جزاک اللہ سسٹر
سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے شاہ صاحب کی عبارت کا پورا ترجمہ پیش فرمایا۔۔۔۔ جس کے بعد الحمدللہ نہ صرف شاہ صاحب کی عبارت کا معمہ حل ہوگیا ہے ۔۔۔۔ بلکہ دوسری طرف آپ کی شاہ صاحب کے متعلق غلط فہمی بھی سمجھ آگئی ہے ۔۔۔۔ جبکہ تیسری طرف "تقلید" کے حوالے سے سمجھنے والے غیر جانبدار بھائیوں اور بہنوں کے متعدد اشکالات بھی حل ہوگئے ہیں ۔الحمدللہ۔
ترجمہ کے حوالے سے تو سب سے پہلی عرض یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم مترجم کون صاحب ہیں ۔۔۔۔ لیکن آپ ہی کی طرف سے پیش کردہ پہلے عربی عبارت اور بعد میں اردو ترجمہ کے صفحات کے بعد مترجم کی غلطی(جسے آپ سمجھ رہی تھی کہ ہم نے "الیٰ یومنا ھذا" کا جملہ از خود شامل کیا ہے)کہ اُس نے "الیٰ یومنا ھذا" کا ترجمہ حذف کردیا ہے ۔۔۔۔۔ جس کے بعد شاہ صاحب کی صحیح عبارت کا مفہوم یہ تھا کہ
"پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے (اور یہ اجماع ) آج تک باقی رہے "
امید ہے کہ آپ پہلی غلط فہمی تو یہ دور فرمالیں گی۔
اب جہاں تک یہ بات ہے کہ آپ کا سمجھنا ہے کہ
شاہ صاحب ائمہ اربعہ کے مذاہب کے مدون ہونے کو قدموں کے لعزش یا قلموں کی گمراہی فرمارہے ہیں
تو یہ آپ کی شدید غلط فہمی ہے
اول تو اس لئے کہ ہم نے شاہ صاحب کے کئی حوالاجات پیش کئے (جن کے اوریجنل صفحات بھی محسن بھائی نے پیش کردئیے ہیں جس کے بعد آپ ادھوری عبارت کا الزام نہیں لگاسکتیں)۔۔۔جن میں صراحت کے ساتھ ائمہ اربعہ کی تقلید کے حوالے سے اور خصوصا پاک و ہند میں احناف کی تقلید کے حوالے سے شاہ صاحب کا موقف روز روشن کی طرح عیاں ہے
جس کا ابھی تک آپ کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں
ثانیا ۔۔۔ اگر آپ کے پیش کردہ ترجمہ کو بھی لے لیا جائے تو یہاں بھی تھوڑا سا تدبر شاہ صاحب کے موقف کو آئینہ کی طرح صاف شفاف واضح کررہا ہے
جیسا کہ ترجمہ میں "تقلید کے رد" کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے ۔۔۔۔ اگر آپ توجہ سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ "تقلید کے رد اور بالخصوص ائمہ اربعہ کے تمام اقوال کو لینے کے خلاف" جو کچھ لکھا گیا ہے یا تقلید کے رد میں آیات مبارکہ پیش کی گئیں ہیں ۔۔۔۔ وہ شاہ صاحب کا موقف نہیں بلکہ شاہ صاحب ظاہری فرقہ سے تعلق رکھنے والے ابن حزم کی تقریر بیان کررہے ہیں (جو تقلید کے حرام ہونے کے قائل تھے)۔
اور شاہ صاحب تو ابن حزم کی غلطی کو واضح فرمارہے ہیں
یعنی جس مقام پر ابن حزم کی تقریر ختم ہوتی ہے (یعنی انتہی کے لفظ سے)۔۔۔۔ اس کے بعد شاہ صاحب اپنا موقف بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
یہ تقریر ابن حزم کی اُس شخص کے حق میں پوری ہوسکتی ہے
جس کو اجتہاد کا کچھ بھی مرتبہ حاصل ہو،
یا اُس شخص کے حق میں ہوسکتی ہے جس کو خوب صاف معلوم ہوسکے کہ
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فلاں امر کا حکم فرمایا ہے،
اور فلاں امر کو منع فرمایا ہے ،
اور یہ حکم آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا منسوخ نہیں ہے ،
اس کو یہ علم احادیث کے تتبع سے ہوا ہو ،
ہر مسئلہ میں مخالف اور موافق اقوال کی جانچ کی ہو ،
ان اقوال کا کوئی ناسخ اس نے نہ پایا ،
اُس نے متاخرین کی ایک جماعت کثیر کو متفق پایا ہو ،
اُس نے اُس کے مخالف کو دیکھا کہ حدیث کے مقابلہ میں قیاس یا استنباط وغیرہ کو پیش کرتا ہو ،
ایسی حالت میں حدیث کی مخالفت کا کوئی سبب نہیں ہوسکتا
جی محترمہ فرمائیے شاہ صاحب کے اس موقف میں اور ہمارے موقف میں کیا فرق ہے ؟؟؟
کیا ہم اتنے دنوں سے مختلف تھریڈ میں آپ لوگوں کو یہی چیز نہیں سمجھارہے کہ جب تک ایک مسلمان شرعی علوم پر مہارت نہیں حاصل کرلیتا ۔۔۔۔۔ وہ کیسے ائمہ کرام رحمہ اللہ کے قول کو رد یا قبول کرنے کی اہلیت رکھ سکتا ہے ؟؟؟
یا آپ لوگ بنا شرعی علوم پر مہارت حاصل کئے کیسے کسی پر مخالفت حدیث کا الزام لگاسکتےہیں ؟؟؟
اور غور کیجیے کہ ابن حزم ظاہری کے موقف میں اور آپ کے موقف میں کیا فرق ہے ؟؟؟
غور سے ابن حزم کے دلائل پڑھیے اور دیکھیں کیا یہ وہی دلائل نہیں ہیں جو آپ لوگ تقلید کے رد میں دیتےہیں ؟؟؟
تو میری بہن ۔۔۔۔۔دوسری چیز یہ سمجھ لیں کہ شاہ صاحب کا یہ کہنا کہ ("مناسب مقام یہ ہے کہ اُن مسائل پر لوگوں کو آگاہ کردیا جائے جن میں فہموں کو حیرت اور قدموں کو لعزش اور قلموں کو گمراہی ہوا کرتی ہے ") ائمہ اربعہ کے مذاہب مدون ہونے کی طرف اشارہ نہیں ۔۔۔۔ بلکہ ابن حزم ظاہری کی اُس تقریر کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔۔۔ جس کوآپ شاہ صاحب کا موقف سمجھ کر شاہ صاحب کو تقلید کا مخالف سمجھ رہی ہیں ۔۔۔۔ حالانکہ شاہ صاحب تو ابن حزم ظاہری کی تقریر کی تردید فرمارہے ہیں ۔
لہذامیری بہن کم از کم اس عبارت (جس کا آپ نے ترجمہ پیش کیا) سے تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کو اپنا ہمنوا نہ سمجھیں
بلکہ غور سے دوبارہ اپنا ہی پیش کردہ اردو ترجمہ پڑھیں ۔
تو معلوم ہوگا کہ شاہ صاحب ائمہ اربعہ کی تقلید کے مخالف ہیں یا موافق ہیں ؟؟؟
آپ فرماتی ہیں کہ شاہ صاحب کسی معین امام کی تقلید کے قائل نہ تھے
جبکہ ہم نے آپ کو دوبارہ شاہ صاحب کی ایک اور عبارت کی طرف نشادہی فرمائی۔۔۔ جس میں عام مسلمانوں کو (بالخصوص پاک و ہند کے مسلمانوں کو) فقہ حنفی کی تقلید کی ہدایت اور اسے چھوڑنا حرام فرمایا ہے ؛
انسان جاہل فی بلا دالہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتاب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ رحمہ اللہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعہ ویبقیٰ سُدََی مُّہملا ۔( انصاف مع کشاف ص ۷۰؍۷۱)
ترجمہ: کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ما وراء النھر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی ، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مذہب کی تقلید کرے اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کرے ۔اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھیکنا ہے ۔اور مہمل وبے کار بننا ہے
جس کا آپ نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔سوائے اس کے کہ
آپ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی مقلد نہیں اور نہ ہی شاہ صاحب کے بات آپ پر حجت ہے
چلیں ہم آپ سے یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ شاہ صاحب کی بات کو حجت مان لیں ۔۔۔۔ یا اُن کے کہنے پر کسی معین امام کی تقلید کریں
لیکن آپ اس ساری صورتحال اور ہماری طرف سے پیش کردہ شاہ صاحب کی ان صریح عبارتوں کے بعد کم از کم کھلے دل سے اتنا اعتراف تو کرسکتی ہیں کہ آپ کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا موقف سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ۔۔۔۔ اور واقعتا شاہ صاحب ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کے قائل تھے ؟؟؟
اور ہمارے خیال میں انصاف و دیانت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ یا تو آپ شاہ صاحب کی پیش کردہ صریح عبارتوں کی شاہ صاحب کے حوالے سے صریح تردید پیش فرمائیں
یا پھر کم از کم شاہ صاحب کے حوالے سے ہمارا موقف تسلیم کرلیں ۔
دیکھتے ہیں کہ آپ کی دیانت داری اور انصاف کیا کہتا ہے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین