عجیب موسم ہے بارشوں کا
کہ جس میں جذبے سلگ رہے ہی
دھواں دھواں ہیں یہ بھیگی آنکھیں
جگر کے چھالے بھی تپ رہے ہیں
جلے ہوؤں کو جلا رہا ہے
عجیب موسم ہے بارشوں کا
پیام کوئی
سلام کوئی
گلاب کوئی
نہ خواب کوئی
تمہاری جانب سے ، پہلے پایا ہی کب تھا میں نے
کوئی بھی جذبہ
تو کیوں یہ خواہش جگا رہا ہے
عجیب موسم ہے بارشوں کا
جو دل کی دھرتی کے رنگ سارے
مٹارہا ہے ستارہا ہے
عجیب موسم ہے بارشوں کا...
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.