پیدائش: 1918ء
وفات: 2003ء
نوابزادہ نصراللہ خان کا تعلق ملتانی پٹھانوں کی بابر شاخ سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد اٹھارویں صدی میں مظفر گڑھ کے علاقہ میں آباد ہوۓ تھے۔ مظفرگڑھ سے تقریبا بیس کلومیٹر دور خان گڑھ کے علاقہ میں نوابزادہ کا آبائی گھر اور زرعی زمین واقع ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ کے والد سیف اللہ کو انیس سو دس میں نواب کے خطاب سے نوازا اور گیارہ گاؤں الاٹ کیے تھے۔
نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوۓ حکومت سے تعاون کے بجاۓ اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا۔ انھو ں نے انیس و تینتیس میں طالب علم کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجاۓ مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔ احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلاء تھا۔
قیام پاکستان کے بعد نصراللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحرک ہوۓ اور انھوں نے انیس سو اکیاون کے صوبائی انتخابات میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم جب مسلم لیگ حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو نصراللہ خان نے ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے مستعفی ہوگۓ۔
نصراللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم عناصر رہے۔ انھوں نے ممتاز دولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیر نوبہار شاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور بعد میں انیس سو ترپن میں ختم نبوت تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے پاکستان میں پہلی بار فوج کو استعمال کیا گیا۔
انیس سو چھپن میں پاکستان کا پہلا دستور بنا تو نصراللہ خان اس کو بنانے والی دستور ساز اسمبلی کا حصہ تو نہیں تھے لیکن اس کے تحفظ کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ جنرل ایوب خان نے انیس سو اٹھاون میں فوجی راج قائم کیا تو نصراللہ خان کی سیاست کا سب سے سرگرم دور شروع ہوا۔ وہ اس وقت تک عوامی لیگ میں شامل ہوچکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے۔
نصراللہ خان انیس سو باسٹھ کے بالواسطہ انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوۓ اور ان کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کا اتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) وجود میں آیا۔ وہ اس اتحاد کے کنوینر تھے اور ایوب خان کے بالواسطہ انتخاباتی نظام کے خلاف انیس چھپن کے آئین کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخاب میں میں نصراللہ خان نے بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا۔ گو فاطمہ جناح ایک متنازعہ انتخابات میں ہار گئیں اور نصراللہ خان کو بھی قومی اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے جمہوری تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔
نصراللہ خان نے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کرنے کے بعد عوامی لیگ کا الگ دھڑا قائم کرلیا تھا لیکن ایوب خان کے فوجی راج کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد میں جمع کرلیا جس کی عوامی مہم کے دباؤ میں ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے گول میز کانفرنس منعقد کی۔
نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا جو کام شروع کیا وہ مرتے دم تک ان کی پہچان بن گیا اور وہ متضاد سیاسی جماعتوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کے ماہر بن گۓ۔ انھوں نے انھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حزب مخالف کی سیاست کی جن کی حکومتوں کوگرانے کا وہ باعث رہے۔ ان کے حامی انھیں باباۓ جمہوریت کہتے تھے اور ان کے مخالفین کہتے تھے کہ وہ جمہوریت کے دور میں مارشل لگوانے کے لیے اور مارشل لا کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیےکام کرتے ہیں۔
انیس سو ستر کے انتخابات میں نصراللہ خان نے غلام مصطفے کھر کے ہاتھوں دو حلقوں میں شکست کھائی لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی انھو ں نے پیر پگاڑا کی سربراہی میں حزب مخالف کو متحد کرلیا اور انیس سو ستتر کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے سامنے نو جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دے دیا۔
قومی اتحاد کی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزام کے خلاف تحریک کا نتیجہ جنرل ضیا کے مارشل لاء کی صورت میں نکلا تو چند سال بعد ہی نصراللہ خان نے پیپلز پارٹی کو اس کے زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھا کر ضیاالحق حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھ دی جس نے جنرل ضیا الحق کے خلاف انیس سو تراسی میں زبردست احتجاجی تحریک چلا کر فوجی رہنما کو ریفرنڈم کرانے اور انیس سو پچاسی کے انتخابات کرانے پر مجبور کردیا۔
نصراللہ خان کی اتحادی سیاست جنرل ضیا کی موت کے بعد شروع ہونے والے جمہوری ادوار میں بھی چلتی رہی۔ انھوں نے پہلے بے نطیر بھٹو کی انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو گرانے کے لیے کمبائنڈ اپوزیشن یا کوپ کے نام سے حزب مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور جب بے نظیر کی حکومت کو صدر اسحاق خان نے رخصت کردیا تو انیس سو نوے کے انتخابات کے بعد بننے والی نوازشریف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی سے مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھ دی۔
بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت واحد حکومت تھی جس میں نصراللہ خان نے حکومت میں شمولیت کی اور حزب اختلاف سے دور رہے۔ وہ اس دور میں قومی کشمیر کمیٹی کے چئیرمن بنے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے رخصت کیا تو نصراللہ خان ایک بار پھر نۓ انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف حکومت کے خلاف سرگرم ہوگۓ۔
بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نصراللہ خان کا بڑا کارنامہ دو دائمی حریفوں بے نظیر بھٹو او نواز شریف کو بحالی جموریت کی تحریک (اے آر ڈی) میں اکٹھا کرنا تھا۔
نصراللہ خان نے اپنے لیے حزب اختلاف کے رہنما کا کردار چنا اور پچاس سال سے زیادہ اسے بڑی خوبی سے نبھایا۔ وہ بہت شائستہ اور فصیح گفتگو کرتے تھے۔ ان کی آواز بھاری اور دل آویز تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں جا بجا بر محل شعروں کا استعمال کرتے اور ان کے منہ سے اپنے بدترن مخالفین کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی۔
نصراللۃ خان لاہو رمیں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کراۓ کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹےسے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کے لیے آتے۔
اپنے پچپن سال کے سیاسی کیریر میں نصراللہ خان عوام کے مقبول رہنما تو شاید نہیں بن سکے لیکن وہ رہنماؤں کے رہنما تھے۔ ہر وہ حکمران جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا ، اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔
شخصیت
ہمیشہ صاف ستھری چمکتی ہوئی سفید شلوار قمیض میں ملبوس نصراللہ خان ایک دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا دستر خوان وسیع تھا اور کھانے کے وقت ہر مہمان ان کے ساتھ ان کے کمرے میں ان کے ساتھ کھانا تناول کرتا تھا۔ ٹیلی وژن پر کرکٹ میچ دیکھنا، خبریں سننا اور اخبارات پڑھنا ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور آخری وقت میں اپنی سیاسی یاداشتیں لکھ رہے تھے ۔
وکی پیڈیا سے انتخاب
وفات: 2003ء
نوابزادہ نصراللہ خان کا تعلق ملتانی پٹھانوں کی بابر شاخ سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد اٹھارویں صدی میں مظفر گڑھ کے علاقہ میں آباد ہوۓ تھے۔ مظفرگڑھ سے تقریبا بیس کلومیٹر دور خان گڑھ کے علاقہ میں نوابزادہ کا آبائی گھر اور زرعی زمین واقع ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ کے والد سیف اللہ کو انیس سو دس میں نواب کے خطاب سے نوازا اور گیارہ گاؤں الاٹ کیے تھے۔
نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوۓ حکومت سے تعاون کے بجاۓ اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا۔ انھو ں نے انیس و تینتیس میں طالب علم کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجاۓ مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔ احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلاء تھا۔
قیام پاکستان کے بعد نصراللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحرک ہوۓ اور انھوں نے انیس سو اکیاون کے صوبائی انتخابات میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم جب مسلم لیگ حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو نصراللہ خان نے ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے مستعفی ہوگۓ۔
نصراللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم عناصر رہے۔ انھوں نے ممتاز دولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیر نوبہار شاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور بعد میں انیس سو ترپن میں ختم نبوت تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے پاکستان میں پہلی بار فوج کو استعمال کیا گیا۔
انیس سو چھپن میں پاکستان کا پہلا دستور بنا تو نصراللہ خان اس کو بنانے والی دستور ساز اسمبلی کا حصہ تو نہیں تھے لیکن اس کے تحفظ کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ جنرل ایوب خان نے انیس سو اٹھاون میں فوجی راج قائم کیا تو نصراللہ خان کی سیاست کا سب سے سرگرم دور شروع ہوا۔ وہ اس وقت تک عوامی لیگ میں شامل ہوچکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے۔
نصراللہ خان انیس سو باسٹھ کے بالواسطہ انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوۓ اور ان کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کا اتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) وجود میں آیا۔ وہ اس اتحاد کے کنوینر تھے اور ایوب خان کے بالواسطہ انتخاباتی نظام کے خلاف انیس چھپن کے آئین کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخاب میں میں نصراللہ خان نے بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا۔ گو فاطمہ جناح ایک متنازعہ انتخابات میں ہار گئیں اور نصراللہ خان کو بھی قومی اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے جمہوری تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔
نصراللہ خان نے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کرنے کے بعد عوامی لیگ کا الگ دھڑا قائم کرلیا تھا لیکن ایوب خان کے فوجی راج کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد میں جمع کرلیا جس کی عوامی مہم کے دباؤ میں ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے گول میز کانفرنس منعقد کی۔
نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا جو کام شروع کیا وہ مرتے دم تک ان کی پہچان بن گیا اور وہ متضاد سیاسی جماعتوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کے ماہر بن گۓ۔ انھوں نے انھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حزب مخالف کی سیاست کی جن کی حکومتوں کوگرانے کا وہ باعث رہے۔ ان کے حامی انھیں باباۓ جمہوریت کہتے تھے اور ان کے مخالفین کہتے تھے کہ وہ جمہوریت کے دور میں مارشل لگوانے کے لیے اور مارشل لا کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیےکام کرتے ہیں۔
انیس سو ستر کے انتخابات میں نصراللہ خان نے غلام مصطفے کھر کے ہاتھوں دو حلقوں میں شکست کھائی لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی انھو ں نے پیر پگاڑا کی سربراہی میں حزب مخالف کو متحد کرلیا اور انیس سو ستتر کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے سامنے نو جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دے دیا۔
قومی اتحاد کی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزام کے خلاف تحریک کا نتیجہ جنرل ضیا کے مارشل لاء کی صورت میں نکلا تو چند سال بعد ہی نصراللہ خان نے پیپلز پارٹی کو اس کے زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھا کر ضیاالحق حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھ دی جس نے جنرل ضیا الحق کے خلاف انیس سو تراسی میں زبردست احتجاجی تحریک چلا کر فوجی رہنما کو ریفرنڈم کرانے اور انیس سو پچاسی کے انتخابات کرانے پر مجبور کردیا۔
نصراللہ خان کی اتحادی سیاست جنرل ضیا کی موت کے بعد شروع ہونے والے جمہوری ادوار میں بھی چلتی رہی۔ انھوں نے پہلے بے نطیر بھٹو کی انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو گرانے کے لیے کمبائنڈ اپوزیشن یا کوپ کے نام سے حزب مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور جب بے نظیر کی حکومت کو صدر اسحاق خان نے رخصت کردیا تو انیس سو نوے کے انتخابات کے بعد بننے والی نوازشریف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی سے مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھ دی۔
بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت واحد حکومت تھی جس میں نصراللہ خان نے حکومت میں شمولیت کی اور حزب اختلاف سے دور رہے۔ وہ اس دور میں قومی کشمیر کمیٹی کے چئیرمن بنے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے رخصت کیا تو نصراللہ خان ایک بار پھر نۓ انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف حکومت کے خلاف سرگرم ہوگۓ۔
بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نصراللہ خان کا بڑا کارنامہ دو دائمی حریفوں بے نظیر بھٹو او نواز شریف کو بحالی جموریت کی تحریک (اے آر ڈی) میں اکٹھا کرنا تھا۔
نصراللہ خان نے اپنے لیے حزب اختلاف کے رہنما کا کردار چنا اور پچاس سال سے زیادہ اسے بڑی خوبی سے نبھایا۔ وہ بہت شائستہ اور فصیح گفتگو کرتے تھے۔ ان کی آواز بھاری اور دل آویز تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں جا بجا بر محل شعروں کا استعمال کرتے اور ان کے منہ سے اپنے بدترن مخالفین کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی۔
نصراللۃ خان لاہو رمیں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کراۓ کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹےسے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کے لیے آتے۔
اپنے پچپن سال کے سیاسی کیریر میں نصراللہ خان عوام کے مقبول رہنما تو شاید نہیں بن سکے لیکن وہ رہنماؤں کے رہنما تھے۔ ہر وہ حکمران جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا ، اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔
شخصیت
ہمیشہ صاف ستھری چمکتی ہوئی سفید شلوار قمیض میں ملبوس نصراللہ خان ایک دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا دستر خوان وسیع تھا اور کھانے کے وقت ہر مہمان ان کے ساتھ ان کے کمرے میں ان کے ساتھ کھانا تناول کرتا تھا۔ ٹیلی وژن پر کرکٹ میچ دیکھنا، خبریں سننا اور اخبارات پڑھنا ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور آخری وقت میں اپنی سیاسی یاداشتیں لکھ رہے تھے ۔
وکی پیڈیا سے انتخاب