Ek Sachi Kahani...Must Read

  • Work-from-home
Sep 2, 2008
1,451
674
0
U.S.A
حویلیاں کا آسیب زدہ مکان
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنی محبت کو پانے میں مکمل ناکام رہا اور لاہور شہر سے دل اچاٹ ہو گیا۔ دل چاہتا کسی پہاڑی مقام پر کچھ عرصہ گزاروں تاکہ دل و دماغ پر صدمے کی کہر چھٹ سکے۔ اس سلسلے میں میں نے لاہور میں واقع اپنی الیکٹرونکس کی دکان کو ختم کر دیا اور مشہور روح افزا مقام ایبٹ آباد کے نواح میں ایک قصبہ حویلیاں میں رہنے لگا۔ وہاں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ایک دکان بھی بنا لی۔
چند ماہ تو میں ایک فلیٹ میں رہا، بعد ازاں فلیٹ کے مالک نے تقاضا کیا کہ آپ کوئی اور مکان دیکھ لیں، یہ فلیٹ مجھے ذاتی طورپر چاہئیے، ناچار وہ فلیٹ مجھے خالی کرنا پڑا اور میں نے حویلیاں کے لاڈی اڈہ سے تقریبا سو میٹر دور مین حویلیاں روڈ پر واقع ایک عمارت میں مکان کرائے پر لے لیا۔ اس عمارت کی زمینی منزل پر چند دکانیں اور ایک ریستورنٹ تھا اور دوسری منزل پر میرا فلیٹ واقع تھا۔
اس مکان کے دو کمرے تھے، اس کے علاوہ ایک کچن اور باتھ روم وغیرہ تھا، میرے لئے تو ایک کمرہ ہی کافی تھا، دوسرا کمرہ میں نے چند دنوں بعد ہری پور کے رہنے والے ایک نوجوان، عاقل کو دے دیا جو حویلیاں میں سنار کا کام کرتا تھا اور ہم مل جل کر رہنے لگے۔
دونوں کمروں کے درمیان ایک دروازہ تھا جو دونوں کمروں کو آپس میں ملاتا تھا۔ ہم دونوں رات گئے تک گپ شپ لگاتے اور سوتے وقت درمیانی دروازے کو کنڈی لگا دیتے۔ جب میں نےیہ مکان لیا اور پہلے ہی دن رات کو میں دکان بند کرکے مکان میں آیا توبتیاں بند ہونے کی وجہ سے مکان پوری طرح اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے برآمدے میں پہنچ کر بلب جلانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو چونک گیا۔ مجھے ایسا احساس ہوا جیسے برآمدے میں کوئی موجود ہے، ایک سایہ سا میرے آگے سے گزر گیا۔ میں تھوڑا سا کنفیوژ ہوا اور بٹن دبا دیا، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
میں کھانا باہر ہی کھاتا تھا، اور حسبِ معمول کھا کر آیا تھا، تھوڑی دیر ٹی وی دیکھا اور لائٹ آف کر کے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ چھت پر کسی کے دوڑنے کی آواز آئی، میں نے سوچا شائد بل یاں وغیرہ
لڑ رہی ہونگی، لیکن یہ تو بھاری قدموں کی آوازیں تھیں۔ میں تھوڑی دیر لیٹا سوچتا رہا کہ یہ آوازیں کیسی ہیں، پھر میں بستر سے اٹھا اور سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر پہنچ گیا۔ وہاں سردیوں کی کہر آلود چاندنی میں چھت سنسان پڑی تھی اور کسی ذی روح کا وجود نہیں تھا۔ میں چھت پر کچھ دیر ٹہلتا رہا اور آس پاس کی چھتوں پر بھی جھانکا، لیکن سوائے ٹھنڈی کہر آلود اداس چاندنی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں تھک ہار کر کمرے میں آگیا۔
آکر لیٹا، تو کچھ دیر سکون رہا اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں مکان میں باکل اکیلا تھا،ہمت کر کے لیٹا رہا اور پھر نہ جانے کب نیند نے آگھیرا، میں سوگیا۔
صبح ناشتے کرتے ہوئے میں رات کے واقعہ پر سوچنے لگا، اور پھر اسے اپنا وہم سمجھ کر پر سکون ہو گیا اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔

پھر یہ روز کا معمول بن، میرا ساتھی عاقل ہفتے میں ایک دو دن چھوڑ کر اپنے گھر ہری پور چلا جاتا تھا،جو کہ حویلیاں سے تقریبا ۲۵ کلومیٹر دور ہے۔ جب وہ اپنے گھر ہوتا تو میں مکان میں اکیلا رہ جاتا۔ ان پراسرار آوازوں کا عاقل بھی عادی ہو چکا تھا اور ہم ہمت سے کام لے کر رہ رہے تھے کیونکہ اس علاقے میں دوسرا مکان ملنا بہت دشوار تھا اور یہ مکان بھی ہمیں کافی تگ و دو کے بعد ملا تھا۔
میرا ایک بہت قریبی دوست نوشہرہ چھاؤنی میں فوج کی ٹریننگ لے رہا تھا۔ اُس کو ہفتے میں دو چھٹیاں ملتی تھیں، وہ بدھ کی رات دیر گئے میرے پاس پہنچتا اور جمعرات اور جمعہ کا دن میرے ساتھ گزارتا۔ اس طرح میرا بھی وقت اچھا کٹ جاتا۔
جب وہ پہلی بار میرے پاس حویلیاں آیا ،ہم کھانا وغیرہ کھا کر کمرے میں پہنچے اور گپ شپ لگانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہی پراسرار آوازوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میرا دوست پرویز تھوڑی دیر تک وہ آوازیں سنتا رہا اور پھر دریافت کیا" شامی یہ آوزیں کیسی ہیں؟"
" مجھے تو خود پتہ نہیں یہ کیسی آوازیں۔" میں نےجواب دیا۔
" کیا مطلب؟" اُس نے حیرانی سے پوچھا۔
" ہاں صحیح کہ رہا ہوں، میں ابھی تک سراغ نہیں لگا پایا کہ یہ کیسی آوازیں ہیں۔ روز مجھے ان آوازوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہی آوازیں سنتے سنتے سو جاتا ہوں۔ اب تو میں نے ان آوازوں کی پرواہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے،کیونکہ صرف آوازیں سنائی دیتی ہیں، مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچا۔
" نہیں یار اوپر کوئی آدمی دوڑ رہا ہے"۔ اُس نے غور سے آوازیں سنتے ہوئے کہا۔
"اوپر کوئی نہیں ہے،یہ آوازیں اسی طرح روز آتی ہیں"۔ میں نے سکون سے جواب دیا۔
"آؤ اوپر جاکر دیکھتے ہیں"۔ اس نے پر خیال لہجے میں کہا
"چلو آؤ"۔ میں نے اس کی تسلی کے لئے کہا۔
رات کے بارہ بجے سے زیادہ کا عمل ہوگا۔ سردیوں کی اس رات میں باہر سنسانی پڑی ہوئی تھی۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چھت پر پہنچ گئے۔ اوپر ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں تھا۔ چار سو خاموشی تھی،رات کے اس پہر،دور کسی کتے کے بھونکنے کی آواز اس خاموشی میں ارتعاش پیدا کرتی اور پھر خاموشی چھا جاتی۔
پرویز حیرانی اور الجھن کے ساتھ چاروں طرف دیکھ ریا تھا۔پھر اس نے لیٹ کر چھت کے فرش کے ساتھ کان لگا کر سننے کی کوشش کی،لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ہم نیچے اتر آئے۔
"یار تم اس آسیب زدہ ماحول میں کیسے رہ رہے ہو؟" اس نے حیرانی سے دریافت کیا۔
" کیا کروں، پہلی بات تو یہ کہ اب مجھے ڈر نہیں لگتا، دوسرے کوئی مکان ملنا بھی مشکل ہے" میں نے جواب دیا۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ آوازیں دوبارہ آنا شروع ہو گئیں۔ دن اسی طرح گزرتے رہے،پرویز آتا ،چھٹیاں میرے ساتھ گزارتا اور چلا جاتا۔ اب وہ بھی ان آوازوں کا عادی ہو چکا تھا۔
یہ جمعرات کی رات تھی۔میں دکان بند کر کے اور کھانا کھا کر گھر آگیا۔ میرا ساتھی عاقل حسبِ معمول اپنے گھر ہری پور گیا ہوا تھا۔آج پرویز بھی نہیں تھا اور میں گھر میں باکل تنہا تھا۔ میں نے آتے ہی ٹی وی آن کیا۔ پی ٹی وی پر "ویک اینڈ سینما" میں انگلش فیچر فلم شروع ہونے والی تھی۔ اُن دنوں پی ٹی وی ہفتہ میں دو انگریزی فلمیں دکھاتا تھا۔ ایک جمعرات کی رات "ویک اینڈ سینما" میں اور دوسری " سیچر ڈے نائٹ سپیشل" میں۔ یہ دونوں فلمیں میں ضرور دیکھا کرتا تھا اور بہت سی یاد گار فلمیں دیکھیں۔ فلم شروع ہوئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے فلم کا نام تھا" ڈیز آف جیکل" یہ ایک فل آف سسپنس فلم تھی۔ ایک ملک کی تنظیم ایک انتہائی پیشہ ور قاتل کی خدمات حاصل کرتی ہے اور ایک ملین ڈالر کے عوض اپنے مخالف ملک کے وزیرِ اعظم کو قتل کرنے کا مشن سونپتی ہے۔قاتل بھی اپنے فن پر اعتماد کرتے ہوئے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ مخالف ملک کی انٹیلی جنس کو بھی خبر ہوجاتی ہے اور وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی جاتی ہے اور ممکنہ قاتل کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے۔ قاتل بھیس بدل بدل کر انٹیلی جنس کو دھوکہ دیتا ہے، غرض انتہائی دلچسپ اور سسپنس فل فلم شروع تھی، میں دنیا و مافیہا سے بے خبر فلم میں مگن تھا کہ اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا، تاریکی اتنی گہری تھی کہ بقول شخصے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔

پہلے خیال آیا کہ شائد بجلی چلی گئی ہے،پھر سوچا دیکھنا تو چاہئے ہوا کیا ہے۔ میں نے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار کر ماچس تلاش کی ،دیا سلائی جلاکر دروازے تک پہنچا اور کنڈی کھول کر باہر صحن میں نکل آیا۔باہر سڑک کی مین لائٹ روشن تھی، اس کا مطلب تھا کہ بجلی نہیں گئی بلکہ کچھ اور گڑ بڑ تھی۔ میں دیا سلائی کی روشنی میں بجلی کے کنٹرول پینل تک پہنچا اور فیوز نکال کر چیک کیا۔ فیوز اُڑا ہوا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ صحن میں ایریل کی بیکار تار کا ایک ٹوٹا پڑا ہوا ہے، میں نے اسے تلاش کیا اور فیوز بنا کر لگا دیا، بجلی بحال ہو گئی۔
میں کمرے میں آکر پھر فلم دیکھنے لگا۔،،، قاتل اب اپنے ٹارگٹ شہر میں پہنچ چکا تھا اور ایک دکاندار سے بیساکھی خرید رہا تھا، بیساکھی خرید کر وہ اپنے ہوٹل میں آگیا اور اپنی خاص قسم کی گن کو بیساکھی میں فٹ کر رہا تھا۔
دس منٹ کی فلم مزید چلی ہو گی کہ کمرہ پھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ ایک دلچسپ ترین فلم میں تعطل آرہا تھا۔ میں پھر باہر آیا،فیوز پھر اڑا ہوا تھا، میں نے پھر فیوز لگایا اور بجلی آگئی۔
میں پھر ٹی وی کے آگے آبیٹھا۔آج بھی پراسرار آوازوں کا سلسلہ جاری تھا، بلکہ آج تو آوازیں معمول سے تیز تھیں، لیکن میں نے اب ان کا نوٹس لینا چھوڑ دیا تھا اور محویت سے فلم دیکھ رہا تھا۔ قاتل اب ایک پریڈ گراؤنڈ میں موجود تھا اور بیساکھی کے سہارے چل رہا تھا۔ اسی گراؤنڈ میں وزیرِ اعظم کی آمد متوقع تھی۔
سیکیورٹی والے اور انٹیلی جنس والے ہر کسی کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ دو بار قاتل کو بھی روکا گیا مگر معذور سمجھ کر در گزر کر گئے۔ قاتل اب ایک عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگا اور چھٹی یا ساتویں منزل کے ایک کمرے میں اپنی بیساکھی میں سے گن نکال کر سٹینڈ پر فٹ کرنے لگا۔ گن فٹ کرکےاس نے گاڑی سے اترتے وزیرِ اعظم کے سینے کا نشانہ لیا۔ وزیرِ اعظم مختلف لوگوں سے ہاتھ ملا رہا تھا اور قاتل کو نشانہ لینے میں مشکل کا سامنا تھا۔ پھر قاتل کو موقع مل گیا، وزیرِ اعظم کا سینہ گن پر لگی دور بین کے باکل وسط میں تھا اور کوئی رکاوٹ بھی موجود نہیں تھی، قاتل نے گولی چلا دی، کمرے میں ٹھاہ کی آواز گونجی اور میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ کمرے میں پھر تاریکی ہو چکی تھی۔ مجھے ازحد غصہ آیا کہ قاتل کی گولی کا نتیجہ تک نہیں دیکھ سکا تھا۔ میں نے پھر ماچس تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن اس بار ماچس نہیں ملی۔ نہ جانے میں نےکہاں رکھ دی تھی۔ میں نے اندھوں کی طرح اندھیرے میں مختلف جگہوں پر ہاتھ مارے لیکن ماچس ہاتھ نہیں لگی۔ اب میں سوچنے لگا کہ اس گھپ اندھرے میں دروازہ کیسے کھولوں۔ ماچس تلاش کرنے کے چکر میں مجھے سمت کا بھی اندازہ نہیں رہا تھا، اب اس گھپ اندھیرے میں دروازہ تلاش کرنا تھوڑا مشکل تھا۔ میں اُٹھا اور ایک سمت میں چلتا ہو دیوار تک پہنچ گیا۔ اس خیال سے کہ دیواروں کو ٹٹولتا ٹٹولتا دروازہ تلاش کرلوں گا۔ میں نے ایک دیوار کواندھوں کی طرح تھپتھپا کر آکر بڑھنا شروع کر دیا۔ وہ دیوار ختم ہو گئی، اور اس میں مجھے دروازہ نہیں ملا۔ نکڑ آنے کے بعد میں نے دوسری دیوار کا طواف شروع کردیا یہ دیوار بھی ختم ہو گئی لیکن دروازہ نہیں ملا۔ اب تیسری دیوار کی باری تھی، میں نے اندھوں کی طرح ہاتھ سے چھوتے چھوتے یہ دیوار بھی ختم کر لی اور اب میں حیران اور پریشان ہو گیا۔ کیونکہ دیوار میں کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہو نا چائیے تھا۔ یا کم از کم وہ دروازہ جو دونوں کمروں کو ملاتا تھا وہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر چوتھی اور آخری دیوار کو چیک کرنا شروع کر دیا، لیکن ڈھاک کے تین پات، یعنی نہ صرف دروازہ نہیں ملا، بلکہ دروازے والی دیوار میں موجود لوہے کی کھڑکی بھی غائب تھی۔ چاروں دیواریں سپاٹ معمول دیتی تھیں جیسے ان میں کوئی دروازہ یا کھڑکی بنائی ہی نہیں گئی۔ میں گھبراہٹ کا شکار ہو چکا تھا اور خوف بھی رگوں میں سرائت کرتا جارہا تھا۔ میں نے ہمت نہیں ہاری اور ا یک بار پھر دیواریں دوبارہ چیک کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اندھیرے میں مجھے قطعا اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ میرا منہ مشرق کی طر ف ہے یا شمال کی طرف۔ اس دفعہ بھی میں نے ساری دیواریں چیک کر لیں، لیکن بے درو بام دیواریں میرا منہ چڑا رہی تھیں۔ اب میں بے چینی، بے بسی اور خوف کا شکار ہو چکا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔

ھر میں نے ارادہ کیا کہ لعنت بھیجو اس سارے سلسلے پر، سونے کی کوشش کرتا ہوں صبح ہوگی تو اندھیرے سے خود بخود جان چھوٹ جائے گی۔ یہی سوچ کر میں اندازے سے کمرے کے وسط کی جانب بڑھا۔ ابھی میں نے دو قدم ہی اٹھائے ہونگے کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت بڑے جسیم جسم نے مجھے پیچھے سے جکڑ لیا ہے۔ آپ خود تصور کریں کہ کوئی کنگ کانگ ٹائپ کی نامعلوم مخلوق گھپ اندھرے میں آپ کو جکڑ لے تو آپ کے کیا احساسات ہونگے؟ اس جسم کے میرے ساتھ مس ہوتی ہی میں شدت خوف سے ہوش و ہواس کھو بیٹھا اور غالبا بے ہوش ہوگیا۔ میں کتنی دیر بے ہوش رہا، اس کااندازہ مجھے نہیں ہے، لیکن جب ہو ش آیا تو کمرے سے باہر دن کی روشنی نظر آرہی تھی گھڑی میں وقت دیکھا تو صبح کے نو بج رہے تھے۔ میں نےکمرے کے گردش و پیش پر نظر ڈالی اور مجھے رات کےبھیانک واقعات یاد آنے لگے۔ مجھ پر پھر خوف طاری ہو نے لگا۔
میں نے پھر کمرے میں ایک اوراچٹتی سی نظر ڈالی تو حیران رہ گیا۔ وہ رضائی جو میں نے اپنے دوست پرویز کے لئے مخصوص کر رکھی تھی اس میں کوئی لیٹا ہوا تھا۔میں حیران ہوا کہ اس رضائی میں کون لیٹا ہوا ہے؟ کیونکہ کل رات نہ تو عاقل ادھر تھا اور نہ پرویز ہی آیا تھا، پھر یہ کون ہو سکتا ہے؟
میں نے ہمت کر کے آواز دی۔
"کون ہے رضائی میں؟" رضائی میں تھوڑی سی حرکت ہوئی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے پھر آوز دی لیکن اس بار بھی جواب ندارد۔ میں نے ہمت کی اور رضائی کا ایک کونا اٹھا کر اندر جھانکا ، اندر جو میں نے دیکھا اسے دیکھ کر میرے حواس پھر منتشر ہونے لگے۔ رضائی میں تین چار سال کا ایک بچہ لیٹا ہوا تھا، اس کی رنگت تانبے کی طرح سرخ تھی، اسکا پیٹ غیر معمولی حد تک بڑا تھا، اور اسکا منہ بھولی کتے کی تھا۔ یعنی بڑے بڑے کان، گالوں کا گوشت لٹکا ہوا اور ہونٹ بھی بڑے بڑے اور لٹکے ہوے تھے۔ یہ منظر دیکھتے ہی میں چلاتا ہوا کمرے سے بھاگا اور اندھا دندھ بھاگتا ہوا تیزی سے سیڑھیاں اتر اپنے دوست کی دکان، جس کا ویڈیو سنٹر تھا وہاں آگیا۔ نصیر نے بڑے غور سے مجھے سر سے لیکر پاؤں تک مجھے دیکھا اور حیرانی سے بولا۔
"شامی تمہاری جوتی کہاں ہے؟ اور یہ تمہیں ہوا کیا ہے؟" میرا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا، سردی کے باوجود جسم پسینے سے شرابور تھا، میں نے اسے انگلی سے اشارہ کیا کہ مجھے سانس لینے دے۔ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو اسے بتایا کہ میرے کمرے میں رضائی میں کوئی پراسرار مخلوق لیٹی ہوئی ہے۔ پہلے تو اس نے یقین نہ کیا پھر میرے اڑے ہوئے رنگ، اور غیر حالت نے اسے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
" آؤ میرے ساتھ۔ " اسنے اٹھتے ہوئے کہا۔ میں اس کےساتھ چل پڑا۔ گھر کے سارے دروازے چوپٹ کھلے ہوئے تھے،ہم اس کمرے میں پہنچے جس میں رضائی میں "کوئی" لیٹا ہوا تھا۔ نصیر نے ڈرتے ڈرتے رضائی احتیاط سے ہٹائی، لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا"یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے" اس نے طنزیہ انداز سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میں نے پھر اسے شروع سے ساری کہانی سنائی اور رات کے واقعات بھی بتائے، لیکن اس نے یقین نہ کیا۔ "پھر اچانک اس نے پوچھا "شامی کل رات تم نے کوئی نشہ وغیرہ تو نہیں کیا تھا؟"
"نصیر بھائی، آپ نے زندگی میں کبھی مجھے کوئی نشہ کرتے دیکھاہے؟ میں نے الٹا سوال داغ دیا۔ اور وہ لا جواب ہو گیا۔

پھر ہم اس مکان کے مالک سے ملے اور مکان کے بارے میں اسے کریدا۔ اس نے تسلیم کیا کہ ہاں واقعی یہ مکان آسیب زدہ ہے ،پہلے تین کرائے دار تو ایک ایک ماہ گزار کر بھاگ گئے، لیکن میں حیران ہوں آپ نے پورے چھ ماہ گزار لئے۔
میں ناراض ہوا کہ اگر مکان میں کوئی گڑ بڑ تھی تو آپ نے مکان دیتے وقت کیوں نہ بتایا۔ وہ ہنس کر ڈھٹائی سےبولا، اگر میں بتا دیتا تو آپ سے چھ ماہ کا کرایہ کیسے وصول کرتا؟ مجھے اس کے جواب پر غصہ تو بہت آیا، لیکن کیا کرسکتا تھا۔
میرا لاہور چھوڑنے کا مقصد بھی پورا ہو چکا تھا، دل کے گھاؤ بھر گئے تھے، میں نے مزید اب یہاں رہنا فضول سمجھا اور لاہور کی راہ لی۔ اب بھی کبھی کبھی یہ واقعات یاد آتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب میرے ساتھ بیت چکا
 
  • Like
Reactions: Pari and Don
Top