کبھی کبھی میرے ہاتھ میں مال آتا ہے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی کرپشن کی حرام کمائی میں گزرنے پاتی
تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ گو نواز گو کی سیاست جو دل پہ چھائی ہے
کچھ لو کچھ دو کے وعدہ میں کھو بھی سکتی تھی
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے
کہ بینظیر نہیں، این آر او کی جستجو بھی نہیں۔
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اِسے میثاق جمہوریت کے سیاپےکی آرزو بھی نہیں
نہ کوئی افتخار نہ جیو نہ پینتی پنچر کا جادو
پھنس رہی ہے دھرنوں میں حکومت بھی
انہی دھرنوں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں میرے ہم نفس
مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے قادری کو بلایا گیا ہے میرے لیے
تو اب سے پہلے زرداری کے ساتھ گذر رہی تھی کہیں
اسے کینیڈا سے بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے یہ خزانہ یہ جاگیریں میری وراثت ہیں
یہ ڈالروں کی ڈھیریاں ہیں میری خاطر
یہ بنک اور یہ گلو بٹ میری طاقت ہیں
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے بجتی ہے سیٹیاں سی کانوں میں
آخری رات ہے گھاٹ پر لٹکایا جا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے توند گھبرا کے اپنی بانہوں میں
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے دھرنے لگے رہیں گے عمر بھر یوں ہی
کے پڑے گا میری طرف خدا کا قہر یوں ہی
میں جانتا ہوں نہیں بچوں گا مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میںخیال آتا ہے
کبھی کبھی میرے دل میںخیال آتا ہے