Ikhlaqiat مسلم خواتیں سے بھلائی کی اخلاقی نظیر قرآن میں

  • Work-from-home

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
اسلام مخالف پروپیگنڈہ کرنے والے اور ان سے متاثر ہو کر کچھ مغربیت زدہ نام کے مسلمان بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کا لحاظ نہیں کیا ہے، اسلام عورتوں کی آزادی میں رکاوٹ ہے۔ حالانکہ یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا دن کے اجالے میں یہ کہنا کہ سورج نہیں نکلا ہے۔
جس نے بھی انصاف سے عربوں کی اور اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ اسلام سے قبل عرب اور دنیا کے دوسرے ممالک میں عورتوں اور لڑکیوں کی کتنی بری حالت تھی۔ وہ کون سے مظالم ہیں جو اس صنف نازک پر روا نہ رکھے جاتے، وہ کون سی زیادتیاں ہیں جو ان کے ساتھ نہ کی جاتیں، عربوں کا اپنی زندہ بچیوں کو درگور کرنا، اولاد کا باپ کے انتقال کے بعد اپنی سوتیلی ماوں کو باندی بنا کر رکھنا، ہندوستان میں شوہر کے مرنے کے بعد عوتوں کا اس کی چتا میں جل کر ستی ہو جانا، ایک ساتھ ایک شوہر کے پاس جار سے زیادہ عورتوں کا جمع ہو کر مظالم سہنا، وغیرہ تایخ کے وہ حقائق ہیں جن کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا
ہاں جب اسلام آیا تو اس نے عورتوں کی لاج رکھ لی انھیں قعر مذلت سے نکلا کر عزت کے اوج ثریا پر پہنجایا نکاح کو چارعورتوں تک محدود کیا کہ بیک وقت کوئی شوہراس سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا، ماں چاہے حقیقی ہو یا سوتیلی اس کو بیوی یا باندی ہرگز نہیں بنایا جا سکتا، بچیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا گیا، بلکہ اسقاط حمل تک کی اجازت نہیں دی گئی، حتی کہ عزل کو بھی مذموم قرار دیا گیا مگر بضرورت و اجازت، ماں کا حق اولاد پر باپ سے تین گنا تک رکھا، ماوں کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت رکھ دی گئی، اور یہ فرمایا گیا کہ جو اپنی اہل کے لیئے بہتر ہے وہی تم میں افضل ہے، قرآن پاک نے مختلف مقامات پر عوتوں کے حقوق کا ذکر کیا ہے، ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہےاور ان کے مقام و مرتبے کو واضح کیا ہے، بچیوں کی پرورش و پرداخت پر اور ان کو حسن ادب سے آراستہ کرنے پر جنت کی بشارت دی، عطایا و ہدایا کی تقسیم میں بچیوں کو بچوں پر مقدم کرنے کا حکم دیا، یہ اسلام کے وہ احسانات ہیں صنف نازک پر جن کی مثال کہیں اورنہیں ملتی۔
بد قسمتی سے آج کے مسلم معاشرہ میں احکامات خداوندی سے دوری کے باعث دور جاہلیت کے کچھ نظائر پھر پیدا ہونا شروع ہورہے ہیں چونکہ یہ اسلام اوراحکامات خداوندی سے دوری کا سبب ہے اور لوگوں کے ذاتی افعال ہیں انھیںاسلام کا نام نیہں دیا جاسکتا آج بیویوں پر یہ ظلم ہوتا ہے کہ ذرا سی ان کی کوئی عادت نا پسند ہوئی فورا اس کو بدلنے کی فکر لاحق ہوئی دوسری بیوی کا چکر شروع ہو گیا، اس کی صورت میں کچھ تو ان کی کمزوریوں اور کچھ جھوٹے الزامات کے ذریعہ ان کو بد نام کر کے علیحدگی کی سازشیں رچنے کا سلسلہ عام ہے، دور جاہلیت میں اہل عرب بھی عوتوں پر ایسے ہی مظالم دکھاتے تھے قرآن نے اس برائی کا سد باب کرتے ہوئے واضح حکم دیا:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کے اندر تو معانی کا ایک ناپیدا کنار سمندر موجزن ہے کہ عورتوں کے حقوق سے متعلق اگر کوئی اور آیت یا حدیث نہ بھی ہوتی تو صرف یہ ایک آیت ہی کافی تھی، کیوں کہ عورتوں کی بھلائی اور ان کے ساتھ خیر خواہی کے سارے امور اس میں آگئے یوں ہی ان پر مظالم اور زیادتیوں کی جتنی شکلیں بنتی ہیں وہ سب ممنوع ہو جاتے ہیں، پھر اس واضح ارشاد و ہدایت کے بعد ہی عورتوں پر ہونے والے ایک خاص ظلم کا سد باب کرتے ہوئے کیسے دلنشین انداز میں سمجھایا ہے کہ ان عورتوں کی بعض ناپسند عادتوں پر نہ جاو ہر کوئی کچھ نہ کچھ ناپسند عادت رکھتا ہے یہ تو تمہاری بیوی ہی ہے اس کا حق ہے کہ تم اس کی بعض ناپسند عادتوں کو گوارا کر لو اور اس کی دوسری پسندیدہ خصلتوں پر توجہ دو، پھر تمہیں خود پسند آئے، کیونکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد جسے تم پسند کرو اس کے اندر اس سے زیادہ ہی ناپسندیدہ خصلتیں بعد میں دیکھنے کو ملیں اور پہلی والی سے جو لوگ معمولی غلطیوں اور چھوٹی موٹی کمزوریوں یا قدرتی طور پر پائی جانے والی حسن کی کمیوں کے سبب اپنی بیویوں کو طلاق دے دیا کرتے ہیں وہ لاکھ کوشش کے بعد بھی اس سے اچھی بیوی نہیں پاتے ہیں پھر بھی وہ پہلی سے اچھی ثابت نہیں ہوتی، اگر اس کی شکل مدھم تھی تو خصلت و عادت اچھی تھی علم و تقوی میں آگے تھی اور یہ حسن پیکر ضرور ہے مگر اخلاق و کردار اور علم و تقوی میں اس سے بہت کم تر، ایسے ہی موقع کے لیئے مثل ہے کہ
"آدھی چھوڑ پوری پہ جائے، آدھی پوری دونوں جائے"
پہلی تو ناپسند تھی ہی یہ اس سے بھی گئے گزری نکلی، ہاں پہلے آدمی حسن ظاہر و حسن باطن دونوں پر توجہ دے لے اور اچھی طرح پرکھ کر رشتہ کرے تو یہ دن دیکھنے کو نہ ملیں اور حسن ظاہر پر حسن باطن یعنی حسن علم و ادب اور تقوی و دینداری کو بہر حال ترجیح دینا چاہیئے جیسا کہ خود حیث پاک میں ہے کہ {فاظفر بذات الدین} تم حسب، نسب، حسن ظاہر اور مال و دولت پر، دیندار عورت کو ترجیح دو{بخاریو مسلم، مشکوۃ ص ۲۶۷}
تفسیر ضیاء القرآن سے اک اقتساب نقل کر رہا ہوں
View attachment 53032
 

The horror

Banned
Nov 24, 2011
1,965
595
113
29
the haunted mansion
حضرت خدیجہ کی مثال اپ کے سامنے ہے -- اسلام نے عورتوں پہ پابندیا ن لگائیں-- اسلام سے پہلے حضرت خدیجہ کا اپنا کاروبار تھا -- اسلام سے پہلے عورتوں کو زیادہ آزادی تھی -- اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کر دیا -- ہر وقت مردوں کی خدمات پہ لگا دیا -- میں ابھی تھوڑا سا مصروف ہوں باقی بات پھر کبی ہو گی .. اگر اسلام سے پہلے عورتوں کی بری حالت تھی تا حضرت خدیجہ کا کے پاس کاروبار کہاں آیا
 
Top