History ز سہ نسبت حضرت زہرا‏ء عزیز

  • Work-from-home

diya ali

TM Star
Nov 23, 2010
1,104
661
1,013
Rawalpindi
از سہ نسبت حضرت زہرا‏ء عزیز



بقلم: محمدیعقوب بشوی
ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی


مقدمہ:

اہل سنت کے تفسیری، حدیثی، رجالی اور تاریخی منابع میں سینکڑوں آیات (راقم کی تحقیقات کے مطابق 135 آیات قرآنی) سیدہ کے بارے میں اور سینکڑوں روایات آپ (س) کے فضائل و کمالات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور یہ سب حضرت ام ابیہا، سیدہ نساء عالمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے مثل و نظیر دختر کی کا خاصہ ہے۔ ان آیات و روایات کے کے بارے میں بحث و تجزیہ کرنے کے لئے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے مگر ہم یہاں کتاب نہیں لکھ رہے بلکہ اپنے قارئین کی نہایت مختصر فرصتوں کے پیش نظر چند صفحات پر مشتمل ایک مقالے کے ضمن میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امید ہے قارئین کے لئے مفید واقع ہو۔
اس مقالے میں قرآن مجید کی آیات کریمہ اور شیعہ اور سنی منابع و مآخذ میں مروی احادیث و روایات کی رو سے حضرت مریم پر سیدہ فاطمہ (س) کی برتری کے سلسلے میں بحث کی گئی ہے۔ امید ہے کہ ہم بھی روز محشر آپ (س) کی شفاعتِ شاملہ سب بہرہ مند ہوجائیں ۔ ان شاء اللہ

کائنات کی سب سے برتر خاتون
1. "وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِینَ" (1)
اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تمہیں (اپنے خاص اہداف کے لئے) منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک وپاکیزہ بنایاہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے۔
سنی علماء نے اس آیت کی ذیل میں چارعورتوں کی فضیلت میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔ یہ روایات ابن عباس، انس، ابی لیلی، ابوہریرہ، عایشہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، جابر بن عبداللّہ ، ابوسعید، حذیفہ، ام سلمہ، ابواسلمی، ابن مسعود، ابن عمر، عمران بن حصین، جابر بن سمرہ، ابی بریدہ اسلمی اور دیگر جیسے اہم راویوں سمیت خود اہل بیت (ع) اور امام علی و حضرت سیدہ فاطمہ (س) اور ان کے فرزندان معصومین سے نقل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں ان میں سے بعض روایات نقل کرتے ہیں۔
رسول خدا (ص) نے سیدہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: «یا فاطمة ألا ترضین أنْ تکونی سیدة نساء العالمین، و سیدة نساء هذه الامة، و سیدة نساء المؤمنین" (2)
اے فاطمہ! کیا آپ خوشنود نہیں ہے کہ آپ جہانوں میں برترین اور افضل ترین خاتون ہوں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ اور اور با ایمان خواتین کی سردار ہوں؟"
حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے (3) بغوی نے کہا ہے: اس حدیث کی صحت پر اتفاق رائے پایا گیا ہے۔ (4)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف مواقع پر مختلف تعبیروں سے دنیا کی تمام خواتین پر سیدہ (ع) کی افضلیت اور برتری پر تأکید فرمائی ہے۔ ایک دفعہ جب سیدہ (س) بیمار ہوئیں تو پغمبر اکرم (ص) نے صحابۂ کرام کو سیدہ (ع) کی بیماری کے بارے میں بتایا اور صحابہ عیادت کی غرض سے آپ (ص) کے ہمراہ سیدہ (ع) کے گھر کی طرف چلے۔ رسول اللہ (ص) نے گھر کے باہر کھڑے ہوکر آواز دی کہ: جان پدر! پردہ کریں، میرے ساتھ بعض اصحاب بھی عیادت کے لئے آرہے ہیں؛ سیدہ عالم کے پاس پردے کے لئے لباس کافی نہ تھا چنانچہ رسول اللہ (ص) نے اپنی عبا دروازے کے پیچھے سے بیٹی کو عطا کردی۔ رسول اللہ (ص) اور صحابہ عیادت کے بعد سیدہ (س) کے گھر سے باہر نکلے۔ وہ سب ایک دوسرے سے سیدہ (س) کی بیماری پر افسوس کا اظہار کررہے تھے اسی اثناء میں رسول اللہ (ص) نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اما إنّها سیدة النساء یوم القیامة؛(5) جان لو کہ وہ قیامت کے روز تمام خواتین کی سیدہ ہیں"۔
عائشہ ام المؤمنین روایت کرتی ہیں: ایک روز سیدہ فاطمہ (س) رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ (ص) کی چال بالکل رسول کی چال جیسی تھی؛ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: بیٹی! خوش آمدید اور بعدازاں آپ (ص) نے سیدہ کو اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھایا اور سیدہ سے رازداری میں بات کہہ دی سیدہ (س) رونےی لگیں۔ میں نے عرض کیا: رو کیوں رہی ہیں؟ [سیدہ (س) نے جواب نہیں دیا] اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے دوسرا راز بیٹی کو سنایا تو سیدہ (س) مسکرانے لگیں۔
میں نے عرض کیا: آج تک میں نے ایسی خوشی نہیں دیکھی جو غم سے اتنی قریب ہو اور پھر میں نے سبب دریافت کیا۔ فاطمہ (س) نے فرمایا: میں اپنے بابا کا راز فاش نہیں کرتی۔ یہ رازداری جاری رہی حتی کہ رسول اللہ (ص) کا وصال ہوا اس کے بعد میں نے سیدہ (س) سے اس روز کا راز پوچھا تو فرمانے لگیں: رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا: جبرائیل (ع) ہر سال قرآن مجید کو ایک بار مجھے پیش کیا کرتے تھے مگر اس سال نے انھوں نے دوبار یہ کام دہرایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ میرا وصال قریب ہے اور آپ میری اہل بیت (ع) میں سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہونگی؛ تو میں رونے لگی اور پھر آپ (ص) نے فرمایا: "أَ ما تَرضِیَنَّ أنْ تکونی سیدة نساء اہل الجنة أو نساء المؤمنین؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہوتیں کہ بہشتی خواتین یا با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟" (6)
البتہ بعض دیگر روایات میں ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عنقریب میرا وصال ہوگا تو میں رو پڑی اور جب آپ (ص) نے فرمایا کہ میں سب سے پہلے آپ (ص) سے ملحق ہونگی تو مجھے خوشی ہوئی اور مسکرانے لگی۔
بعض روایات میں چار خواتین کی سیادت کی بات ہوئی ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "افضل نساء العالمین خدیجة، و فاطمة و مریم و آسیة امرأة فرعون»۔(7) افضل ترین خواتین چار ہیں خدیجہ (ص)، فاطمہ (س)، مریم (س) اور فرعون کی اہلیہ آسیہ۔
مختلف روایات میں عبارات و تعبیرات مختلف ہیں جیسے ایک روایت میں رسول اللہ (ص) سے مروی ہے کہ: 1- "خیر نساء العالمین أربع مِنْهُنّ فاطمة" دنیا کی بہترین خواتین چار ہیں جن میں ایک فاطمہ (س) ہیں، 2- "أفضل نساء أهل الجنة أربع منهن فاطمة" جنت کی افضل ترین خواتین چار ہیں جن میں سے ایک فاطمہ (س) ہیں، اور 3- "سیدة نساء اهل الجنة أربع منهن فاطمة" جنت والی خواتین کی سیدات چار ہیں جن میں سے ایک فاطمہ (س) ہیں۔ ان سب روایات خاتون آفتاب کا مضمون ایک ہی ہے کہ سیدہ (س) کائنات کی بہترین خاتون ہیں۔ فرمایا: "کَمُلَ مِن الرجال کثیر و لم یکمل مِن النساء إلا مریم بنت عمران و آسیه بنت مزاحم (امرأة فرعون) و خدیجة بنت خویلد و فاطمة بنت محمد؛(8) یعنی مردوں میں سے بہت سے افراد کامل ہوئے تا ہم خواتین میں سے یہ خواتین کامل ہوئیں: "مریم (بنت عمران) آسیہ (بنت مزاحم زوجہ فرعون) ام المؤمنین سیدہ خدیجہ (بنت خویلد) اور فاطمہ (بنت محمد (ص))"۔

فاطمہ برتر ہیں یا مریم؟!
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دو اصلی منابع یعنی قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات اور روایات کریمہ میں کس کو افضل گردانا گیا ہے:
قرآن مجید کی رو سے سیدہ فاطمہ (س) حضرت مریم (س) سے افضل و برتر
اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: "وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِینَ * یَا مَرْیَمُ اقْنُتِی لِرَبِّكِ وَاسْجُدِی وَارْكَعِی مَعَ الرَّاكِعِینَ" (آل عمران 42 و 43)
اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تمہیں (اپنے خاص اہداف کے لئے) منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے * اے مریم ! اپنے پروردگار کی بارگاہ میں خاضع، فروتن اور اطاعت گزار رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والے کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔
ان دو آیات میں دو نکتے قابل غور ہیں:


ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں ذہن میں یہ بات آئی کہ مریم (س) حضرت فاطمہ (س) اور غیر فاطمہ (س) سمیت تمام عورتوں سے افضل ہیں کیونکہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "علی نساء العالمین" کہہ کر انہیں فضیلت عطا کی ہے۔
یہ آیت بالکل سورہ بقرہ کی آیت 47 کی مانند ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے: "یا بنی اسرائیل اْذکروا نعمتی التی انعمتُ علیکم و إنّی فضَّلتُکم علی العالمین؛ اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام خلائق سے زیادہ عطاکیا"۔ (10) ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنی زمانی میں دوسروں کی نسبت افضل امت قرار دیئے گئے ہیں اور تمام امتوں اور تمام اعصار اور ازمنہ میں آنے والی صاحب ایمان قوموں سے افضل نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے امت اسلامی سے مخاطب ہوکر فرمایا: «کنتم خیر امة» (11) یعنی تم (مسلمان) بہترین امت ہو۔ سب سے خیر، بہتر، برتر اور افضل امت بنی اسرائیل نہیں بلکہ امت مسلمہ ہے۔ [اور یہ بات بھی اس آیت سمیت متعدد قرآنی آیات ہے سے ثابت ہی] اسی طرح حضرت مریم برگزیدہ خاتون ہیں اپنے زمانے کی عورتوں کی نسبت؛ یہی بات روایات سے بھی ثابت ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس، حسن و ابن جریج نے کہا ہے: "اصطفاءِ مریم سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی نسبت افضل اور برگزیدہ تھیں"۔ (12) ابن انباری نے یہی قول اکثر مفسرین و محدثین سے منسوب کی ہے اور کہا ہے کہ مریم اپنے زمانے کی عورتوں سے برتر اور ان کی نسبت پسندیدہ اور برگزیدہ تھیں۔ (13)
اسی طرح کا قول ابن عباس اور سُدَی (14) سمیت دیگر محدثین و مفسرین سے بھی نقل ہوا ہے اور اکثر سنی مفسرین نے یہی قول صحیح اور قابل قبول قرار دیا ہے۔(15)


مریم کو امر ہوا ہے کہ "و ارکعی مع الراکعین" (اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتے رہو) جیسا کہ بنی اسرائیل کو بھی امر ہوا تھا کہ "و اقیموا الصلاة و اتوا الزکوة و ارکعوا مع الراکعین؛(16) اور نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو"۔
دو آیتوں میں حضرت مریم اور بنی اسرائیل کو حکم ہوا ہے کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کریں۔ اور ان ہی دو آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم اور بنی اسرائیل سے بہتر و برتر لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ بنی اسرائیل اور حضرت مریم سے کہا گیا ہے کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کریں اور ان کی ہمراہی کریں اور ان کی اقتداء کریں۔ رکوع کرنے والے درحقیقت حضرت مریم اور بنی اسرائیل کے امام و پیشوا ہیں چنانچہ وہ حضرت مریم اور بنی اسرائیل سے افضل ہیں۔
اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ خداوند متعال رکوع کرنے والوں کو متعارف کراتا ہے: ارشاد ہوتا ہے: "إِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُواْ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ" ۔(17) تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور خیرات دیتے ہیں جبکہ وہ رکوع کررہے ہوتے ہیں۔
یعنی یہ کہ رکوع کرنے والے اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام ہیں بالخصوص ابوالائمہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام۔(18)
سیدہ فاطمہ (س) فخر مریم (س) ہیں کیونکہ خداوند متعال نے قرآن کی دو سورتیں ان کی مدح و تعریف و تمجید میں نازل فرمائی ہیں۔ 1. سورہ دہر (یا سورة الانسان) اور 2. سورہ کوثر؛ (20) اور اسی طرح آیت تطہیر (21) خاتون جنت کی عصمت و طہارت پر تأکید کرتی ہے۔ یہ آیت اہل بیت (ع) بالخصوص حضرت فاطمہ (س) کے لئے مخصوص ہے۔ (22) آیت مودت (23) میں سیدہ (س) کی مودت کو تمام مسلمانوں پر تا روز قیامت فرض فرمایا گیا ہے۔ (24) سورہ احزاب (25) میں حکم دیا گیا ہے کہ مؤمنین سیدہ (س) کے وجود مبارک پر پیوستہ درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (26) اسی طرح درجنوں آیتیں (27) سیدہ (س) کی فضیلت و برتری پر دلالت کرتی ہیں۔ اتنے سارے فضائل کا حضرت مریم کے لئے کہا پتہ ملتا ہے؟!
سیدہ فاطمہ (س) انسانوں کے لئے اللہ کی حجت ہیں (28) آخرت میں مقام شفاعت کی مالکہ ہیں (29) سیدہ (س) کی مودت 100 مقامات پر انسان کے کام آتی ہے (30) آپ (س) رسول اللہ (ص) کے بدن کا ٹکڑا ہیں (31) اور سیدہ (س) کا غضب اللہ کا غضب اور آپ (س) کی رضا اللہ کی رضا ہے (32) مریم (س) فاطمہ (س) کے ساتھ قابل قیاس ہی نہیں ہیں۔ گو کہ مریم (س) عیسی روح اللہ (ع) کی والدہ ماجدہ اور دنیائے خلقت کی چار عظیم خواتین میں سے ایک ہیں اور ان کا رتبہ بہت بلند ہے اور سنی عالم دین "النسفی" نے کہا ہے کہ مریم (س) کو اس لئے برگزیدہ خاتون قرار دیا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت عیسی (ع) کو بغیر باپ کے جنم دیا۔ (33)
 
Top