کسی خونی قبیلے کی سپہ سالار ہے لیلیٰ
کبھی دَشنہ ، کبھی خنجر ، کبھی تلوار ہے لیلیٰ
بدن پہ وُہ غضب ڈھاتا ہے ، یہ جذبات کی قاتل
ستم کے بادشہ کی ، حاشیہ بردار ہے لیلیٰ
یہ کشتِ زَعفرانی ہے ، فقط آغازِ اُلفت میں
جو دِل دے دو تو پھر دِن رات کشتِ زار ہے لیلیٰ
کبھی اِس نے وَفا کی ہو تو پھر اِنسان سوچے بھی
رُخِ معصوم نہ دیکھ ، آخری عیار ہے لیلیٰ
ترا کردار ہی ، گفتار کا ، حامی نہیں ظلمی!
تُو لاکھ اِقرارِ اُلفت کر ، ہمیں اِنکار ہے لیلیٰ
تری آنکھوں کا نیلا پن ، یہ تیرا ماتمی جُوبَن
جو تجھ پہ مر مٹے ، مجنوں ، یہ کیا کردار ہے لیلیٰ؟
کوئی ہَدیہ بہ مسجد تو کوئی مے خانے کو بخشا
شکایت پر کہے قاضی سے ، خود مختار ہے لیلیٰ
ہُوئی کھیتی جواں دِل کی ، گرانے آ گئی بجلی
چمک پہ نہ مرو صاحب! ، چمکتی دھار ہے لیلیٰ
ستم کی ملکہ ، ظلمت گر ، کِرائے کی کوئی قاتل
بزورِ حُسن قبضہ گر ، بہت فنکار ہے لیلیٰ
اَگر تم نہ ملیں تو اِس غزل کو ’’ٹھیک‘‘ سے پڑھ لو!
اَگر ہو قیس کی تو ، توبہ اَستغفار ہے لیلیٰ
@h@!der
یہاں پر شاعر نے بھی لیلی سے توبہ کر لی ہے۔۔ صرف اور صرف آپ یعنی حیدر صاحب کی حاشیہ آرائی کی وجہ سے