چراغ شب کو جیسے آندھیاں اچھی نہیں لگتیں
کچھ ایسے ہی ہمیں خوش فہمیاں اچھی نہیں لگتیں
جنہیں سونے کے پنجرے میں غذا مل جاے چاندی کی
انہیں پھر آزادیاں اچھی نہیں لگتیں
بلندی پر کبھی پہنچاے گا میرا ہنر مجھ کو
مجھے قدموں کے نیچے سیڑھیاں اچھی نہیں لگتیں
وہ جن کے دل میں فصل غم نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں
انہیں پھولوں پہ بیٹھی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں
وہ حسن و دلکشی کو جانتے پہچانتے کب ہیں
کہ جن کو کھلکھلاتی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں
میرا جی چاہتا ہے ان کو میں آیینہ دکھلاؤں
وہ جن کو دوسروں کی خوبیاں اچھی نہیں لگتیں
مجھے کانٹوں بھرے رستے پر چلنے کو کہتا ہے
دلٍ ناداں کو مجبوریاں اچھی نہیں لگتیں
فرحت عباس شاہ
__________________کچھ ایسے ہی ہمیں خوش فہمیاں اچھی نہیں لگتیں
جنہیں سونے کے پنجرے میں غذا مل جاے چاندی کی
انہیں پھر آزادیاں اچھی نہیں لگتیں
بلندی پر کبھی پہنچاے گا میرا ہنر مجھ کو
مجھے قدموں کے نیچے سیڑھیاں اچھی نہیں لگتیں
وہ جن کے دل میں فصل غم نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں
انہیں پھولوں پہ بیٹھی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں
وہ حسن و دلکشی کو جانتے پہچانتے کب ہیں
کہ جن کو کھلکھلاتی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں
میرا جی چاہتا ہے ان کو میں آیینہ دکھلاؤں
وہ جن کو دوسروں کی خوبیاں اچھی نہیں لگتیں
مجھے کانٹوں بھرے رستے پر چلنے کو کہتا ہے
دلٍ ناداں کو مجبوریاں اچھی نہیں لگتیں
فرحت عباس شاہ