جزاک اللہ
میں یہاں کچھ مزید شامل کرنا چاہونگا
ہرسوال کا جواب دیا جاتا ہے مگر جو سوال شک کے لیے کیا جائے یا اٹکلیں نکالنے کے لیے تفریح کے لیے
`سوالات کی مختلف اقسام ہیں کبھی انکار کے لیے جیسے "پس کیا نافرمانوں کے علاوہ بھی کسی کو ہلاک کیا جائے گا" (الاحقاف:35) کبھی استرشاد یعنی راہنمائی طلب کرنے کے لیے جیسے "کیا تو زمین میں اسے مقرر کرتا ہے جو ان میں فساد برپا کرے گا" (البقرہ:30) کبھی نہی یعنی کسی کام سے روکنے کے لیے جیسے "تجھے اپنے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں رکھا" (الانفطار:6) کبھی تنبیہ کرنے کے لیے جیسے "کیا آپ نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا، سایہ کو کیسے پھیلاتا ہے" (الفرقان:45) کبھی تعجب کے لیے جیسے"کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو" (البقرہ:44) کبھی ترغیب کے لیے جیسے " کیا میں تمہیں ایسی تجارت پر آگاہ کروں جو تمہیں بچا لے" (الصف:10) کبھی عتاب کے لیے جیسے "کیا ابھی اہل ایمان کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل یاد الہٰی کے لیے جھک جائیں" (الحدید:16) اسیطرح 18 اقسام بیان کی گئی ہیں
شک اور یقین دونوں اک جگہ جمع نہیں ہو سکتے جب شک ہو تو یقین نہیں رہتا اور جب یقین کامل ہو جائے تو شک زائل ہو جاتا ہے
اگر کوئی صرف اپنے قیاس کوہی حجت مانتا ہے تو وہ یقینا خوش فہمی میں ہے کیونکہ محض عقل سے ہی کوئی حکم واجب نہیں ہوتا مثلا عقل کہتی ہے کہ اللہ کی ذات ہوتی تو نظر آتی? ہمارے کندھوں پر فرشتے نہیں ہیں کیوں کے نظر نہیں آتے! چناچہ حکم کے واجب ہونے کے لیے سماعت (قرآن و حدیث و قول) ضروری ہے مثلا ہم غیب پر ایمان لائے کیونکہ ہمیں اللہ کے کلام اور حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر یقین ہے اس لیے ہمارے زبان اقرار کرتی ہے. جو لوگ بے دیکھے ایمان لاتے ہیں مؤمن انہیں کو کہتے ہیں اب اگر کوئی کہے قبر کا حال نبی پر منکشف کر دیا گیا اور ہم پر نہیں کیا گیا تو یہ نا انصافی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی عقل کے ساتھ انصاف کرے جو اپنی شناخت کے لیے اللہ کی محتاج ہے ہم عقل کو حجت تب مانتے ہیں جب وہ قرآن و سنت کی اتباع کرے ایمان لے آئے جب آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی تو اپنی شناخت سے بھی محروم ہو جائے گی واللہ اعلم
[DOUBLEPOST=1344162269][/DOUBLEPOST]
تم کہتے ہو کہ میں اندھا یقین نہیں رکھتا توتم کسے دیکھتے ہو جو انصاف کرتا ہے? اگر اللہ و رسول کی ذات عادل نہیں تو کون عادل ہے?
اگر کوئی صرف اپنے قیاس کوہی حجت مانتا ہے تو وہ یقینا خوش فہمی میں ہے کیونکہ محض عقل سے ہی کوئی حکم واجب نہیں ہوتا مثلا عقل کہتی ہے کہ اللہ کی ذات ہوتی تو نظر آتی? ہمارے کندھوں پر فرشتے نہیں ہیں کیوں کے نظر نہیں آتے! چناچہ حکم کے واجب ہونے کے لیے سماعت (قرآن و حدیث و قول) ضروری ہے مثلا ہم غیب پر ایمان لائے کیونکہ ہمیں اللہ کے کلام اور حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر یقین ہے اس لیے ہماری زبان اقرار کرتی ہے. جو لوگ بے دیکھے ایمان لاتے ہیں مؤمن انہیں کو کہتے ہیں اب اگر کوئی کہے قبر کا حال نبی پر منکشف پر کر دیا گیا اور ہم پر نہیں کیا گیا تو یہ نا انصافی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی عقل کے ساتھ انصاف کرے جو اپنی شناخت کے لیے اللہ کی محتاج ہے ہم عقل کو حجت تب مانتے ہیں جب وہ قرآن و سنت کی اتباع کرے ایمان لے آئے جب آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی تو اپنی شناخت سے بھی محروم ہو جائے گی بے شک جب کامل یقین ہو تو شک زائل ہو جاتا ہے اور جب شک آ جائے تو یقین نہیں رہتا اور بے شک گمراہی کا راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ و رسول کی ذات و صفات پرخود کو قیاس کریں کیونکہ اللہ کی کوئی مثل ہے ہی نہیں اور مخلوق میں نبی پاک صلٰی اللہ علیہ وسلم کی بھی کوئی نظیر نہیں واللہ اعلم