(1)
باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔
ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔
فائدہ ! حضرت شاہ صاحب کے نزدیک مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔۔۔۔۔ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے
(2)
وثانیا قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ (عقد الجید ص ۳۳
تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ))
فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳)
3
۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ عقد الجید ص ۲۹
ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔
فائدہ: قرآن وحدیث سے دلیل مانگے بغیر مجتہد عالم کی تقلید صحابہ کے زمانے سے جاری ہے ۔
شاہ صاحب کے زمانے تک کسی صحابی ، تابعی ،امام اورمعتبر عالم نے تقلید سے نہیں روکا ۔(اور جہاں تقلید کی مذمت فرمائی گئی ہے وہ تقلید کی دوسری قسم ہے جو مقلدین کے نزدیک بھی مذموم یعنی قابل مذمت ہے)۔
لیکن قارئین کرام کے لئے قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ یہ وہی بات ہے جس ایک موقع پر عارف مقصود صاحب نے فرمائی۔۔۔۔ اور ایک مثال سے محترمہ پر واضح کیا کہ تقلید شخصی کا وجود صحابہ کرام کے زمانے میں بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن ان محترمہ نے عارف مقصود بھائی کی بات سمجھنے کے بجائے الٹا اُن پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگادیا ۔۔۔۔ اب کوئی ان محترمہ کو یہ پوچھے کہ ایک عدد فتوی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ پر بھی لگائیں ۔۔۔۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے بھی تقلید شخصی کی تائید میں صحابہ کرام کی مثال دی ہے ؟؟؟
(4)
شاہ صاحب ،امام بغوی رحمہ اللہ کا قول بطور تا ئید نقل فرماتے ہیں ۔
ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث ۔عقد الجید9
ترجمہ: اور اس شخص پر جو ان شرائط ( یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث (مسائل) میں جو اس کو پیش آئیں ۔
(5)
وفی ذالک (ای التقلید ) من المصالح مالا یخفی لا سیّما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدّا واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رای برایہ۔( حجۃ اللہ ص ۳۶۱ج ۱
ترجمہ: اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں ۔خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہو گئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہے اورہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر نے لگا ہے )
فائدہ: اماموں کے بعد لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں ۔
خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے لگے
اور اپنی رائے کو قرآن وحدیث سمجھنے لگ گئے ایسے لوگوں کی تقلید جائز نہیں ۔
(6)
وبعد المائتین ظھرت فیھم التّمذھب للمجتھدین باَعْیَانھم وَقَلَّ مَنْ کان لا یعتمد علیٰ مذھب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔۔۔۔انصاف مع ترجمہ کشاف ۵۹
ترجمہ:اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( یعنی تقلید شخصی ) کا رواج پیدا ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خا ص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں ( یعنی عموماََ تقلید شخصی کا رواج ہو گیا ) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا ۔)
(7)
وھذہ ا للمذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامّۃ او من یُّعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلیدھا الیٰ یومنا ھذا۔حجہ اللہ ص ۳۶۱ ج۱)
ترجمہ: اور یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے (اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجب گمراہی ہے
ملاحظہ فرمائیں قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہاں کچھ لوگ شاہ صاحب کی یک طرفہ عبارت کو لے کر جس تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔حضرت شاہ صاحب اسی تقلید کے متعلق اجماع امت فرماتے ہیں ؟؟؟؟
(8)
وبا لجملۃ فا التمذہب للمجتہدین سرّا الہمہ اللہ تعالی العلماء جمعہم علیہ من حیثُ یشعرون اولا یشعرون ۔ انصاف مع الکشاف ص۶۳
ترجمہ: الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) کے مذہب کی پابندی( یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علما ء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پر ان کو متفق کیا ہے ۔وہ تقلید کر نے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں) یعنی تقلید کی حکمت اور کوخوبی ان کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔
(9)
انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)
ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے
(10)
واسْتفدت منہ ثلاثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیلُ الیہ اشد میل فصارتْ ھذہ الاستفادۃُ من براھین الحق تعالی علی۔( فیوض الحرمین ص ۶۴)
ترجمہ: مجھے ایسی باتیں حاصل ہو ئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا ۔اور اس طرف قلبی میلان با لکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہانِ حق بن گیا ۔