جب اللہ کی ذات پر ایمان نہ رہے
اللہ تعالی پر ایمان لانا مختلف چیزوں کی عبادت سے ہٹا کر ایک مستحق ذات کی عبادت کی طرف انسانی زندگی کو پھیرنے کا اہم موڑ ہے۔
مخلوقات میں سے اکثر لوگوں کی زندگی سے جب ایمان کی چابی گُم ہوجائے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تنگی و حیرانی پیدا ہوتی ہے، جس سے بعض معاشروں میں خودکشی کے نئے نئے اسباب ایجاد کرنے کا رجحان پیدا ہورہا ہے، تاکہ اس تنگ و حیران بھری زندگی سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔ اللہ تعالی کا نعمتِ اسلام پر لاکھ لاکھ شکر ہے، اور اس سے بڑی کوئی اور نعمت نہیں ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ ہے:
دنیا سے رخصتی کے نئے انداز
آسٹرلیا میں مشفقانہ قتل کی تائید کرنے والے "فلپ نیچکیہ" نے کہا کہ: خود کشی کے لئے استعمال کیا جانے والا آلہ، جس کا نام: "Exit Bag" رکھا گیا ہے، کینیڈا سے بذریعہ پوسٹ منگوایا جاتا ہے، اور ملک میں اس کی مانگ بڑھ گئی ہے۔
اس آلے کی قیمت 30 امریکی ڈالر ہے۔ اس کے ساتھ ایک خصوصی پلاسٹک کی تھیلی ملتی ہے، جس کو دم گھٹنے کے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔
"نیچکہ" نے آسٹریلیائی ٹی وی چینل "اے۔ بی۔ سی" سے بات کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ یہ آلہ بڑی حد تک ناقابلِ برداشت ہے، لیکن روح نکالنے میں بہت کارگر ہے۔ "
مزید اس کا کہنا تھا کہ: اس کا استعمال آج کل بہت عام ہوچکا ہے، اور وہ اس آلے اور اس کے اوصاف سے متعلق بہت سے لوگوں سے روزانہ بات کرتا ہے۔
دوسری طرف لندن کی ایک خاتون، جو اعصابی مرض میں مبتلا تھی، [اس مرض سے انسان میں حرکت کرنے کی قوت باقی نہیں رہتی ہے] نے لندن کی سپریم کورٹ سے یہ اپیل کی کہ خودکشی کرنے کے لئے شوہر کو اس کا تعاون کرنے کی اجازت دی جائے۔
ریڈیو لندن نے ذکر کیا کہ "دایان بیریتی" عمر 42 سال، دو سال پہلے اس مرض کا شکار ہوئی۔ ریڈیو نے وضاحت کی کہ سرکاری محکموں نے خود کشی میں تعاون کرنے پر اس کے شوہر کا مواخذہ کرنے کی دھمکی دی، تو اس خاتون نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
{اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ }(طہٰ: 124)
محتاج بندوں کو بے نیاز اللہ کی حاجت
اے میرے بندو ۔ ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم حدیثِ قدسی میں یہ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالی نے کہا ہے:"اے میرے بندو میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام کرلیا ہے، اور اس کو تمہارے بیچ بھی حرام کیا ہے، لہذا تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو، سوائے اس شخص کے جس کو میں ہدایت دوں، لہذا تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت سے نوازوں گا۔ اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو، سوائے اس شخص کے جس کو میں کھانا کھلاؤں، لہذا تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو تم سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں کپڑا پہناؤں، لہذا تم مجھ سے کپڑے طلب کرو، میں تمہیں کپڑا پہناؤں گا۔ اے میرے بندو تم سب دن و رات گناہ کرتے ہو، اور میں تمہارے سارے گناہ معاف کرتا ہوں، لہذا تم مجھ سے ہی معافی طلب کرو، میں تمہیں معاف کروں گا۔ اے میرے بندو تم سب نہ مجھے نقصان پہنچاسکتے ہو، اور نہ نفع۔ اے میرے بندو اگر تم میں سے اول و آخر، اور انسان وجنات میں سے ہر ایک انسان سب سے زیادہ پاکباز دل بن جائے، تو اس سے میری سلطنت میں کوئی اضافہ ہونے والا نہیں ہے۔ اے میرے بندو اگر تم میں سے اول و آخر، اور انسان وجنات میں سے ہر ایک انسان سب سے زیادہ فاسق و فاجر بن جائے، تو اس سے میری ملک میں کوئی کمی ہونے والی نہیں ہے۔ اے میرے بندو اگر تم میں سے اول و آخر، اور انسان وجنات میں سے ہر ایک انسان ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہوجائے، اور ہر ایک اپنی اپنی حاجت مجھ سے مانگے، اور میں ان سب کی حاجتیں پوری کردوں، تو اس سے میرے خزانے میں بالکل اسی طرح کی کمی ہوتی ہے، جس طرح سمندر کے پانی میں میں سوئی ڈالکر نکالنے سے ہوتی ہے۔ اے میرے بندو، یہ تمہارے اعمال ہیں، میں ان اعمال کا حساب کتاب رکھتا ہوں، اور پھر اس کا تمہیں پورا پورا بدلہ دیتا ہوں۔ اب جو انسان بھلائی دیکھے، تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے، اور جو برائی دیکھے، تو وہ اپنے آپ پر ملامت بھیجے۔"
(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)
تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا:
{اے لوگو تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز خوبیوں والا ہے}(فاطر: 15)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، تو آپ ﷺ نے مجھ سے کہا:"اے میرے بچے میں تمہیں چند باتیں سکھارہا ہوں: تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرلو، تو اللہ کو تم ہمیشہ اپنا معاون پاؤگے۔ جب بھی تم مدد مانگنا چاہو، تو اللہ سے مدد مانگو۔ یاد رکھو کہ اگر ساری امت اکٹھا ہوکر تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے، تو وہ سب تمہیں وہی فائدہ پہنچاسکیں گے، جو اللہ نے تمہارے لئے پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور اگر ساری امت اکٹھا ہوکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے، تو وہ سب تمہیں وہی نقصان پہنچاسکیں گے، جو اللہ نے تمہارے لئے پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ یقیناً قلم اٹھالیا گیا ہے، اور دفاتر سوکھ گئے ہیں، یعنی لکھت مٹنے والی نہیں ہے۔
"(اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے)