Walid E Mohtram !

  • Work-from-home

illusionist

Active Member
Apr 17, 2013
224
453
213
illusion loves kites ..............
والد محترم

اگر آپ نے ابھی تک کسی ایسے آدمی سے ملاقات نہ کی ھو جو ھجوم میں بھی انفرادیت قائم رکھتا ہو تو آپ میرے والد سے ضرور ملیے ۔

میں جب کبھی اپنے والد کی تصویر کھینچنے کی کوشش کرتا ہوں کہیں سے بھی خود میں ان کی جھلک نظر نہیں آتی ۔ خیر یہ تصویر کسی دوسرے آدمی کی بھی ہوسکتی ہے مگر میرے والد کی شخصیت کی خاص نشانی ان کے ہاتھوں میں صدا چلتی ھوئی تسبیح یہاں تک کہ جب محو نیند ہوتے ہیں تسبیح مٹھی میں جکڑ کے سوتے ہیں ۔

جس شخص نے جوانی میں لمبے پائینچوں کی پینٹ زیب تن کی ہو ۔ آنکھوں پر ربن کا چشمہ لگا رہتا ھو اور زلفوں کا انداز اداکار ندیم جیسا رکھا ہو صرف اس وجہ سے نہیں کہ ماڈرن ہوں بلکہ حیرت ناک طور پر اچانک دیکھنے پر پہلا شبہ یھی جائے کہ سامنے ندیم صاحب ھی کھڑے ہیں ۔ یہ سب اپنی آنکھوں سے اپنے ھوش میں تو نہیں دیکھا مگر یہ سب مجھے اپنے والد کی جوانی کی تصویروں میں نظر آیا ۔

ویسے تو شخصیت کو ناپنے کا آلہ آج تک ایجاد نہیں ھوا مگر اتفاق سے میرے والد کی طرح دار شخصیت کچھ ایسی ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں کوئی بھی آدمی ان کا گرویدہ ھوجاتا ہے اور میں خود بھی اپنے والد کی شخصیت کے سحر سے کبھی نہیں نکل سکا ھوں

چھوٹے اچھے سے حجامت کئے ہوئے آدھے پکے ھوئے بال ، سفید چھوٹی داڑھی ، گنتی کے چار شلوار قمیض کے جوڑے اور ہاتھ میں ھر دم چلتی ہوئی تسبیح بس یہی میرے والد کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی ہیں ۔

ذندگی کے عذاب کو ہنستے مسکراتے جھیلنے والوں کی فہرست میں میرے والد کا نام بھی شامل ہے ۔ تہی دامن ھوں تو مسکراھٹ ، جیب بھاری ھو تو جلدی سے چھٹکارا پا لیتے ہیں ، کہتے ہیں نہ رھے بانس نہ بجے بانسری ۔


یوں سمجھیے کہ سادگی ، شرافت ، وضع داری ، ھیر پھیر سے پاک ، دوست نوازی اور نیک نفسی میرے والد کی شخصیت کا خلاصہ ہیں ۔ میں نے انہیں ھمیشہ اپنوں کے ہاتھوں لٹتے ہوے ھی دیکھا ھے اور جواب میں اگر غمگین ہوں تو دبیز خاموشی وگرنہ صرف ایک مسکراھٹ یعنی ان کی عدالت کا حق مارنے والوں کے لیے فیصلہ عام معافی کی صورت میں ہی ہے ۔

سمجھ قاصر ہے کہ میں کیا خاکہ پیش کروں میرے والد کی زندگی پر اچھی خاصی ڈاکیومینٹری بن سکتی ہے ۔ میرے والد کی شخصیت کئی نقابوں میں لپٹی ہوئی نہیں ہے کہ ایک چہرے پر سو چہروں کا گمان ھو یا ڈھونڈنے پر ایک سرا کہیں تو دوسرا
سرا دور کہیں مطلب شخصیت کی ڈور بظاہر ھم تھامے ہوں اور سرا کسی اور کے ہاتھوں میں ھو ۔

الله زل شانی کی سب سے بڑی نعمت ماں باپ، میں نہیں سمجھتا کہ ان کی ذات پر لکھی گئی تحریر کسی مقابلے کی محتاج ہے ۔
ماں باپ کسی بھی صورت میں ہوں ایک سایہ دار درخت کی طرح ھوتے ہیں ۔

میرے والدین کی زندگی جدوجہد کی ایک ایسی مثال ہے کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں اپنی پوری عمر بھی ان کی خدمت میں خرچ کردوں تو شاید ایک رات کی خدمت کا بدلہ بھی نہ ہوگا۔

میرے والدین ایک ھی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں میرے والد جن کے چار بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ میرے دادا تقسیم ھند کے کافی بعد پاکستان آئے اور یھاں آکر محنت مزدوری شروع کی ۔

ابتدا میں میرے دادا دادی ایک چھوٹی سی جھگی نما گھر میں رھتے تھے جو کے انڈیا کی زمینوں کے کلیم سے پہلے سرکار نے الاٹ کیا تھا بعد میں ان علاقوں میں آگ لگنے کے باعث میرا ددھیال کراچی کے مضافاتی علاقے میں شفٹ ھوگیا ۔

میرے اباواجداد کافی رئیس ھوا کرتے تھے اور آج بھی جو رشتہ دار انڈیا میں موجود ہیں وھاں کے بڑے ذمین داروں میں شمار ھوتے ہیں

میرے بڑے بھائی کے انتقال کے کوئی دو سال بعد سن ١٩٨٠ کی دسمبر کی ایک سرد ترین رات کو ٹھیک بارہ بجے میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی اور سب سے پھلے آذان کی آواز جو میرے کانوں نے سنی تو ماں کے وجود کے احساس کے بعد باپ کے
وجود کا بھی احساس ھوگیا ۔

میں فطرتن غصہ کا بہت تیز ہوں اور والد صاحب نے متعدد بار {گاندھی جی کے بقول کوئی ایک تھپڑ مارے دوسرا گال آگے کردو} بس یہی نصحیت کی ۔ اگر کوئی میرے والد کو دریا میں پھینک دے تو یقینا وہ خشکی والوں سے سب سے پہلے یہی کہیں گے جناب آپ لوگ ٹھیک ہیں ۔


ایک ایسا آدمی جس نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں وسائل نہ ھونے کے برابر تھے لیکن باوجود اس کےمیرے والد نے نہ صرف اسٹریٹ لائٹ کے نیچے بیٹھ کر پڑھا بلکہ اپنے باقی بہن بھائیوں کے لیے جنتے وسائل جمع کرسکتے تھے کیے ۔


کبھی کبھی میں اپنے والدین کے چہروں کو دیکھتا ہوں تو جی چاھتا ھے کہ بس وقت تھم جائے ایک لمحہ آگے نہ بڑھے یہ محبت کے عظیم دیوتا جنھوں نے اپنی تمام عمر ھم چار بھن بھائیوں کی تربیت میں لگادی میں انھیں کبھی بھی کھونا نہیں چاھتا ۔ میرے والد ایک محنت کش ہیں اور میری والدہ ایک سادہ سی گھریلو خاتون ہیں جو کہ گھر کی بڑی بہو ھونے کی وجہ سے آج بھی خاندان کے سبھی مثائل کی درستگی کے لیے ایک ٹانگ پر کھڑی رھتی ہیں ۔ میرے والد کی شخصیت کا خاص پہلو یہ ہے کہ .
انھوں نے کبھی کسی سے اپنا حق تک نہیں مانگا اور نہ ہی کسی سے آج تک کوئی جھگڑا کیا

نوجوانی سے ہی میرے والد مذہب سے نہایت قریب رہے ہیں وہ جہاں کام کرتے تھے وہاں میرے باقی چچا بھی کام کرتے ہیں اور پاپا کے ساتھ کام کرنے والوں کا یہی کہنا ھے کہ آپ کے والد بہت نیک شریف اور تمام بھائیوں میں بلکل الگ ہیں ۔ چونکہ وہ سب سے بڑے ہیں تو ان کی گردن میں میں نے ھمیشہ ایک جھکاو دیکھا بہن بھائیوں کے روشن مستقبل کے لیے میرے والد نے این ای ڈی میں ایڈمیشن مل جانے کے باوجود گھر کی بہتری کے لیے نوکری کو ترجیح دی وہ خود تو انجینیر نہ بن سکے مگر ان کا خواب تھا کہ ان کے دونوں بیٹوں میں سے کوئی ایک انجینیر ضرور بنے ۔ میں اتنا پڑھ لکھ جانے کے باوجود یہ خواب نہ پورا کرسکا ہوں گو کہ میں ایک پروفیشنل کمپیوٹر اشپیشلیسٹ ھوں مگر مجھے یہ احساس ہے کہ میں وہ نہ کرسکا جو میرے والد کی خواہش تھی ۔ البتہ میرے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کرنے والے میرے تینوں بھائی بہن جو کہ ماشاالله آج مکمل ڈاکٹر بن چکے ہیں میرے لیے کم از کم اس سکون کا باعث ہیں کہ جو میں نہ کرسکا وہ ان تینوں نے تمام کیا ۔

والدین کی سوانح عمری لکھنا کچھ آسان نہیں میرے ذہن میں بے شمار الفاظ ہیں ، دل آسودہ ھوا جارھا ہے آنکھیں نم اور حلق خشک ۔ یہ تحریر لکھتے ھوئے ایک گلاس پانی کا ساتھ ھی رکھا ھے اور رہ رہ کر بچپن سے لے کر اب تک کے سبھی واقعات
فلم کی طرح میرے ذہن میں چل رھے ہیں ۔

میرے والد کو چائے سے زیادہ چائے خانوں سے انسیت ہے اور مجھے بھی یہ عادت انھوں نے ہی ڈالی ہے وہ اب بھی نماذ کے وقفوں میں کسی چائے خانے سے ھی برآمد ھوتے ہیں ۔ والد محترم بڑے کھلے ہاتھ کے مالک ہیں
کیونکہ میں نے آج تک ان کو کسی بھی دکاندار سے رقم پر تبصرہ کرتے نہیں دیکھا اور نہ ھی سامان کی جانچ کرتے پائے گئے بس سودا لیا اور طلب کی گئی رقم ادا کی سامان لیا اور چل دیے ۔

اپنے والد کو میں نے کبھی روتے نھیں دیکھا سوائے دادا محترم , پھوپی جان اور دادی کے جنازے میں ان کی آنکھوں میں کئی آنسو دیکھے ۔ عجیب سی بات ھے مگر مجھے اپنے والد سے بہت انسیت ہے ۔ بچپن میں جب میں بری طرح جل گیا تھا تو ڈاکٹر مجھے نیند کی گولیاں دیتے تھے مگر وہ مجھ پر اثر نہیں کرتی تھیں البتہ جب ابو ساتھ ھوتے تھے تو میں مزے سے سوجاتا تھا ۔ والدہ تربیت کے معاملے میں کافی سے ذیادہ سخت ھیں آج بھی ھم والدہ کے آگے کچھ کہتے ھوئے کئی بار سوچتے ہیں ۔

میرے جلنے کا واقعہ بھی کچھ اس طرح ھے کہ حساب کے ایک سوال کا درست جواب خود سے آجانے کی وجہ سے میں اتنا خوش ھوا کہ سپرمین کی اسپیڈ سے ابو جان کو بتانے دوڑا ابو تک کیا پھنچتا بیچ میں امی سے ٹکراگیا اور ابلتا ھوا دودھ جو امی کمرے میں لا رھی تھیں سب میرے اوپر گرگیا ۔ ھم بہن بھائیوں اور امی ابو نے تقریبا پندرہ سال ایک کمرے میں گزارے ، کمبائینڈ فیملیز جہاں ایک بڑا کنبہ ساتھ رھتا ھو کچھ اسی طرح طرز زندگی ھوتی ہے جہاں گھر کا سربراہ کوئی ایک بڑا ھوتا ھے جیسے کہ پھلے میرے دادا پھر دادی جان۔




کوئی انتہا کا شرارتی ، باتونی ، پڑھاکو اور ایڈونچر پسند بچا میں ھوا کرتا تھا اور میں نے کبھی اپنے ماں باپ کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا اور آج بھی اپنی سیاسی اور سماجی وابستگیوں کی وجہ سے اور خاص کر مختلف جھنجھٹوں میں آ بیل مجھے مار کے مصداق میری عادتوں کی وجہ سے میرے والدین میری طرف سے پریشان اور مجھ سے نالاں رھتے ہیں یہ بھی محبت کا والدین کا اپنا طریقہ ہے ۔

ھم روایتیں ختم نہیں ھونے دیتے جیسا کہ جو دادا کیا کرتے تھے وہ پاپا کرتے چلے آرھے ہیں اور اسی طرح مجھے بھی کرنا ھونگے ، چاھے چھوٹے صلہ نہ دیں ھم نے ان کا خیال ھمیشہ رکھنا ھے ۔ جن دکانوں سے گھر میں چیزیں آتی ہیں انھیں بغیر کسی وجہ کے نہیں بدلنا ہے کیونکہ بقول میرے والد سب کا رزق سب سے بندھا ھوتا ھے ۔ ساری زندگی سادگی سے گزار دی اور آگے بھی ھم بچوں سے کوئی خواھش نہیں کی ۔


. میرے والد کی زندگی میں حادثوں کا بڑا دخل رھا ھے
میرے والد کی زندگی آذما ئشوں سے بھری
پڑی ہے ، جب میں پانچوٰیں جماعت میں تھا تو پاپا کا ذبردست روڈ ایکسیڈنٹ ھوا تھا مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ میں روزانہ صبح اٹھ کر دعا کرتا تھا کہ یا الله میرے ابو صحیح سلامت آفس جائیں اور صحیح سلامت واپس آجائیں ۔ آمین ۔ اتفاق کی بات ھے کچھ دنوں سے میں دعا نہیں کررھا تھا اور ایک دن ابو کے آفس جانے کے کچھ ھی گھنٹوں کے بعد چھوٹے چچا گھر آئے اور بتایا بھائی کا ایکسیڈنٹ ھوا ھے ۔ میرے والد کی دونوں ٹانگیں بری طرح متاثر ھوئیں ایک گھٹنا ایسا ٹوٹا کہ ٧ ڈے ھسپٹال کے سرجن کا کہنا تھا کہ لگ رھے ھے شیشہ پیس دیا گیا ہے ۔ لیڈی برڈ ایک مشھور اسکول ہے اور اس ھی کی ویگن نے پاپا کو ھٹ کیا تھا ۔ چچا نے ھمیں بتلایا کہ بھائی نے اس ڈرائیور کو معا ف کردیا تھا ۔ بعد میں ابو نے یہ بتایا کہ وہ غریب آدمی تھا اور اس کا احسان ھے کہ ذمہ داری سے مجھے وقت پر ھسپتال بھی پھنچایا اور کمپنی بھی اطلاع دی ورنہ میں سڑک پر ھی پڑا رھتا ۔ وہ دن میری ماں اور باپ دونوں کے لیے کٹھن دن تھے ھم چھوٹے بچوں کا ساتھ ٩٢ کا آپریشن والا دور ابو کا ھسپتال میں ھونا ۔ اسکول کی فیسیس ۔ کم پیسوں کے باعث اسکول بس روکنی پڑی اور امی خود ھمیں اسکول سے لانے اور لے جانے لگیں ۔ میں عادتن وھی ھر چیز سے لاپرواہ اپنی خر مستیوں میں لگا رھتا ۔ بھت پریشان رکھا میں نے ان دنوں آج سوچتا ھوں تو بھت احساس ھوتا ھے ۔ کوئی ایک سال بعد والد چلنے کے قابل ھوئے تو ڈاکٹر کو کھا کہ گھر بے ساکھیوں پر نھیں جاوں گا اپنے بچوں کے سامنے اپنے قدموں پر جانا ھے اور یوں مزید ٦ ماہ اور ھسپتال میں زیر علاج رھے ۔
وہ وقت یاد آتا ھے تو دل کٹ سا جاتا ھے صحیح معنوں میں اس وقت اپنے اور پرائے کا معلوم ھوا ۔
مصائب کے آگے میرے والدین ھمیشہ سیسہ پلائی ھوئی دیوار بنے رھے ہیں ۔ پھر ابو کی واپسی پر آھستہ آھستہ سب کچھ نارمل ھوتا گیا ۔ مجھے صحیح معنوں میں اپنے والد کی محنت کا اندازہ اس وقت ھوا جب میں ابو کی فیکٹری میں اپرینٹس کے طور پر لگایا گیا ایسا کبھی نہ ھوتا مگر میری غیر ضروری آوارہ گردی کی وجہ سے مجھے تین سال کی مشقت آمیز سزا سنائی گئی سب کا یہی کھنا تھا کہ آگے اپنی زندگی اب تم نے خود دیکھنی ہے پڑھ لو یا پھر گدھا
مزدوری کرو ۔ اور صحیح معنوں میں مجھے ان تین سالوں میں معلوم ھوا کہ زندگی دراصل ھوتی کیا ہے ۔



اپنے والد کو اپنی آنکھوں کے سامنے بڑی بڑی مشینوں سے لڑتے ھوئے دیکھا ۔ اتنا آسان نہیں ھوتا بیان کرنا وہ سب جو آپ دیکھنے پر کبھی مجبور ھوں

میرے والد کے پاوں میں ایک چکر سا ہے گھر میں بہت کم پائے جاتے ہیں فجر سے عشا تک انھیں ڈھونڈنا کچھ آسان کام نہیں اور اس وجہ سے والدہ کافی نالاں رہتی ہیں ۔ ویسے بڑے وضع دار آدمی ہیں احباب کی خاطر تواضع میں اس طرح آگے رہتے ہیں جیسے قدرت نے انہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا ھو۔ ان کے دوست ان کے پاس آتے ھی اس لیے ہیں کہ ایک عدد چائے مفت میں ملنی ضرور ہے اور ان مفت خوروں کے لیے میرے والد موزوں ترین انسان ہیں ۔

وہ کبھی دوستوں کو گھر نہیں بلاتے لیکن ان کے دوست جانتے ہیں وہ کہاں مل سکتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہیں اور اپنے زمہ جتنا کام سمجھتے ہیں سب ھی کر چکے ہیں ۔ میرے نزدیک وہ ایک کامیاب انسان ہیں ۔


میں نے یہ تحریر کسی انعام کی نیت سے نہیں لکھی مگر میری خواھش تھی کہ میں اپنے والدین کی زندگی کے گوشوں پر کچھ لکھ سکوں اور لوگوں کو معلوم ھو کہ میرے والدین نے ھماری پرورش کتنی محنت سے کی ھے ۔

شکریہ خاص طور پر روبی کا ۔۔ اور اس فورم کا کہ مجھ کو یہ موقع فراھم کیا ۔


میرے لیے میرا سب سے بڑا تحفہ میرے والدین ہیں ۔ میری زندگی میں کئی تغیراتی تبدیلیاں آئیں میں شروع میں کافی خودسر اور ھڈ دھرم تھا پھر آوارہ گردیاں سیاست میں ماں کی ںصحیتوں کے باجود شراکت اور پھر اچانک سے گھر کی زمہ داریوں میں دلچسپی لینا میں ابھی بھی ضدی طبیعت رکھتا ھوں اور والد سے نوک جھونک ھوجاتی ھے اور پھر انھیں منانا بہت مشکل ھوتا ھے اور وہ جب تک نہیں مانتے میرا کوی کام سیدھا نہیں ھوتا ۔ مجھے اپنے ماں اور باپ دنیا کی ھر آسائش سے زیادہ عزیز ہیں میں نے مکمل طور پر اپنی زندگی کی لگام ان کے ہاتھوں میں دے دی ہے یھاں تک کے میرے کپڑے میرے والد کی پسند کے ھوتے ہیں اور میں ہر صورت بہت مطمئن اور خوش ھوں ۔ بس اتنا ھی


لکھنا ہے کہ یہ وہ دولت ہے جو ایک بار چلی گئی تو گویا دنیا کی کسی آشائش میں وہ سکون نہیں ملنا جو اس شجر سے ملتا ہے ۔ جن کے پاس یہ دولت ھے وہ خوش قسمت ترین لوگ ہیں میری طرح ۔

کمال لوگ ہیں , عجیب لوگ ہیں یہ والدین اعلی ضرف صابر سمجھدار سوچ اور سمجھ سے بالاتر ۔ آج کل ابو گھر پر ھوتے ہیں ان کی ریٹائرمنٹ ھوگئی ہے اس وقت امی اپنے ابھی تک کے اکلوتے نواسے کو کھلا رھی ھونگی ۔ ابو مسجد میں ھونگے باقی بہن اور بھائی دونوں ھسپتال ڈیوٹیز پر ۔ واپسی پر ھمیشہ ابو کو میں گیلری میں کھڑا ھم لوگوں کا انتظار کرتے ھوئے ھی دیکھتا ھوں حالات کی وجہ سے جب تک ھم سب گھر نہیں آجاتے وہ بے چین رھتے ہیں ۔ ابھی بھی میں کوئی پریشانی یا خوف محسوس کرتا ھوں تو بس والد صاحب کو ڈھونڈتا ھوں میری اب ھر چیز ان کے بغیر نہ مکمل ھے ۔ الله انھیں ھم سب بہن بھائیوں کے سر پر سلامت رکھے اور ان کو صحت اور تندرستی اور ھمیں ان کا فرمانبردار بننے کی توفیق دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 

fareena_01

Super Star
Mar 11, 2013
7,011
2,255
263
Karachi
bht khobsurat tehrer hai tm members zaroor parhain aur coments dain @Iceage-TM aap tag kar dain ye new hain tm p lekin he is a very nice writer n poet to plz aap members ko tag karain ta k woh in ki tehrer parh sakain
 
  • Like
Reactions: illusionist
Top