History رابعہ بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہا

  • Work-from-home

Tabishss

Regular Member
Jun 15, 2013
82
47
318
32
Landhi, Karachi.
آپ کی پیدائش 95 سے 99ھ کے دوران بصرہ، عراق میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی زندگی کی زیادہ تر تفصیلات شیخ فریدالدین عطار کے حوالے سے ملتی ہیں ۔ رابعہ بصری سے جڑی بے شمار روحانی کرامات کے واقعات بھی ملتے ہیں ،جن میں اگرچہ کچھ سچے ہیں لیکن کچھ خود ساختہ اختراعات بھی ہیں ۔ تاہم رابعہ بصری سے متعلق زیادہ تر معلومات و حوالہ جات وہ مستند مانے جاتے ہیں جوکہ شیخ فریدالدین عطار نے بیان کئے ہیں جوکہ رابعہ بصری کے بعد کے زمانے کے ولی اور صوفی شاعر ہیں کیونکہ رابعہ بصری نے خود کوئی تحریری کام نہ کیا۔

حالات زندگی
رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں ،اسی لئے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھاگیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معززگھرانے میں پیداہوئیں ۔ رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جس شب رابعہ بصری پیداہوئیں ،آپ کے والدین کے پاس نہ تو دیاجلانے کے لئے تیل تھا اورآپ کو لپیٹنے کے لئے کوئی کپڑا۔ آپ کی والدہ نے اپنے شوہر یعنی آپ کے والد سے درخواست کی کہ پڑوس سے تھوڑا تیل ہی لے آئیں تاکہ دیاجلایاجاسکے لیکن آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خالقِ حقیقی کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، لہٰذا وہ پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ واپس آگئے۔

رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اوراُنہوں نے رابعہ کے والد کو بتایاکہ ”تمہاری نومولودبیٹی ،خداکی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اوراُس کو ہماراپیغام دوکہ تم ہر روز رات کو سو(100)دفعہ اورجمعرات کو چار سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درودشریف نہیں پڑھا،لہذٰااس کے کفارہ کے طورپر چارسو (400) دینار بطور کفارہ یہ پیغام پہنچانے والے کو دےدے۔

رابعہ بصری کے والد اُٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے اس حال میں کہ خوشی کے آنسو آپ کی آنکھوں سے جاری تھے۔ جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاپیغام ملا تو یہ جان کر انتہائی خوش ہواکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے کچھ اہمیت دی ہے۔ اُس کے شکرانے کے طورپر فوراً ایک ہزار (1,000) دینارغرباء میں تقسیم کرائے اور چارسو (400)دینار رابعہ بصری کے والد کو اداکئے اوراُن سے درخواست کے جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہوبلاجھجھک تشریف لائیں ۔

کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کرگئے اوربصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری )اپنی بہنوں سے بچھڑگئیں ۔ ایک دفعہ رابعہ بصری ایک قافلے میں جارہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازارمیں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا،آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتاتھا۔

اس کے باوجود آپ دن میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں ۔ اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیااورکسی کی گریہ وزاری کی آوازسُن کر دیکھنے چلاکہ رات کے اس پہرکون اس طرح گریہ وزاری کررہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ رابعہ بصری اللہ کے حضورسربسجودہیں اورنہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں :

”اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کیلئے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں ، نمازوں کا وقت گزر جاتا ہے۔ اس لئے میری معذرت قبول فرما لے اورمیرے گناہوں کو معاف کردے۔ “

اپنی کنیزکایہ کلام اورعبادت کا یہ منظردیکھ کر رابعہ بصری کامالک خوفِ خدا سے لرزگیااوریہ فیصلہ کیاکہ بجائے اس کے کہ ایسی اللہ والی کنیزسے خدمت کرائی جائے بہتر یہ ہوگاکہ اس کی خدمت کی جائے ۔ صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اوراپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیااورکہاکہ آج سے آپ میری طرف سے آزادہیں ، اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تومیری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں لیکن اگرآپ یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ آپ یہاں نہ رہیں گی تومیری بس ایک درخواست ہے کہ میری طرف سے کی جانیوالی تمام زیادتیوں کواُس ذات کے صدقے معاف کردیں ،جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔

گوشہ نشینی
رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اورترک دنیاکے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد صحراؤں کارخ کیا۔ وہ دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہوگئیں۔ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ خواجہ حسن بصری، رابعہ بصری کے مرشد تھے۔ غربت، نفی اورعشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے۔ اُن کی کل متاع حیات ایک ٹوٹاہوا برتن، ایک پرانی دری اورایک اینٹ تھی،جس سے وہ تکیہ کا کام بھی لیتی تھیں ۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتی تھیں اوراس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہوجائیں ۔

جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی ،آپ کے معتقدین کی تعدادمیں بھی ااضافہ ہوتاگیا۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علماء ،محدثین و فقہا سے مباحثوں میں حصہ لیا۔ رابعہ بصری کی بارگاہ میں بڑے بڑے علماء نیازمندی کے ساتھ حاضر ہواکرتے تھے ۔ ان بزرگوں اورعلماءمیں سرفہرست حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جوکہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے ہم عصر تھے اورجنہیں امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے بھی یادکیاجاتاہے۔ گواُنہیں شادی کے لئے کئی پیغامات آئے ،جن میں سے ایک پیغام امیرِ بصرہ کا بھی تھالیکن آپ نے تمام پیغامات کو رد کردیاکیونکہ آپ کے پاس سوائے اپنے پروردگارکے اورکسی چیزکے لئے نہ تو وقت تھا اورنہ ہی طلب ۔ رابعہ بصری کوکثرت رنج و الم اورحزن و ملال نے دنیا اوراس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کردیا۔ رابعہ بصری کے مسلک کی بنیاد”عشقِ الٰہی “ پر ہے۔

کچھ ارشاداتِ رابعہ بصری
ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ حضرت رابعہ بصری جذب کی حالت بصرہ کی گلیوں میں ایک ہاتھ میں مشعل اوردوسرے ہاتھ میں پانی لے کر جارہی ہیں ،جب لوگوں نے پوچھاکہ یہ آپ کیاکرنے جارہی ہیں تورابعہ بصری نے جواب دیاکہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے اوراس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جارہی ہوں تاکہ لوگ اُس معبودِ حقیقی کی عبادت جنت کی لالچ یادوزخ کے خوف سے نہ کریں بلکہ لوگوں کی عبادت کا مقصد محض اللہ کی محبت بن جائے۔

ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھاگیاکہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟ رابعہ بصری نے جواب دیاکہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ بھی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اورکی نفرت یامحبت سماسکے۔

وفات
رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88) سال کی عمر پائی لیکن آخری سانس تک آپ نے عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپن اشعاربنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کادم بھرتی رہیں ۔ آخری وقت آپ نے اپنے ولی اور صوفی ساتھیوں کو بتایا کہ ”میرا محبوب و معبود ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے۔

اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے طفیل ہماری مغفرت۔ آمین




Untitled.jpg
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
بھائی یہ کیا جھوٹ لکھ رہے ہو - کیا رابعہ بصری نے جنت اور دوزخ
کے بارے میں صحیح کہا


 
Top