی کہانیوں کو سچا سمجھ کر بیان کرنے والے مولویان گرامی کو چاہئے کہ وہ دریاؤں سمندروں کی کرامتوں اور کرشموں کے بھی قائل ہوجائیں تاکہ ان بےسروپا کہانیوں پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوں نہ صرف یہ کے ان کہانیوں کا بھی حق ادا ہوجائے بلکہ ان کے طلسمی کرامات کے من گھڑت قصوں اور دیومالائی کہانیوں کو بھی پوری تقویت ملے۔۔۔

واللہ تعالٰی اعلم
والسلام علیکم۔۔۔



 

Rana-Rehman

smile is best
TM Star
Apr 17, 2016
1,402
103
213
شیخوپورہ

تخریج۔۔۔
اس روایت کو ابو الشیخ (العظمہ ج ٤ ص ١٤٢٤) اللالکائی (الکرامات ص ١١٩) اور ابن عبدالحکیم نے فتوح مصر (ص ١٠٤) میں ابن لہیعہ عن قیس بن الحجاج عمن حدثہ کی سند سے روایت کیا۔۔۔

جرح! اس کی سند ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں۔۔۔۔

پہلی علت!۔ ابن لہیعہ ہے اور یہ عبداللہ بن لہیعہ الحضرمی ہے یہ سُی الحفظ (برے حافظے والا) اور ضعیف ہے۔۔۔

دوسری علت!۔ اس میں ایک راوی (مجہول) ہے جس کا نام نہیں بیان کیا گیا۔۔۔ حوالے دیکھئے تہذیب التہذیب (ج٥ ص ٣٢٧) تقریب التہذیب (ص٣١٩ تا ٣٥٦٣) میزان الاعتدال (ج ٣ ص ١٨٩) الکاشف (ج ٢ ص ١٠٩) ابن الجوزی کی الضعفاء (ج ٢ ص ١٣٠) السندھی کی کشف الاستار (ص٥٨) اور ابن الکیال کی الکواکب النیرات (ص ٤٨١)۔

علامہ سیوطی نے “تخریج احادیث العقائد میں کہا کہ اس روایت کو ابو الشیخ ابن حبان نے کتاب العظمہ میں جس سند کے ساتھ بیان کیا اس سند میں ایک راوی مجہول ہے (ص١٤)۔

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں (ج ١ ص ٢٧) اور سیوطی نے حسن المحاضرہ (ج ٢ ص ٣٥٣) میں اسے ذکر کیا ہے (انتھی)۔۔۔

عرض مترجم!۔
اس قصہ کا ضعف آپ کے سامنے ہے کہ اس کے بیان کرنے والے کا سراغ ہی نہیں ملتا کہ کون تھا؟؟؟۔۔۔ کیسا تھا؟؟؟۔۔۔ ایک مجہول نامعلوم شخص ہے جس نے یہ قصہ بیان کیا لیکن افسوس کے آج کتنے ہی محراب ومنبر ہیں کے جن پر یہ اور اس قسم کی سینکڑوں، ہزاروں کہانیوں کی گونج سنائی دیتی ہے اور کتنے ہی قصہ گوواعظین وخطباہیں جو جوش خطابت میں یا اپنے وعظ وتقریر کو خوش نما بنانے کے لئے اسے بیان کردیتے ہیں اور خبر قبولیت خبرواشاعت خبر سے متعلق قرآن وسنت کے بیان کردہ محکم اصول وضوابط کی کچھ پروا نہیں کرتے اور کتنے ہی ایسے علماء سوء ہیں جو عقیدہ توحید پر حملہ آور شرک وبدعات اور توہم پرستی کو سہارا دینے والی ایسی کہانیاں بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے طلسماتی ومن گھڑت کراماتی مذہب کو تقویت پہنچانے کے لئے اس قسم کی بےسند و بے ثبوت کہانیوں سے استدلال وحجت پکڑنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتےکاش ایسا کرتے ہوئے وہ لمحہ بھر کو بوقف فرمائیں غور وفکر اور تدبر سے کام لیتے ہوئے ان کی قباحت وشناعت کا بھی اندازہ لگائیں تو شاید کے اپنے اس طرز تغافل سے باز آجائیں اب ذرا اس کہانی کی قباحب ملاحظہ کیجئے۔۔۔

کہانی بتلاتی ہے کہ ہر سال دریائے نیل اپنی روانی وبہاؤ کو روک دیتا پھر جب اہل مصر ایک کنواری لڑکی کو سجا دھجا کر اُسے دلہن بنا کر اُس کی بھینٹ چڑھاتے تو پھر دریائے نیل اُن کی اس قربانی سے خوش وخرم ہوکر اپنی ناراضگی ختم کردیتا ورنہ وہ اپنی روانی روک کر ایک ظالمانہ، وحشیانہ اور انسانیت سوز قربانی کا مطالبہ اور اصرار کرتا۔۔۔

یہ کہانی بتلاتی ہے کہ وہ کوئی ایک آدھ سال کا اتفاق حادثہ یا واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ تو ہرسال کا معمول تھا اُس کی پختہ عادت، قانون اور دستور تھا دریائے نیل ہر سال ایک دلہن ایک کنواری دوشیزہ کا چڑھاوا اور بھینٹ لئے بغیر چلتا ہی نہیں تھا اُس کا یہ قانون ودستور ایسا اٹل تھا کے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے انکار پر اُس نے تیزی کے ساتھ بہنا تو درکنار سست روی کے ساتھ بھی بہنا گوارہ نہیں کیا۔۔۔ حتٰی کے خود سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا مشاہدہ کیا گویا کے دریائے نیل میں یہ قوت وصلاحیت اختیاری طور پر موجود تھی کے چاہتا تو بہتا رہتا اور چاہتا تو اپنی روانی پر فل اسٹاپ لگا دیتا اور اپنا بہاؤ روک دیتا اور پھر دریائے نیل عقل وشعور سے بھی مالا مال تھا کے اپنا مطالبہ پورا ہوتے ہی بہنا شروع کردیتا کیا ہی زبردست کرشمہ تھا؟؟؟۔۔۔

بہت خوب! اب سرسوتی اور گنگا، جمنانامی، دریاؤں میں کرشموں کے قائل اور اُن کی داستانیں سنانے والوں کو کس منہ سے احمق کہا جائے؟؟؟۔۔۔ افسوس ہے ایسی کہانیوں کو سچا سمجھ کر بیان کرنے والوں کی عقل وفہم پر اُن کی چھوٹی سمجھ اور محدود سوچ پر۔۔۔

المختصر!۔ اس قسم کی کہانیوں کو سچا سمجھ کر بیان کرنے والے مولویان گرامی کو چاہئے کہ وہ دریاؤں سمندروں کی کرامتوں اور کرشموں کے بھی قائل ہوجائیں تاکہ ان بےسروپا کہانیوں پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوں نہ صرف یہ کے ان کہانیوں کا بھی حق ادا ہوجائے بلکہ ان کے طلسمی کرامات کے من گھڑت قصوں اور دیومالائی کہانیوں کو بھی پوری تقویت ملے۔۔۔

واللہ تعالٰی اعلم
والسلام علیکم۔۔۔



:areyoukiddingme
 
Top