وقت کے شکنجوں نے
خواہشوں کے پھولوں کو
نوچ نوچ توڑا ہے
کیا یہ ظلم تھوڑا ہے؟
درد کے جزیروں نے
آرزو کے جیون کو
مقبروں میں ڈالا ہے
ظلمتوں کے ڈیرے ہیں
لوگ سب لٹیرے ہیں
موت روٹھ بیٹھی ہے
ذات ریزہ ریزہ ہے
تار تار دامن ہے
درد درد جیون ہے
شبنمی سی پلکیں ہیں
قرب ہے نہ دوری ہے
زندگی ادھوری ہے
اب یقین آیا کہ
موت بھی ضروری ہے