حیراں تو فقط سادہ لوح ہوں گے!…

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
وکّی لِیکس کے انکشافات ایسے چونکا دینے والے نہیں کہ ہم پاکستانیوں کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیں۔ ہماری سیاست کا کھیل جس میں فوج کا غالب کردار اور امریکہ کا دوررس اثر فیصلہ کن قوت ہیں، کے نشیب و فراز کے اہم فیصلے انہی دو قوتوں کے مرہون ِ منت رہے ہیں۔ چنانچہ اگر امریکی سفیر حکومت پاکستان کو اپنے عقلمندانہ مشوروں سے نوازتے رہے ہیں تو حیرت کیسی؟ تاہم پھر بھی جب اصلیت سے پردہ چاک ہوتا ہے اور مریضِ زیب تن لباس کے بندھنوں سے آزاد ہوتا ہے تو حقیقت بناوٹی نہیں رہتی۔
مرکویز ایک جگہ ایک بستر کی بات کرتا ہے جو محبت کی دیوانگی کے لیے بنایا گیا تھا۔ لفظ ’بیڈروم‘ ہماری چشم تصور کو کتنے تخیل عطا کرتا ہے۔ ایک بیڈروم میں جھانکنے کا تصور بے کیف ترین لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے اور سنجیدہ نظروں کا زاویہٴ نگاہ کتنے دل خوش کن نظاروں میں کھو جاتا ہے۔ مارلن منرو اپنے پورے جوبن پر تھی جب ہماری عمر کے لڑکے اپنے لڑکپن میں ہوں گے۔ اُس کا جانفزا حسن ہمارے دل کی دنیا سے کوسوں دور تھا مگر ’دا سیون ایئر ایچ ‘ کا وہ مشہور منظر کون بھول سکتا ہے جس میں وہ سیونتھ ایونیو پر کھڑی تھی جب ہوا کے ایک جھونکے نے اُس کے زرد اسکرٹ کو اُس کی کمر کے اُوپر اڑاتے ہوئے اُس کی ٹانگوں کی لا زوال خوبصورتی کو آشکار کر دیا ۔ سب خاص و عام یہ نظارہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ وکی لیکس کے انکشافات میں یہی کشش ہے۔ ہمیں تو ان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ بطور صحافی ہم سب تقریباً اِن سے آشنا تھے۔ تاہم یہ انکشافات ہمیں پاک امریکہ تعلقات کے پس پردہ اُس ڈریسنگ روم میں لے گئے ہیں جہاں آدابِ سفارت کاری کا پردہ چاک ہوتا ہے اور اصلیت فریبِ نظر سے کہیں زیادہ دلفریب روپ میں سامنے آتی ہے۔
امریکی سفیر، محترمہ بے نظیر کے قتل کے بعد زرداری کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتی ہیں جس کو شاید زیادہ لوگ پسند نہ کریں۔ وہ زرداری کو ایک اسمارٹ انسان کے طور پر دیکھتی ہیں جو کافی مطمئن اور پرسکون ہے اور اپنے نوٹس کا حوالہ صرف ایک ہی دفعہ دیتا ہے۔ مارچ ۲۰۰۹ کو لانگ مارچ کے دوران صورت حال خراب ہونے کی صورت میں جنرل کیانی، زرداری صاحب کہ فارغ کرنے کا سوچتے ہیں ۔ اِس صورت میں جناب اسفند یار ولی پر اُن کی نگاہِ انتخاب پڑتی ہے جو زرداری صاحب کا متبادل ہو سکتے تھے۔ اِس سے اُس نقطہٴ نظر کو تقویت ملتی ہے جس کے مطابق موجودہ حکومت کی جج بحال کرنے کی ہزیمت کے درپردہ کیانی کا کردار کارفرما تھا۔ رجائیت کے نادر موڈ میں یوسف رضا گیلانی جج بحال کرنے کا تمغہ اپنے سینے پر سجاتے ہیں۔ حقیقت سے پردہ تو اب چاک ہوتا ہے۔ بے شک نوازشریف کا لانگ مارچ ایک فیصلہ کن قدم تھا مگر امریکی کیبل سے فاش ہوتے ہوئے راز کچھ اور حقائق سے پردہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
زرداری خوفزدہ ہے کہ فوج یا آئی ایس آئی اُس کا ایوانِ صدر سے بستر گول کر دیں گے۔ اُن کے خوف کا اظہار اُس موقع کی یاد دلاتا ہے جب اسلام آباد کی فضا کسی نامعلوم سازش کی بو سے بوجھل تھی اور پرُجوش صحافی حضرات اُن کی رخصت کی ڈیڈ لائن بھی دے رہے تھے جو زیادہ دور نہ تھی اور کچھ تو ایوانِ صدر میں ایمبولینس کی ضرورت دیکھتے تھے۔ زرداری صاحب کا یہ کہنا کہ اُنہوں نے متبادل منصوبے کے طور پر بلاول سے کہہ دیا تھا کہ اگر اُن کو منظر عام سے ہٹا دیا جائے تو وہ فریال تالپور کا بطورصدر اعلان کر دے اور کیانی صاحب کا این پیٹرسن سے علیحدہ گفتگو کرتے ہوئے فرمانا کہ فریال بطور صدر، زرداری سے بہتر ہے، تصویر میں کچھ تو رنگ بھرتا ہے اور پھر فریال تالپور امریکیوں کے نزدیک زیادہ پرجوش اور معزز ہیں۔ زرداری صاحب اِس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے وفاداری کو بشرطِ استواری قرار دیتے ہیں۔
کیانی صاحب اپنے کسی بھی سیاسی مقاصد کی نفی کرتے ہیں اور امریکی اُن کے الفاظ پر یقین کرتے ہیں مگر ایک سمجھ رکھنے والا قاری کیا یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہو جاتا کہ کس جمہوری ملک کا آرمی چیف اہم فیصلوں میں ثالث کا کردار ادا کرتا ہے؟ زرداری صاحب پر چڑھ دوڑنا آسان ہے کیونکہ اُن کی پراسرار مالیاتی کلاکاریاں اُنہیں ایسی شہرت عطا کرتی ہیں کہ اُن پر تنقید کرنا یا اُن کی تضحیک کرنا ہر کس و ناکس اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ تاہم اگر اُن کے ناقدین اُن کو آسان لے رہے ہیں تو یہ اُن کی صریحاً کم عقلی ہے۔ اِن کیبل سے افشا ہونے والے ’لیکس‘ سے ہر شخص بجا طور پر سیخ پا ہے کہ امریکی کس طرح پاکستانی داخلی معاملات کو دیکھتے ہیں مگر اُسے اس بات سے متفق ہونا پڑے گا کہ زرداری صاحب ایک انتہائی ہوشیار شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صدارتی انتخاب کی دوڑ کے موقع پر جب مشرف پر عہدہ چھوڑنے کیلئے بے حد دباؤ تھا اور اسلام آباد میں شاید ہی کوئی ہو گا جو زرداری صاحب کے صدر بننے کے امکان پر غور کرنے کیلئے تیار ہو مگر انہوں نے اپنے تمام ناقدین کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور کرسیٴ صدارت پر براجمان ہو گئے۔ اب سانپ نکل جانے پر لکیر پیٹنے والے بھلے اپنے غیض و غضب کا اظہار کرتے پھریں! بہت سے حب الوطنی کی آڑ میں چراغ پا ہیں اور اُن کو ڈھونڈھنے کے لیے کسی چراغ کی ضرورت نہیں، میڈیا پرسن اور انتخابات سے گریزاں مڈل کلاس ملک کی ناگفتہ بہ حالت پر آگ بگولا ہیں مگر ایک پیشہ ور ناقد کا اوّلیں فریضہ غیر جانبدارانہ تجزیہ ہوتا ہے۔ اگر اسے غصے، گرچہ بجا طور پر بھی ہو، کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو ہر معاملہ بگڑ جائے گا۔ بے شک ہمارے امریکی دوست غیر جانبدار مبصر نہیں ہیں اُن کے کچھ اپنے مفادات ہیں۔ زرداری صاحب کے بارے میں اُن کا یہ نظریہ رہا ہے کہ وہ اُن کا بہترین مہرہ ہے مگر یہ سوچ اُنہیں زرداری صاحب کے بارے میں غلط تاثر دیتی ہے۔ کیبل لیک آوٹ اس پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبدالله اپنے اِس بیان میں بالکل درست ہیں کہ اگر ’ سر گلا سڑا ہو تو اس سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے‘ اور یو اے ای کے پرنس محمد پاکستان کی قیادت کے بارے میں یوں گہر افشاں ہوئے ہیں ’ زرداری خراب ہے مگر خطرناک نہیں ، نواز شریف خراب نہیں مگر خطرناک ہے‘ ہاں امریکی زرداری کی بابت کچھ کہنے میں زیادہ محتاط ہیں مگر اِس کی وجہ اُن کے مفادات کی باہم وابستگی ہے۔ اس کے برعکس، ذوالفقار علی بھٹو سے امریکی کبھی بھی خوش نہ تھے اور اِس کی وجہ صرف ایٹمی پروگرام ہی نہ تھا، جیسے کہ اُن کاغذات سے پتہ چلتا ہے جو ایرانی طلبہ کے امریکی سفارت خانے پر قبضے کے دوران ہاتھ لگے۔ اُس وقت اُن کاغذات کا منظرِ عام پر آنا بہت دھماکہ خیز سمجھا گیا مگر وہ موجودہ وکی لیکس کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں۔ اس سے قبل ڈینئل ایلس برگ کی طرف سے پینٹاگون کے کاغذات کی اشاعت نے امریکی سیاسی منظر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اُن کاغذات کی اہمیت صرف ویتنام کی جنگ کے بارے میں تھی۔ تاہم وکی لیکس امریکہ کی تمام خارجہ پالیسی کے متعلق ہیں۔ افشائے راز کے اس سارے ڈرامے کے پیچھے وہ گمنام ہیرو جس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی ہے تاکہ دنیا زیادہ طور پر جان سکے، بہادری کے عظیم ترین انعام کا حق دار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج بھی قابلِ صد ستائش ہیں۔ کچھ چیزیں منظر نامے کو تبدیل کر دیتی ہیں ، وکی لیکس ان میں سے ایک ہے۔ بہرحال امریکہ کو اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، ایسے رازوں کو بے نقاب کرنا امریکہ میں ہی ممکن تھا۔ ذرا تصوّر کریں کہ ہمارے ہاں کسی نے آئی ایس آئی کے بارے میں کچھ لکھا ہوتا ، کیا وہ شخص دوبارہ اِس جہان ِ فانی میں نظر آتا؟ کسی نے کبھی امریکی حکومت کی حماقتوں کو اتنے شدّومد سے بے نقاب نہیں کیا یا اُن حماقتوں پر اُس طرح تنقید نہیں کی جس طرح خود امریکیوں نے کی ہے۔ اگرچہ امریکیوں کی مرکزی قومی سوچ یکساں اور طاقتور ہے اور اس کی مخالفت آسان نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکے متصادم ایک اور سوچ کی بھی اُسی معاشرے میں ہی گنجائش نکلتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اس کو دریافت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ گزشتہ اور موجودہ صدی میں امریکی غلبے کی وجہ اُس کی معاشی اور فوجی طاقت ہے مگر کلچر اور نظریئے کی طاقت بھی ایک حقیقت ہے اور جب ہم امریکہ کی پالیسیوں، خاص طور پر صدر بش کی عراق اور افغانستان کی جنگوں پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیں ان حقائق سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے۔ بہرکیف پاکستان میں جہاں وکی لیکس ہمارے دل میں گدگدی پیدا کر رہے ہیں، وہاں بہت سے تلخ اور فوری توجہ کے حامل سوالات بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ہمیں دوسروں کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم دوسروں سے اپنے داخلی معاملات پر رائے کیوں لیتے ہیں؟ امریکی سفیر ہر پاکستانی لیڈر، بشمول آرمی چیف کا نفسیاتی مشیر کیوں ہوتا ہے؟ اگر ہم اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ذہنی خود انحصاری بھی چاہئے۔ اگر ہم اپنے ساتھ مخلص ہو جائیں تو ہمیں دوسروں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔​
 
Top