آئین کا ضمیر

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
اس وقت ہی فنا ہوچکا تھا جب قومی اسمبلی نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کردیاتھا۔ مزید رہی سہی کسر سپریم کورٹ کا ایک ڈویژن بنچ نکا ل دیتا۔ اس کیس کے حالیہ فیصلے تک پہنچنے میں کسی غیرمعمولی آئینی تھیوری کا سہار ا لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ ہماری کوئی زیادہ خوش قسمتی نہیں ہے کہ NROکی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کے 17ججوں کے بنچ کے فیصلے، جسے خود چیف جسٹس نے لکھا ، کے منظر عام پر آتے ہی پہلے سے تیار جانبدار حلقوں کی جانب سے اس کے خلاف تند وتیز تبصرے بھی آنے شروع ہوگئے ہیں۔ یہ فیصلہ کمزور دل لوگوں کے لئے نہیں ہے کیونکہ اس کو پڑھنا آسان نہیں ہے۔ یہ فیصلہ تلوار کی دھار کی مانند تیکھا ہونے سے زیادہ اپنے نقاط کو واضح کرنے میں حد سے تجاوز کرتا ہوا فیصلہ تھا۔ بظاہر NROکا امتیازی ہونایعنی اس میں ایک خاص طبقے کے لوگوں کی حمایت ہونا ہی اس کے کالعدم ہونے کے جواز کیلئے کافی ہے۔ لیکن اسی ایک نتیجے تک پہنچنے کیلئے سپریم کورٹ نے ایک طویل راستہ اختیار کیا ہے۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا کرنے کیلئے سپریم کورٹ کے پاس کئی ایسی وجوہات ہوں گی جو میرے جیسے غیر تربیت یافتہ قانونی ذہن کے لوگوں کو فوراً سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ اس فیصلے کے مطابق آئین کے کچھ بنیادی اصول اور ضمیر ہوتا ہے، جن کو کسی صورت تبدیل نہیں کیا جاسکتا یہ بات شاید اسلامی جمہوریہ میں رہنے والے ان کئی لوگوں کو بڑی عجیب لگے جن کا خیال ہے کہ معصومیت اور اپنے اصولوں کی وجہ سے 1973ء کا آئین جنرل ضیاء الحق جیسے لوگوں کی وجہ سے پہلے ہی کئی بار اپنا ضمیر کھو چکا ہے اور اس میں کئی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں ۔
پرویز مشرف کی طرح ضیا ء نے جب کئی سالوں اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا تو اسکے سب سے بڑے حامی بھی جج ہی تھے۔ یہ سوچ بھی درست ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ 17دانشور جج صاحبان نے بھی 2000ء میں مشرف کے عبوری آئینی آرڈر (PCO) کے تحت حلف اٹھا یا تھا۔ اس وقت بھی آئین کا ضمیر موجود تھا۔ تاہم اس وقت وہ اتنا مضبوط نہ تھا کہ PCOکے سمندر میں Beptiseہونے سے روک سکے۔ اس وقت ایسا کچھ ممکن نہ تھا۔ جس طرح ماضی میں اعلی عدالتوں کی جانب سے فوجی قبضے کو جائز قرار دیا گیا تھا اسی طرح 2000ء میں مشرف کے فوجی قبضے کو بھی مشہور ظفر علی شاہ کیس میں جائز قرار دے دیا گیا۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں یہ فیصلہ کرنے والے مینارئہ نور جج صاحبان میں ایک ابھرتے ہوئے جج افتخار محمد چوہدری بھی تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں لوگوں کو یہ ترغیب دے رہا ہوں کہ وہ ہمیشہ ایک جیسے ہی رہیں اور کوئی تبدیلی نہ لائیں۔ کسی کو بھی ہر وقت تبدیل ہونے کے لیے تیا ر رہنا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم میں سے کئی لوگ نوجوانی کے آئیڈیلزم کو پیچھے چھوڑ کر مزید برے ہوجاتے ہیں ۔ او ر ہم میں سے کچھ اپنی نوجوانی کی نادانیوں اورحماقتوں کو چھوڑ کر بہتر حالت میں آ جاتے ہیں ۔ لیکن اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی یاد کرنے کے دوران اپنی عاجزی کا معیار بھی لازمی طور پر یاد آنا چاہیے ۔
غالب نے کیا خوب کہا ہے۔
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے لکھے گئے تفصیلی فیصلے پر اپنے نوٹ میں جسٹس جواد خواجہ لکھتے ہیں ”سب سے پہلے یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پچھلے تین سال اسی طرح انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں جیسے 1947ء میں پاکستان کے قیام کے وقت اور 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے وقت کے سال تھے۔ “ وہ مزید کہتے ہیں۔ ” ماضی میں قوم کے احساس کی بدولت ہی ہم اس قابل ہوئے کہ آئین کی رو سے سپریم کورٹ کو دیے گئے کردار کو سمجھ کر اس کے مطابق عمل کریں ۔ “
اس نوٹ میں بلامبالغہ کا لفظ استعمال کیا گیا جس میں غرور کا شائبہ پایا جاتا ہے ، گویا یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم بھی اسی طرح کے حالات میں پہنچ چکے ہیں جب یہ دو عظیم واقعات رونما ہوئے تھے اور تاریخ نے ہمیں عظیم فیصلہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ دراصل ایک عدلیہ اس وقت اپنے فرائض صحیح طور پر سرانجام دے رہی ہوتی ہے جب وہ قانون کی روح کے ساتھ وفادار ہو ، جب وہ اس قانون کو لاگو کرنے میں بھی ایماندار ہو، جب وہ کسی آمر کی حامی نہ ہواور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے آئین کو توڑ مروڑ کرپیش نہ کرے۔ اس تاریخی مشن جس کو جسٹس خواجہ کے مشاہدات تجویز کر رہے ہیں کو عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کے لئے چھوڑ دینا چاہیے۔ اور اگر یہ فیصلہ ایک تاریخ ہی ہے تو پھر اسے مکمل تاریخ ہونا چاہیے نا کہ تاریخ کا ایسا حصہ جو خاص توجیہات کا اثر قبول کرلے ۔ عجیب بات ہے اس فیصلے کی وجہ سے رقم کی جانے والی حالیہ تاریخ کا اثر کہیں بھی نظر نہیں آرہا ۔
مزید حیران کن اس فیصلے میں مفاہمت کے سمجھے گئے معنی ہیں ۔ اس فیصلے کے مطابق NROدو انفرادی شخصیتوں بے نظیر بھٹو اور جنر ل مشرف کے درمیان ذاتی مقاصد کے حصول کا ایک معاہدہ تھا۔ چنانچہ فیصلے میں کہا گیا ” ہماری رائے یہ ہے کہ NROقومی مفاہمت کے لئے نہیں بنا یاگیا تھا بلکہ اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لئے لاگو کیا گیا تھا جس کا قومی مفاہمت سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ مجموعی طور پر پاکستانی قوم کو اس آرڈیننس سے کوئی بھی فائد ہ حاصل نہیں ہوا“۔NRO کی موضوعی حالت کی تصدیق کے لئے فیصلے میں بے نظیر بھٹو کی کتاب ”مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب“ سے ایک ا قتباس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔ یہ اقتباس کچھ یوں ہے ” مشرف کے ساتھ بات چیت کا کوئی حتمی نتیجہ نہ نکل سکا، وہ چاہتے تھے کہ ان کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں ہم اسمبلیوں سے استعفی نہ دیں ۔ ہم انتخابات کا بائیکاٹ کرتے یا ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرتے کوئی خاص فرق نہ پڑتا انہوں نے دونوں صورتوں میں جیت جانا تھا لیکن ہم نے اس صورتحا ل کو استعمال کرتے ہوئے ان پردباؤ بڑھایا کہ وہ آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں۔ انہوں نے عدالتی مشکلات کا ذکر کیا۔ یہ ایک بڑا تکلیف دہ وقت تھا۔ کئی راتوں کے مذاکرات کے بعد آخر کار انہوں نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (NRO) جاری کردیا۔ اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی پابندی ختم نہ کی ، ان کا کہنا تھا کہ بعد میں وہ یہ بھی کردیں گے۔ “
اندازہ لگائیے کہ کیا یہ کوئی انفرادی شخصیتوں کی بات چیت ہے یا ایک مرکزی سیاسی رہنما یہ بات کررہا ہے کہ جمہوری نظام کیسے اور کب شروع ہوگا؟ مشرف حکومت کی سب سے بڑی طاقت ان کا آرمی چیف کا عہدہ تھا۔ غور کیجیے کہ بے نظیر بھٹو ان سے وردی اتارنے کی بات چیت کررہی ہیں۔ جس میں وہ آخر کار کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔ آیا یہ ذاتی مفاد کے مذاکرات تھے۔ دوسری طرف عدلیہ کی قیادت کی رائے یہ ہے کہ NROکا یہ معاہدہ محض دو لوگوں کے درمیان ان کے انفرادی مفادات کا معاہدہ تھا اور وسیع تر تناظر میں اس معاہدے کا کوئی کردار نہ تھا۔
جسٹس خواجہ نے گزشتہ تین سالوں کو ماضی کی کسی بھی دوسری اہم چیز کی طرح انتہائی اہم قراردیا ہے ۔ ان تین سالوں کی اہم باتوں کا منتخب مطالعہ کیا جائے تو کئی عوامل نے اکٹھے مل کر مشرف کے دور حکومت سے موجود ہ سیاسی نظام کی طرف آنے کا راستہ کھولا۔ اس تاریخ کے مختلف ابواب مختلف لوگوں نے رقم کیے۔ وکلاء کی تحریک نے پہلا باب رقم کیا ۔ اس تحریک نے واقعتاً مشرف کی توسیع کے حامیوں کو کمزور کردیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے ججوں نے مشرف کے سامنے حرف انکار کہہ کر دوسرا باب رقم کیا۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ اس سے پہلے جج ہمیشہ فوجی قیادت کے حامی رہے تھے۔ وہ کبھی بھی ان آمروں کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکے تھے ۔ خاص طور پر اس انداز میں تو کسی نے بھی مزاحمت نہ کی تھی۔ تیسرا باب بے نظیر بھٹو نے رقم کیا۔ اور یہ بات شاید ہمیں اچھی نہ لگے کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہمارے امریکی دوست بھی تھے جنہوں نے بتدریج مشرف کو وردی اتارنے پر راضی کیا۔ اس ضمن میں عدلیہ اور وکلا ء کا تعلق بالواسطہ تھا کہ انہوں نے ایسا ماحول پیدا کردیا کہ مشرف ایک کمزور ترین حکمران کے طور پر باقی رہ گئے ۔ لیکن اس سے بے نظیر بھٹو کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنے کارڈ بڑی مہارت سے کھیلے اور مشرف کوزیر دباؤ لا کراس بات پر راغب کرلیا کہ وہ فوج کا ڈنڈا اپنے جانشین کے سپرد کردیں۔ پانچواں باب بے نظیر بھٹو کے خون سے لکھا گیا جب ان کو لیاقت باغ میں قتل کردیا گیا۔ وکلاء اور عدلیہ نے اگرچہ مشرف کو کمزور کردیا تھا مگر مکمل طور پر تباہ نہیں کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی موت نے عوام کے امکانی غصے کا رخ مشرف کی طرف موڑ کر انکی حکومت کو ہلا کررکھ دیا۔ اب کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی تھی جو مشر ف کوبچا سکتی ۔ بے نظیر بھٹو مرنے کے بعد اپنی زندگی سے بھی زیادہ طاقتور ثابت ہوئیں اور یہ صرف جمہوریت کی آمد سے ممکن ہوا کہ مشرف کی جانب سے نظر بند کردہ جج آزاد ہوگئے اور نوازشریف کی سربراہی میں شروع ہونے والے لانگ مارچ کے طفیل ہی جج بحال ہو سکے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ سیاسی عمل اور اس وقت کی خاص سیاسی فضا ہی کی بدولت ججوں کی بحالی کا راستہ کھلا تھا۔ اب عدلیہ اس ساری تاریخ سے خود کو الگ کر کے کیسے دیکھ سکتی ہے؟ NROایک برا قانون تھا۔ اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاسکتی ۔ لیکن یہ بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ تھا اور اس سارے فیصلے میں اس کا ذکر تک نہیں​
 
Top