عاشوراء کے ساتھ ۹ یا ۱۱/ محرم کا روزہ
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ”نبی اکرم ﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کاارادہ ظاہر فرمایا تھا“۔چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے ، ابن عباس اس حدیث کے راوی ہیں کہ
” جب رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! یہ تو ایسا دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم کرتے ہیں تو آپ ﷺنے یہ سن کر فرمایا کہ آئندہ سال ان شاء اللہ ہم دس محرم کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔اگلا سال آنے سے قبل آپ ﷺ وفات پاگئے“۔ (صحیح مسلم/ مشکوٰة: ص ۱۷۹)
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ
یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو۔
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود“ (السنن الکبری للبیہقی : ص۲۷۸/ ج۴) ”نو اور دس (دونوں کا) روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ “
اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ذکرکی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لئن بقيت لآمرن بصيام يوم قبله أو يوم بعد يوم عاشوراء“
” اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو میں یہ حکم ضرور دوں گا کہ دسویں محرم سے پہلے یا اس کے بعد (یعنی گیارہویں محرم) کا ایک روزہ (مزید) رکھو۔“
یہ روایت مسندحمیدی (۴۸۵) اور سنن کبریٰ از بیہقی (۴/۲۸۷) میں موجود ہے
ابن ہمام نے فرمایا کہ
”مستحب امر یہ ہے کہ دس تاریخ سے ایک دن پہلے روزہ رکھا جائے پس اگر صرف ایک روزہ رکھا تو مکروہ ہے۔ “
اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں
”رسول اللہ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم فرماتے ہیں مگر جب رمضان فرض ہوگیا تو فرماتے تھے جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے“۔(صحیح بخاری)
اور مسنداحمد کی ایک روایت میں ۱۱/ محرم کا ذکر بھی ملتا ہے یعنی ۹ محرم یا ۱۱/ محرم۔
[DOUBLEPOST=1353485982][/DOUBLEPOST]@Don @
RedRose64 @
Nelly @
hoorain @
Fa!th @
Rubi @
Detective @
Sabah @
masoom_se_chahat @
*Muskaan*[DOUBLEPOST=1353486433][/DOUBLEPOST]@ShyPrincess @cute bhoot @yoursks @Piyari @neevrap @Naughty Cat @S_ChiragH @Anokhi_Laadli @*SHOAIB* @Afshan49