کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کوخبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو...
مرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنی
نہ اٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گزر نہ ہو....
وہ فراق ہو کہ وصال ہو تری یاد مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ہو....
کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں دل و جاں سے دونوں قبول ہیں
مگر اس نگر میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو...
کبھی دن کی دھوپ میں جھول کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو...
مرے پاس مرے حبیب آ ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو....
..