History اسلام میں روح کیا چيز ہے ؟

  • Work-from-home

Armaghankhan

Likhy Nhi Ja Sakty Dukhi Dil K Afsaany
Super Star
Sep 13, 2012
10,433
5,571
1,313
KARACHI
اسلام میں روح کیا چيز ہے ؟



اسلام میں روح کیا چيز ہے ؟مثلا روح کیا ہے اوراس کی حدود کیا ہیں ؟


الحمد للہ
اللہ تعالی ہر چیزکوپیدا کرنے والاہے ، اورروح بھی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے ، اس حقیقت وغیرہ کا علم تو اللہ تعالی کی خصوصیت ہے جس طرح کہ حدیث میں وارد ہے :
عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کیھتی میں تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چھڑی پرسہارا لیے ہوۓ تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ یہودیوں کا وہاں سے گذر ہوا تووہ ایک دوسرے کوکہنے لگے کہ ان سے روح کے بارے میں سوال کرو تو وہ کہنے لگا کہ تمہاری کیا راۓ ہے کہ اس کےپاس چلیں تو ایک نے کہا نہیں کہیں وہ ایسی بات نہ کہہ دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ۔
وہ کہنے لگے کہ اس سے پوچھو تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اورجواب نہیں دیا تومجھے یہ علم ہوگيا کہ آّپ پروحی کا نزول ہورہا ہے تومیں اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگيا توجب وحی کا نزول ہوچکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
{ اوروہ آپ سے روح کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اورتمہیں تو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے } صحیح بخاری۔
اوراللہ تعالی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب وسنت میں روح کے کئ ایک اوصاف بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
وہ قبض اورفوت ہوتی ہے اوراسے جکڑا اور کفن میں لپیٹا جاتا ہے ، وہ آتی اورجاتی ہے اوپرچڑھتی اورنیچے اترتی ہے ، اور وہ اس طرح نکل جاتی ہے جس طرح کہ آٹے سے بال نکلتا ہے ۔۔
توانسان پریہ واجب اورضروری ہے کہ وہ ان صفات کوجوکہ قرآن مجید اور سنت نبویہ میں وارد ہیں ثابت کرے اس کے ساتھ ساتھ کہ روح بدن کی طرح نہیں ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجیدمیں ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا اوراس میں روح پھونکی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حديث میں بھی اس کا ذکرکیا ہے :
( اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایااوران میں روح پھونکی توآدم علیہ السلام نے چھینک ماری اورالحمدللہ کہا توانہوں اللہ تعالی کی اجازت سے ہی اللہ تعالی کی تعریف کی توآدم علیہ السلام کو ان کے رب نے کہا اے آدم اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے ان فرشتوں کے پاس جاؤ جوبیٹھے ہوۓ ہیں انہیں جا کر السلام علیکم کہو توانہوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا پھرآدم علیہ السلام اپنے رب کی پاس واپس آۓ تواللہ تعالی نے کہا کہ یہ تیرا سلام ہے اور ان کا بھی آپس میں یہی سلام ہے ) سنن ترمذی نے اسے حسن کہا ہے دیکھیں سنن ترمذي ( 3290 ) ۔
اللہ تعالی فرشتے کومادررحم میں پاۓ جانےوالے بچے میں روح پھونکنے کے لیے بھیجتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں اس کا ذکر ہے :
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا اوروہ صادق ومصدوق ہيں کہ تم میں سے ہرایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک جمع کیا جاتا ہے پھراسی طرح چالیس یوم میں خون کا لوتھڑا اورپھر اسی طرح چالیس یوم میں گوشت کا ٹکڑا پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے تووہ اس میں روح پھونکتا ہے اوراسے چارچيزوں کا حکم دیا جاتا ہے اس کے رزق اورموت اور اسے عمل اورشقی یا سعید کےبارہ میں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4781 ) ۔
اورروح نیچے پاؤں کی انگلیوں سے اوپر کی جانب قبض کی جاتی ہے توجب وہ حلق تک پہنچتی ہے تومرنے والے شخص کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے اوراس کی آنکھیں اوپرکواٹھ جاتی ہیں ۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضي اللہ عنہ کے پاس آۓ توان کی آنکھیں پھٹ چکی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بند کیا پھرفرمانے لگے : بلاشبہ جب روح قبض کی جاتی ہے توآنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1528 ) ۔
اورفرشتے روح سے ملتے جلتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( فرشتے تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح سے ملے تواسے کہنے لگے کیا تونے کوئ اچھا کام کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے ملازموں سے کہا کرتا تھا کہ تنگ دستوں سے درگزر کرو تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے اس سے درگزر کردیا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1935 ) ۔
فرشتے روح قبض کرنے کے بعد اسے آسمان پر لے جاتے ہیں جس طرح کہ حدیث میں بھی وارد ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے تواسے فرشتے مل کر بٹھاتے ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے اس روح کی اچھی خوشبو ذکر کیا اور کستوری کابھی ذکر کیا ہے وہ کہتےہیں کہ آسمان والے کہتے ہیں زمین سے اچھی روح آئ ہے تجھ پر جس جسم میں توتھی اللہ تعالی اپنی رحمت کرے تووہ اسے لیکر اللہ تعالی کے پاس لے جاتے ہیں پھروہ کہتا ہے کہ اسے سدرۃ المنتھی تک لے جاؤ ۔
وہ کہتے ہیں کہ جب کافر کی روح نکلتی ہے ۔۔ اورانہوں نے اس کی گندی بدبو کا ذکر کیا اور لعنت کا بھی اوراہل آسمان کہتے ہیں کہ زمین سے خبیث روح آئ ہے ، وہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اسے سجین کی طرف لے جاؤ ( جوکہ کفار کی روحوں کی جگہ ہے ) ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی علیہ وسلم نے اپنے ناک پررکھا ہوا رومال ہٹایا ۔ صحیح مسلم ( 5119 ) ۔
روح نکلنے کےبارہ میں تفصیل سے امام احمدرحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کی ہے :
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں گۓ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھے ، توانہوں نے اپنا سراٹھایا اورفرمانے لگے عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو یہ با ت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دویا تین بار دھرائ پھر فرمانے لگے :
جب مومن بندہ اس دنیا سے آخر ت کی طرف جارہا ہوتا ہے توآسمان سے سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں ان کےپاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے حتی کہ وہ اس کے سامنے حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سر کے قریب بیٹھتا اور کہتا ہے اے اچھی جان اپنے رب کی مغفرت اوررضامندی کی طرف چلو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ روح اس طرح نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے ، توفرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اورپلک جھپکتے ہی اپنے ہاتھوں میں لیے ہوۓ جنتی کفن اور خوشبومیں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمین میں پائ جانے والی سب سے اچھی قسم کی کستوری کی خوشبونکلتی ہے ، تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں تووہ جس فرشتے کے پاس سےبھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے یہ اچھی روح کس کی ہے ؟
تووہ وہ کہتے کہ یہ فلان بن فلان ہے دنیامیں اسے جس سب سےاچھے نام سے بلایا جاتا تھا حتی کہ وہ اسے آسمان دنیا تک جاکراسے کھلواتے ہیں توکھول دیا جاتا ہے تواسے ہر آسمان والے دوسرے آسمان تک پہنچاتے ہیں حتی کہ ساتویں آسمان تک جاتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتےہیں میرے بندے کی کتاب اعلی علیین میں لکھ دواور اسے زمین کی طرف لوٹا دو بلاشبہ میں نے انہیں اسی میں پیدا کیا اوراسی میں لوٹاؤں گا اورپھراسی میں سے نکالوں گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے تواس کے پاس دوفرشتے آ کراسے بٹھاتے اوراسے کہتے ہيں کہ تیرا رب کون ہے تووہ کہتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں اس شخص کے بارہ میں تیرا کیا خیال ہے جوتم میں مبعوث کیا گيا تھا وہ جواب دے گا وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں تیرا علم کیا ہے وہ جواب دیتا ہے میں نےکتاب اللہ کوپڑھاتواس پرایمان لایا اورتصدیق کی توآسمان میں آواز لگائ جاتی ہے کہ میرے بندے نے سچ بولا اس کے لیے جنت کا بستر لگاؤ اورجنتی لباس پہناؤ اورجنت کی طرف دروازہ کھول دو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں سے جنت کی ہوائيں اور خوشبو آتی ہے اور حد نگاہ تک اس کی قبر وسیع ہوجائ گی ، اورفرمایا کہ اس کے پاس خوبصورت وجیہ شکل اورخوبصورت لباس اوراچھی خوشبومیں ایک شخص آکرکہتا ہے خوش ہوجاؤ یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ، تووہ اسے کہے گا توکون ہے تیرے چہرےسے ظاہر ہورہا ہے کہ توخیرلانے والا ہے ، وہ جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں ، وہ شخص کہے گا اے رب قیامت قائم کردے حتی کہ میں اپنے گھر اورمال میں چلا جاؤں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ جب کافراس دنیا سے آخرت کی طرف جارہا ہوتا ہے تواس آسمان سے اس کے پاس سیاہ چہروں والے کھردرا ٹاٹ لیے آتے اوراس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھرملک الموت آکر اس کے سرکےپاس بیٹھ جاتا اورکہتا کہ اے خبیث روح اپنے رب کے غصہ اورغضب کی طرف نکل ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تووہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے تواسے جسم سے اس طرح کھینچا جاتا ہے جس طرح کہ بھیگی ہوئ روئ سے سلاخ کھینچی جاتی ہے ، تووہ اسے پکڑکر پلک جھپکتے ہی اس کھردرے ٹاٹ میں رکھ دیتے ہیں اوراس سے زمین پرپاۓ جانےوالے گندے ترین مردارکی طرح بدبوآتی ہے تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں وہ فرشتوں میں سےجس کےپاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا کہ یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ کہتے ہیں یہ فلان بن فلان اس نام ساتھ جوزمین میں قبیح ترین نام اسے دیا جاتا تھا حتی کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے اور اسے کھلواتے ہیں لیکن نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا :
{ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائيں گے اور وہ اس وقت تک جنت میں بھی نہیں داخل ہوسکتے حتی کہ سوئ کے نکے میں اونٹ داخل ہوجاۓ }
تواللہ تعالی فرمائيں گے کہ اس کی کتاب سب سے نچلی زمین میں سجین کے اندر لکھ دو تواس کی روح کواوپر سے ہی پھینک دیا جاۓ گا پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آيت پڑھی :
{ اورجو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ اس طرح ہے کہ جیسے آسمان سے گرے تواسے پرندے اچک لے جائيں یا پھر اسے ہوا کسی دوردراز مقام پر پھینکھ دے }
تواس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے اوردو فرشتے اس کے پاس آکربٹھاتے اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ جواب میں کہتا ہے ہاۓ مجھے توکوئ علم نہیں ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب دیتا ہے ہاۓ مجھے توکچھ علم نہيں ، وہ اسےکہتے ہیں اس شخص کے بارہ میں توکیا کہتا ہے جوتمہارے اندمبعوث کیا گيا ، وہ جواب کہتا ہے ہاۓ مجھے تواس کا علم نہیں ، توآسمان سے یہ آواز لگائ جاتی ہے کہ :
اس کے لیے آگ کا بسترلگادو اورآگ کی طرف دووازہ کھول دو تواس سے اس کی گرمی اوردھواں اوربدبو آتی ہے اورقبراس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں ، اوراس کے پاس ایک قبیح الشکل گندے اوربدبودار کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے تجھے تیری ناپسندیدگی کی خوشخبری ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ،وہ اس سے سوال کرے گا توکون ہے ؟ تیرا توچہرہ ہی ایسا ہے جوشرہی شرلاتا ہے وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں تیرے برے اعمال ہوں ، تووہ کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر ۔ مسند امام احمد حدیث نمبر ( 17803 ) اوریہ حدیث صحیح ہے ۔
اورآخری زمانے میں اللہ تعالی ایک ایسی ہوابھیجے گا جوہرمومن کی روح کوقبض کرلے گی اس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں بھی ملتا ہے :
نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اورنزول عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اورعیسی علیہ السلام کی زندگی میں اچھی معیشت اوران کے بعد اس وقت لوگوں کی سعادت کا بھی ذکرکیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تووہ اسی حالت میں ہوں گے تواللہ تعالی ایک اچھی ہوا بھیجے گا جو انہیں ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی اورمومن اورمسلمان کی روح قبض کرلےگی اورسب سے شریر ترین لوگ باقی رہ جائيں گے جوگدھوں کی طرح سرعام مجامعت کریں گے توان پر قیامت قائم ہوگی ۔ صحیح مسلم ( 5228 )۔
اورنیند( جسے موت صغری کہا جاتا ہے ) کے وقت بھی روح قبض ہوتی ہے لیکن اسے کلی طورپر قبض نہیں کیا جاتا اسی لیے سویا ہواشخص بقید حیات اورزندہ ہوتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوراللہ تعالی ہی روحوں کوان کی موت کے وقت او رجن کی موت نہیں آئ ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہوتا ہے انہیں روک لیتا اور دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے ، بلاشبہ اس میں غورکرنے والوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں } الزمر ( 42 ) ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کووصیت کرتے ہوۓ فرمایا :
جب وہ سونے کے لیے لیٹے تویہ دعا پڑھے :
( بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ )
میرے رب تیرے ہی نام کے ساتھ اپنا پہلورکھا اورتیرے ہی ساتھ اٹھاؤں گاپس اگرتومیری جان روک لے تواس پر رحم کراوراگر تواسے چھوڑ دے تواس کی اس طرح حفاظت فرما جس طرح تواپنے نیک اورصالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔
اورجب وہ نیند سے بیدار ہوتو یہ دعا پڑھے :
( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ )
اس ذات کی حمدو تعریف ہے جس نے میرے جسم کوعافیت سے نوازا اورمیری روح کومجھ پرلوٹایا اوراپنے ذکر کی اجازت دی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوروایت کرنے کےبعد حسن قرار دیا ہے سنن ترمذی
( 3323 ) ۔
روح کے متعلقہ یہ چندآيات اوراحادیث صحیحہ تھیں جوآپ کے سامنے ذکر کی گئ ہیں امید ہے کہ سائل اس کی راہنمائ سے راہ حق اوردین اسلام پرچلےگا ۔
واللہ تعالی اعلم
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اسلام میں روح کیا چيز ہے ؟



اسلام میں روح کیا چيز ہے ؟مثلا روح کیا ہے اوراس کی حدود کیا ہیں ؟


الحمد للہ
اللہ تعالی ہر چیزکوپیدا کرنے والاہے ، اورروح بھی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے ، اس حقیقت وغیرہ کا علم تو اللہ تعالی کی خصوصیت ہے جس طرح کہ حدیث میں وارد ہے :
عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کیھتی میں تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چھڑی پرسہارا لیے ہوۓ تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ یہودیوں کا وہاں سے گذر ہوا تووہ ایک دوسرے کوکہنے لگے کہ ان سے روح کے بارے میں سوال کرو تو وہ کہنے لگا کہ تمہاری کیا راۓ ہے کہ اس کےپاس چلیں تو ایک نے کہا نہیں کہیں وہ ایسی بات نہ کہہ دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ۔
وہ کہنے لگے کہ اس سے پوچھو تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اورجواب نہیں دیا تومجھے یہ علم ہوگيا کہ آّپ پروحی کا نزول ہورہا ہے تومیں اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگيا توجب وحی کا نزول ہوچکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
{ اوروہ آپ سے روح کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اورتمہیں تو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے } صحیح بخاری۔
اوراللہ تعالی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب وسنت میں روح کے کئ ایک اوصاف بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
وہ قبض اورفوت ہوتی ہے اوراسے جکڑا اور کفن میں لپیٹا جاتا ہے ، وہ آتی اورجاتی ہے اوپرچڑھتی اورنیچے اترتی ہے ، اور وہ اس طرح نکل جاتی ہے جس طرح کہ آٹے سے بال نکلتا ہے ۔۔
توانسان پریہ واجب اورضروری ہے کہ وہ ان صفات کوجوکہ قرآن مجید اور سنت نبویہ میں وارد ہیں ثابت کرے اس کے ساتھ ساتھ کہ روح بدن کی طرح نہیں ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجیدمیں ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا اوراس میں روح پھونکی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حديث میں بھی اس کا ذکرکیا ہے :
( اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایااوران میں روح پھونکی توآدم علیہ السلام نے چھینک ماری اورالحمدللہ کہا توانہوں اللہ تعالی کی اجازت سے ہی اللہ تعالی کی تعریف کی توآدم علیہ السلام کو ان کے رب نے کہا اے آدم اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے ان فرشتوں کے پاس جاؤ جوبیٹھے ہوۓ ہیں انہیں جا کر السلام علیکم کہو توانہوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا پھرآدم علیہ السلام اپنے رب کی پاس واپس آۓ تواللہ تعالی نے کہا کہ یہ تیرا سلام ہے اور ان کا بھی آپس میں یہی سلام ہے ) سنن ترمذی نے اسے حسن کہا ہے دیکھیں سنن ترمذي ( 3290 ) ۔
اللہ تعالی فرشتے کومادررحم میں پاۓ جانےوالے بچے میں روح پھونکنے کے لیے بھیجتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں اس کا ذکر ہے :
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا اوروہ صادق ومصدوق ہيں کہ تم میں سے ہرایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک جمع کیا جاتا ہے پھراسی طرح چالیس یوم میں خون کا لوتھڑا اورپھر اسی طرح چالیس یوم میں گوشت کا ٹکڑا پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے تووہ اس میں روح پھونکتا ہے اوراسے چارچيزوں کا حکم دیا جاتا ہے اس کے رزق اورموت اور اسے عمل اورشقی یا سعید کےبارہ میں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4781 ) ۔
اورروح نیچے پاؤں کی انگلیوں سے اوپر کی جانب قبض کی جاتی ہے توجب وہ حلق تک پہنچتی ہے تومرنے والے شخص کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے اوراس کی آنکھیں اوپرکواٹھ جاتی ہیں ۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضي اللہ عنہ کے پاس آۓ توان کی آنکھیں پھٹ چکی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بند کیا پھرفرمانے لگے : بلاشبہ جب روح قبض کی جاتی ہے توآنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1528 ) ۔
اورفرشتے روح سے ملتے جلتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( فرشتے تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح سے ملے تواسے کہنے لگے کیا تونے کوئ اچھا کام کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے ملازموں سے کہا کرتا تھا کہ تنگ دستوں سے درگزر کرو تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے اس سے درگزر کردیا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1935 ) ۔
فرشتے روح قبض کرنے کے بعد اسے آسمان پر لے جاتے ہیں جس طرح کہ حدیث میں بھی وارد ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے تواسے فرشتے مل کر بٹھاتے ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے اس روح کی اچھی خوشبو ذکر کیا اور کستوری کابھی ذکر کیا ہے وہ کہتےہیں کہ آسمان والے کہتے ہیں زمین سے اچھی روح آئ ہے تجھ پر جس جسم میں توتھی اللہ تعالی اپنی رحمت کرے تووہ اسے لیکر اللہ تعالی کے پاس لے جاتے ہیں پھروہ کہتا ہے کہ اسے سدرۃ المنتھی تک لے جاؤ ۔
وہ کہتے ہیں کہ جب کافر کی روح نکلتی ہے ۔۔ اورانہوں نے اس کی گندی بدبو کا ذکر کیا اور لعنت کا بھی اوراہل آسمان کہتے ہیں کہ زمین سے خبیث روح آئ ہے ، وہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اسے سجین کی طرف لے جاؤ ( جوکہ کفار کی روحوں کی جگہ ہے ) ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی علیہ وسلم نے اپنے ناک پررکھا ہوا رومال ہٹایا ۔ صحیح مسلم ( 5119 ) ۔
روح نکلنے کےبارہ میں تفصیل سے امام احمدرحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کی ہے :
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں گۓ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھے ، توانہوں نے اپنا سراٹھایا اورفرمانے لگے عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو یہ با ت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دویا تین بار دھرائ پھر فرمانے لگے :
جب مومن بندہ اس دنیا سے آخر ت کی طرف جارہا ہوتا ہے توآسمان سے سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں ان کےپاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے حتی کہ وہ اس کے سامنے حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سر کے قریب بیٹھتا اور کہتا ہے اے اچھی جان اپنے رب کی مغفرت اوررضامندی کی طرف چلو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ روح اس طرح نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے ، توفرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اورپلک جھپکتے ہی اپنے ہاتھوں میں لیے ہوۓ جنتی کفن اور خوشبومیں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمین میں پائ جانے والی سب سے اچھی قسم کی کستوری کی خوشبونکلتی ہے ، تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں تووہ جس فرشتے کے پاس سےبھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے یہ اچھی روح کس کی ہے ؟
تووہ وہ کہتے کہ یہ فلان بن فلان ہے دنیامیں اسے جس سب سےاچھے نام سے بلایا جاتا تھا حتی کہ وہ اسے آسمان دنیا تک جاکراسے کھلواتے ہیں توکھول دیا جاتا ہے تواسے ہر آسمان والے دوسرے آسمان تک پہنچاتے ہیں حتی کہ ساتویں آسمان تک جاتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتےہیں میرے بندے کی کتاب اعلی علیین میں لکھ دواور اسے زمین کی طرف لوٹا دو بلاشبہ میں نے انہیں اسی میں پیدا کیا اوراسی میں لوٹاؤں گا اورپھراسی میں سے نکالوں گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے تواس کے پاس دوفرشتے آ کراسے بٹھاتے اوراسے کہتے ہيں کہ تیرا رب کون ہے تووہ کہتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں اس شخص کے بارہ میں تیرا کیا خیال ہے جوتم میں مبعوث کیا گيا تھا وہ جواب دے گا وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں تیرا علم کیا ہے وہ جواب دیتا ہے میں نےکتاب اللہ کوپڑھاتواس پرایمان لایا اورتصدیق کی توآسمان میں آواز لگائ جاتی ہے کہ میرے بندے نے سچ بولا اس کے لیے جنت کا بستر لگاؤ اورجنتی لباس پہناؤ اورجنت کی طرف دروازہ کھول دو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں سے جنت کی ہوائيں اور خوشبو آتی ہے اور حد نگاہ تک اس کی قبر وسیع ہوجائ گی ، اورفرمایا کہ اس کے پاس خوبصورت وجیہ شکل اورخوبصورت لباس اوراچھی خوشبومیں ایک شخص آکرکہتا ہے خوش ہوجاؤ یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ، تووہ اسے کہے گا توکون ہے تیرے چہرےسے ظاہر ہورہا ہے کہ توخیرلانے والا ہے ، وہ جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں ، وہ شخص کہے گا اے رب قیامت قائم کردے حتی کہ میں اپنے گھر اورمال میں چلا جاؤں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ جب کافراس دنیا سے آخرت کی طرف جارہا ہوتا ہے تواس آسمان سے اس کے پاس سیاہ چہروں والے کھردرا ٹاٹ لیے آتے اوراس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھرملک الموت آکر اس کے سرکےپاس بیٹھ جاتا اورکہتا کہ اے خبیث روح اپنے رب کے غصہ اورغضب کی طرف نکل ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تووہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے تواسے جسم سے اس طرح کھینچا جاتا ہے جس طرح کہ بھیگی ہوئ روئ سے سلاخ کھینچی جاتی ہے ، تووہ اسے پکڑکر پلک جھپکتے ہی اس کھردرے ٹاٹ میں رکھ دیتے ہیں اوراس سے زمین پرپاۓ جانےوالے گندے ترین مردارکی طرح بدبوآتی ہے تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں وہ فرشتوں میں سےجس کےپاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا کہ یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ کہتے ہیں یہ فلان بن فلان اس نام ساتھ جوزمین میں قبیح ترین نام اسے دیا جاتا تھا حتی کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے اور اسے کھلواتے ہیں لیکن نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا :
{ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائيں گے اور وہ اس وقت تک جنت میں بھی نہیں داخل ہوسکتے حتی کہ سوئ کے نکے میں اونٹ داخل ہوجاۓ }
تواللہ تعالی فرمائيں گے کہ اس کی کتاب سب سے نچلی زمین میں سجین کے اندر لکھ دو تواس کی روح کواوپر سے ہی پھینک دیا جاۓ گا پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آيت پڑھی :
{ اورجو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ اس طرح ہے کہ جیسے آسمان سے گرے تواسے پرندے اچک لے جائيں یا پھر اسے ہوا کسی دوردراز مقام پر پھینکھ دے }
تواس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے اوردو فرشتے اس کے پاس آکربٹھاتے اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ جواب میں کہتا ہے ہاۓ مجھے توکوئ علم نہیں ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب دیتا ہے ہاۓ مجھے توکچھ علم نہيں ، وہ اسےکہتے ہیں اس شخص کے بارہ میں توکیا کہتا ہے جوتمہارے اندمبعوث کیا گيا ، وہ جواب کہتا ہے ہاۓ مجھے تواس کا علم نہیں ، توآسمان سے یہ آواز لگائ جاتی ہے کہ :
اس کے لیے آگ کا بسترلگادو اورآگ کی طرف دووازہ کھول دو تواس سے اس کی گرمی اوردھواں اوربدبو آتی ہے اورقبراس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں ، اوراس کے پاس ایک قبیح الشکل گندے اوربدبودار کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے تجھے تیری ناپسندیدگی کی خوشخبری ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ،وہ اس سے سوال کرے گا توکون ہے ؟ تیرا توچہرہ ہی ایسا ہے جوشرہی شرلاتا ہے وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں تیرے برے اعمال ہوں ، تووہ کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر ۔ مسند امام احمد حدیث نمبر ( 17803 ) اوریہ حدیث صحیح ہے ۔
اورآخری زمانے میں اللہ تعالی ایک ایسی ہوابھیجے گا جوہرمومن کی روح کوقبض کرلے گی اس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں بھی ملتا ہے :
نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اورنزول عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اورعیسی علیہ السلام کی زندگی میں اچھی معیشت اوران کے بعد اس وقت لوگوں کی سعادت کا بھی ذکرکیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تووہ اسی حالت میں ہوں گے تواللہ تعالی ایک اچھی ہوا بھیجے گا جو انہیں ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی اورمومن اورمسلمان کی روح قبض کرلےگی اورسب سے شریر ترین لوگ باقی رہ جائيں گے جوگدھوں کی طرح سرعام مجامعت کریں گے توان پر قیامت قائم ہوگی ۔ صحیح مسلم ( 5228 )۔
اورنیند( جسے موت صغری کہا جاتا ہے ) کے وقت بھی روح قبض ہوتی ہے لیکن اسے کلی طورپر قبض نہیں کیا جاتا اسی لیے سویا ہواشخص بقید حیات اورزندہ ہوتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوراللہ تعالی ہی روحوں کوان کی موت کے وقت او رجن کی موت نہیں آئ ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہوتا ہے انہیں روک لیتا اور دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے ، بلاشبہ اس میں غورکرنے والوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں } الزمر ( 42 ) ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کووصیت کرتے ہوۓ فرمایا :
جب وہ سونے کے لیے لیٹے تویہ دعا پڑھے :
( بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ )
میرے رب تیرے ہی نام کے ساتھ اپنا پہلورکھا اورتیرے ہی ساتھ اٹھاؤں گاپس اگرتومیری جان روک لے تواس پر رحم کراوراگر تواسے چھوڑ دے تواس کی اس طرح حفاظت فرما جس طرح تواپنے نیک اورصالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔
اورجب وہ نیند سے بیدار ہوتو یہ دعا پڑھے :
( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ )
اس ذات کی حمدو تعریف ہے جس نے میرے جسم کوعافیت سے نوازا اورمیری روح کومجھ پرلوٹایا اوراپنے ذکر کی اجازت دی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوروایت کرنے کےبعد حسن قرار دیا ہے سنن ترمذی
( 3323 ) ۔
روح کے متعلقہ یہ چندآيات اوراحادیث صحیحہ تھیں جوآپ کے سامنے ذکر کی گئ ہیں امید ہے کہ سائل اس کی راہنمائ سے راہ حق اوردین اسلام پرچلےگا ۔
واللہ تعالی اعلم


روح نکلنے کےبارہ میں تفصیل سے امام احمدرحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کی ہے
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں گۓ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھے ، توانہوں نے اپنا سراٹھایا اورفرمانے لگے عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو یہ با ت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دویا تین بار دھرائ پھر فرمانے لگے :

جب مومن بندہ اس دنیا سے آخر ت کی طرف جارہا ہوتا ہے توآسمان سے سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں ان کےپاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے حتی کہ وہ اس کے سامنے حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سر کے قریب بیٹھتا اور کہتا ہے اے اچھی جان اپنے رب کی مغفرت اوررضامندی کی طرف چلو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ روح اس طرح نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے ، توفرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اورپلک جھپکتے ہی اپنے ہاتھوں میں لیے ہوۓ جنتی کفن اور خوشبومیں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمین میں پائ جانے والی سب سے اچھی قسم کی کستوری کی خوشبونکلتی ہے ، تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں تووہ جس فرشتے کے پاس سےبھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے یہ اچھی روح کس کی ہے ؟

تووہ وہ کہتے کہ یہ فلان بن فلان ہے دنیامیں اسے جس سب سےاچھے نام سے بلایا جاتا تھا حتی کہ وہ اسے آسمان دنیا تک جاکراسے کھلواتے ہیں توکھول دیا جاتا ہے تواسے ہر آسمان والے دوسرے آسمان تک پہنچاتے ہیں حتی کہ ساتویں آسمان تک جاتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتےہیں میرے بندے کی کتاب اعلی علیین میں لکھ دواور اسے زمین کی طرف لوٹا دو بلاشبہ میں نے انہیں اسی میں پیدا کیا اوراسی میں لوٹاؤں گا اورپھراسی میں سے نکالوں گا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے تواس کے پاس دوفرشتے آ کراسے بٹھاتے اوراسے کہتے ہيں کہ تیرا رب کون ہے تووہ کہتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں اس شخص کے بارہ میں تیرا کیا خیال ہے جوتم میں مبعوث کیا گيا تھا وہ جواب دے گا وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں تیرا علم کیا ہے وہ جواب دیتا ہے میں نےکتاب اللہ کوپڑھاتواس پرایمان لایا اورتصدیق کی توآسمان میں آواز لگائ جاتی ہے کہ میرے بندے نے سچ بولا اس کے لیے جنت کا بستر لگاؤ اورجنتی لباس پہناؤ اورجنت کی طرف دروازہ کھول دو ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں سے جنت کی ہوائيں اور خوشبو آتی ہے اور حد نگاہ تک اس کی قبر وسیع ہوجائ گی ، اورفرمایا کہ اس کے پاس خوبصورت وجیہ شکل اورخوبصورت لباس اوراچھی خوشبومیں ایک شخص آکرکہتا ہے خوش ہوجاؤ یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ، تووہ اسے کہے گا توکون ہے تیرے چہرےسے ظاہر ہورہا ہے کہ توخیرلانے والا ہے ، وہ جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں ، وہ شخص کہے گا اے رب قیامت قائم کردے حتی کہ میں اپنے گھر اورمال میں چلا جاؤں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بلاشبہ جب کافراس دنیا سے آخرت کی طرف جارہا ہوتا ہے تواس آسمان سے اس کے پاس سیاہ چہروں والے کھردرا ٹاٹ لیے آتے اوراس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھرملک الموت آکر اس کے سرکےپاس بیٹھ جاتا اورکہتا کہ اے خبیث روح اپنے رب کے غصہ اورغضب کی طرف نکل ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تووہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے تواسے جسم سے اس طرح کھینچا جاتا ہے جس طرح کہ بھیگی ہوئ روئ سے سلاخ کھینچی جاتی ہے ، تووہ اسے پکڑکر پلک جھپکتے ہی اس کھردرے ٹاٹ میں رکھ دیتے ہیں اوراس سے زمین پرپاۓ جانےوالے گندے ترین مردارکی طرح بدبوآتی ہے تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں وہ فرشتوں میں سےجس کےپاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا کہ یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ کہتے ہیں یہ فلان بن فلان اس نام ساتھ جوزمین میں قبیح ترین نام اسے دیا جاتا تھا حتی کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے اور اسے کھلواتے ہیں لیکن نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا :

{ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائيں گے اور وہ اس وقت تک جنت میں بھی نہیں داخل ہوسکتے حتی کہ سوئ کے نکے میں اونٹ داخل ہوجاۓ }

تواللہ تعالی فرمائيں گے کہ اس کی کتاب سب سے نچلی زمین میں سجین کے اندر لکھ دو تواس کی روح کواوپر سے ہی پھینک دیا جاۓ گا پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آيت پڑھی :

{ اورجو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ اس طرح ہے کہ جیسے آسمان سے گرے تواسے پرندے اچک لے جائيں یا پھر اسے ہوا کسی دوردراز مقام پر پھینکھ دے }

تواس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے اوردو فرشتے اس کے پاس آکربٹھاتے اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ جواب میں کہتا ہے ہاۓ مجھے توکوئ علم نہیں ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب دیتا ہے ہاۓ مجھے توکچھ علم نہيں ، وہ اسےکہتے ہیں اس شخص کے بارہ میں توکیا کہتا ہے جوتمہارے اندمبعوث کیا گيا ، وہ جواب کہتا ہے ہاۓ مجھے تواس کا علم نہیں ، توآسمان سے یہ آواز لگائ جاتی ہے کہ :

اس کے لیے آگ کا بسترلگادو اورآگ کی طرف دووازہ کھول دو تواس سے اس کی گرمی اوردھواں اوربدبو آتی ہے اورقبراس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں ، اوراس کے پاس ایک قبیح الشکل گندے اوربدبودار کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے تجھے تیری ناپسندیدگی کی خوشخبری ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ،وہ اس سے سوال کرے گا توکون ہے ؟ تیرا توچہرہ ہی ایسا ہے جوشرہی شرلاتا ہے وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں تیرے برے اعمال ہوں ، تووہ کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر ۔ مسند امام احمد حدیث نمبر ( 17803 )

کیا واقعی روح کو قبر میں لوٹایا جاتا ہے - وضاحت کر دیں اس کی پلیز
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913





جو حدیث پیش کی گئی ہے - اس طرح ہے - اور اس کی تحقیق جو مجھے ملی ہے اس طرح ہے - اگر کوئی بھی اس پر بات کرنا چاہتا ہے تو جی بسم الله



rooh lotanay wali hadees-1.jpg





مسند احمد بن حنبل --- احمد بن حنبل --- روح کا جسم میں واپس لوٹ آنا
یہ پوری روایت اس طرح ہے -
براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصاری کے جنازے میں نکلے ہم قبر کے قریب پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے پھر سر اٹھا کر فرمایا اللہ سے عذاب قبر سے بچنے کے لئے پناہ مانگو، دو تین مرتبہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بندہ مؤمن جب دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے آس پاس سے روشن چہروں والے ہوتے ہیں آتے ہیں ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی حنوط ہوتی ہے تاحد نگاہ وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے نفس مطمئنہ ! اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف نکل چل چنانچہ اس کی روح اس بہہ کر نکل جاتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے ملک الموت اسے پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے فرشتے پلک جھپکنے کی مقدار بھی اس کی روح کو ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ ان سے لے کر اسے اس کفن لپیٹ کر اس پر اپنی لائی ہوئی حنوط مل دیتے ہیں اور اس کے جسم سے ایسی خوشبو آتی ہے جیسے مشک کا ایک خوشگوار جھونکا جو زمین پر محسوس ہوسکے ۔ پھر فرشتے اس روح کو لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ پر بھی ان کا گذر ہوتا ہے وہ گروہ پوچھتا ہے کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟ وہ جواب میں اس کا وہ بہترین نام بتاتے ہیں جس سے دنیا میں لوگ اسے پکارتے تھے حتی کہ وہ اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور دروازے کھلواتے ہیں جب دروازہ کھلتا ہے تو ہر آسمان کے فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں اگلے آسمان تک اسے چھوڑ کر آتے ہیں اور اس طرح وہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کانامہ اعمال " علیین " میں لکھ دو اور اسے واپس زمین کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے بندوں کو زمین کی مٹی ہی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔چنانچہ اس کی روح جسم میں واپس لوٹادی جاتی ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا علم کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ، اس پر آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا بستر بچھادو اسے جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو چنانچہ اسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتیں ہیں اور تاحدنگاہ اس کی قبر وسیع کردی جاتی ہے اور اس کے پاس ایک خوبصورت لباس اور انتہائی عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔ اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے " اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال " سجین " میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ " پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ، وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔

گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے -











 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



- پہلی بات تو یہ کہ یہ روایت ہی قرآن کے خلاف ہے - قرآن میں الله فرماتا ہے کہ

یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو منجمد خون بنایا اور پھر ہم نے اس منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔ پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے -


(سورة المؤمنون:12 تا 16)

معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، پھر قیامت سے پہلے مرنے والا اس قبر کے اندر کیسے زندہ ہو گیا ؟
در اصل قبر میں مردہ کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت جعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب (رض) سے منسوب کر دی ہے


- اس کی سند دیکھئیے تو اس کے اندر ضعفاء، مجروحین، متروکیں اور شیعہ ملیں گے

اس روایت کا راوی "منھال بن عمرو" اور اس پر جرح
------------------------------------------------------

قُلْتُ: حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ، يَرْوِيْهِ عَنْ: زَاذَانَ، عَنِ البَرَاءِ - (سير أعلام النبلاء، ذہبی، جزء 8، 64-المِنْهَالُ بنُ عَمْرٍو أَبُو عَمْرٍو الأَسَدِيُّ مَوْلاَهُم [خ، 4] الكُوْفِيُّ 9 /211، الناشر:مؤسسة الرسالة)


ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ منھال بن عمرو کی قبر کے معاملہ کے متعلق طویل حدیث میں غرابت اور نکارت پائی جاتی ہے جس کو کہ یہ روایت کرتا ہے زاذن سے اور وہ براء بن عازب سے -


وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ

ابن حزم نے کہا: وہ مضبوط نہیں ہے


(ایضاً)




ترك شعبة المنهال بن عمرو على عمد. قال أبو محمد لانه سمع من داره صوت قراءة بالتطريب


(الجرح و تعدیل، الرازی، جزء 8، 357)

ترجمہ : شعبة نے منھال بن عمرو کو عمداً ترک کر دیا - ابو محمد کہتے ہیں اس لئے کہ ان کے گھر سے گانے کی آواز سنی -

وقال الحاكم : غمزه يحيى بن سعيد . وقال الجوزجانى في الضعفاء : له سيئ المذهب - وكذا تكلم فيه ابن حزم ، ولم يحتج بحديثه الطويل في فتان القبر


(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ذہبی، جزء 4، 8806)

ترجمہ : حاکم کا کہنا ہے کہ منھال کی حثیت یحییٰ بن سعید گراتے ہیں - الجوزجانی نے اپنی کتاب "الضعفاء" میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا - اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کوناقابل احتجاج ٹھرایا ہے


بن معين يضع من شأن المنهال بن عمرو وقال الجوزجاني سيء المذهب وقد جرى حديثه - وقال الحاكم المنهال بن عمرو غمزة يحيى القطان - وقال أبو الحسن بن القطان كان أبو محمد بن حزم يضعف المنهال ورد من روايته حديث البراء


(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 10، 556)

ترجمہ : ابن معین منھال کی شان کو گراتے تھے - الجوزجانی نے کہا کہ وہ بدمذہب ہے.ہرچند کہ اس کی روایتیں بوھت پھیل گئی ہیں - حکیم کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان اس کی شان گراتے ہیں - ابوالحسن بن القطان نے کہا کہ ابو محمد بن حزم اس کو ضعیف گردانتے تھے اور اس کی اس روایت کو جو وہ براء بن عازب (رض) تک پہنچاتا تھا رد کرتے تھے -


اس روایت کا راوی "زاذان " اور اس پر جرح


قال شعبة قلت للحكم مالك لم تحمل عن زاذان قال كان كثير الكلام - وقال بن حبان في الثقات كان يخطىء كثيرا


(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 3، 565)

ترجمہ : شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے الحکم سے کہا کہ آپ زاذان سے کیوں روایت نہیں لیتے-انہوں نے کہا وہ باتیں بہت کرتا ہے - ابن حبان نے کہا کہ بہت غلطیاں کرتا تھا


سلمة بن كهيل عنه ، فقال : أبوالبخترى أعجب إلى منه - وقال أبو أحمد الحاكم : ليس بالمتين عندهم


(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، الذہبی، جزء 2، 2817)

ترجمہ : سلمہ بن کہیل نے کہا کہ ابو البختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں - ابو احمد الحاکم کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک وہ مظبوط نہیں ہے

فيه شيعية -

(تقریب التہذیب، جزء 1، 1982:307/1 - دارالمكتبة العلمية بيروت، لبنان)

ترجمہ : زاذان میں شیعت ہے -
zadan shia hai.jpg


در اصل اسی شیعت کا اظہار زاذان نے زیر بحث روایت میں عقیدہ عود روح کو براء بن عازب (رض) سے غلط طور پر منسوب کر کے کیا ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جسم میں روح کے لوٹائے جانے کا باطل عقیدہ خالص شیعی عقیدہ ہے - ملاحظہ کیجئے شریعت


جعفریہ کی سب سے معتمد علیہ کتاب "الکافی" کا ایک حوالہ


محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم ابن محمد، عن علي بن أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: إن المؤمن إذا اخرج من بيته شيعته الملائكة إلى قبره يزدحمون عليه حتى إذا انتهى به إلى قبره قالت له الارض: مرحبا بك وأهلا أما والله لقد كنت احب ان يمشي علي مثلك لترين ما أصنع بك فتوسع له مد بصره ويدخل عليه في قبره ملكا القبر وهما قعيدا القبر منكر ونكير فيلقيان فيه الروح إلى حقويه فيقعدانه ويسألانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول:
الله، فيقولان: ما دينك؟ فيقول: الاسلام، فيقولان: ومن نبيك؟ فيقول: محمد (صلى الله عليه وآله)، فيقولان: ومن إمامك؟ فيقول: فلان، قال: فينادي مناد من السماء: صدق عبدي افرشوا له في قبره من الجنة وافتحوا له في قبره بابا إلى الجنة وألبسوه من ثياب الجنة


(الکافی، الکلینی، الجزء الثالث، کتاب الجنائز، باب المسألة في القبر ومن يسأل ومن لا يسأل، 239)

ترجمہ : ابو بصیر ابو عبدالله علیہ السلام (امام جعفر صادق) سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا کہ جب مومن کی میت اس کے گھر سے نکالی جاتی ہے تو فرشتوں کا ازدحام ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی قبر تک جاتے ہیں اور جب وہ میت قبر تک پہنچتی ہے تو قبر کی زمین اس کو خوش آمدید کہتی ہے اور گویا ہوتی ہے کہ والله مجھے اس بات سے خوشی ہوتی تھی جب تیرا جیسا کوئی مجھ پر چلتا تھا اب تو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں - پھر وہ اس میت کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور قبر کے دونوں فرشتے جو قبر پر مقرر ہیں اور منکر اور نکیر کہلاتے ہیں، داخل ہوتے ہیں - یہ دونوں اس میت میں حقویہ (دونوں کولھوں) تک روح ڈال کر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے - وہ کہتا ہے الله - پھر سوال کرتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے - وہ جواب دیتا ہے اسلام - پھر دونوں فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا نبی کون ہے - وہ جواب دیتا ہے کہ محمد (ص) - پھر وہ (چوتھا) سوال کرتے ہیں کہ تیرا امام کون ہے - وہ کہتا ہے کہ فلاں - اب امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اس وقت آسمان سے ایک منادی کرنے والا آواز دیتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا - اس کی قبر میں جنت کے فرش بچھا دو اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، اور اس کو جنت کے لباس سے آراستہ کرو-----



زاذان کا اپنے مخصوص فاسد عقیدے کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ محدثین کا یہ اصول بلکل صحیح ہے کہ دیگر روایات کا صادق اللحجہ راوی بھی اگر کوئی ایسی روایت لائے جو اس کے اپنے مخصوص بدعتی عقیدے کی تائید کرتی ہو تو اسے صحیح مذہب کے مقابلے میں رد کر دیا جائے گا -

إن روى ما يقوى بدعته فيرد على المذهب المختار

(نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر، ابن ہجر عسقلانی)

ترجمہ : اور ایسا راوی جو حدیث میں اپنے فاسد عقیدے کی تائید میں روایت لائے تو اسکی یہ روایت رد کر دی جائے گی اور صحیح مذہب برقرار رکھا جائے گا



اور یہ بات یاد رہے کہ "زاذان" کو شیعہ کہنے والے صرف "ابن ہجر عسقلانی" ہی نہیں ہیں بلکہ "ابو البشر الدولابی (المتوفی 310 ھ)" کہتے ہیں کہ زاذان فارسی النسل اور شیعان علی میں سے تھا - (اکمال مغلطائی ٢ / الورقہ ٣١) بشار (ڈاکٹر بشار عواد معروف) کہتے ہیں کہ شیعوں نے اپنی کتابوں میں زاذان کی روایات عطاء بن سائب کے واسطے سے درج کی ہیں - (اس کے لئے ملاحظہ کیجئے الکافی فی القضاء ولا حکام:٢، باب النوادر ١٩ حدیث رقم ١٢، والتھذیب:باب الزیادات فی القضایاوالاحکام، حدیث رقم ٨٠٤) - (تعلیقات تھذیب الکمال، جلد ٩، صفحہ ٢٦٥)

ابو البشر الدولابی کی زاذان کے متعلق اس رائے کے بعد زاذان کا بیان کردہ وہ واقعہ بھی ملاحظہ ہو جو ان کی شیعت کو واضح کرتا ہے - جس کا حوالہ ڈاکٹر بشار عواد معروف نے دیا ہے


الحسين بن محمد، عن أحمد بن علي الكاتب، عن إبراهيم بن محمد الثقفي، عن عبدالله بن أبي شيبة، عن حريز، عن عطاء بن السائب، عن زاذان قال: استودع رجلان امرأة وديعة وقالا لها: لا تدفعيها إلى واحد منا حتى نجتمع عندك ثم انطلقا فغابا فجاء أحدهما إليها فقال: أعطيني وديعتي فإن صاحبي قد مات فأبت حتى كثر اختلافه ثم أعطته، ثم جاء الآخر فقال: هاتي وديعتي، فقالت: أخذها صاحبك وذكر أنك قد مت فارتفعها إلى عمر فقال لها عمر: ما أراك إلا وقد ضمنت، فقالت المرأة: اجعل عليا (عليه السلام) بيني وبينه، فقال عمر: اقض بينهما، فقال علي (عليه السلام): هذه الوديعة عندي وقد أمرتماها أن لا تدفعها إلى واحد منكما حتى تجتمعا عندها فائتني بصاحبك فلم يضمنها وقال (عليه السلام): إنما أرادا أن يذهبا بمال المرأة -


(الکافی، الکلینی، الجزء ٧، كتاب القضاء والاحكام، باب النوادر، ٤٢٨، - ٤٢٩) -

(تھذیب الاحکام، الجزء ٦، كتاب القضايا والاحكام، باب من الزيادات في القضايا والاحكام)

ترجمہ : زاذان کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک عورت کے پاس ایک امانت رکھوائی اور اس سے کہا کہ جب تک ہم دونوں تیرے پاس نہ آئیں واپس نہ کرنا یہ که کر وہ دونوں چلے گئے - پھر ان میں سے ایک آدمی اس عورت کے پاس آیا اور کہا کہ میرا ساتھی مر چکا ہے لہٰذا میری امانت واپس کر دو عورت نے انکار کیا دو ان کے درمیان کافی اختلاف پیدا ہوا آخر کار عورت نے اس شخص کو امانت واپس کر دی - اس کے بعد دوسرا شخص اس عورت کے پاس آ کر اپنی امانت کا تقاضا کرنے لگا تو عورت نے کہا کہ تیرا ساتھی امانت لے جا چکا ہے اور اس نے بتایا تھا کہ تو مر چکا ہے - پھر دونوں عمر (رض) کے پاس پھنچے عمر (رض) نے عورت سے کہا اس کی محض تو ذمے دار ہے - عورت نے کہا کہ اس شخص اور میرے درمیان علی علیہ السلام کو مصنف مقرر کر دیجئے - عمر (رض) نے علی (رض) سے کہا کہ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دو علی (رض) نے کہا کہ میرے نزدیک یہ امانت ہے - تم دونوں نے یہ حکم دیا تھا کہ یہ امانت تم میں سے کسی ایک کو واپس نہ کی جائے یہاں تک کہ تم دونوں اکٹھے ہو جاؤ - بس تم جاؤ اپنے ساتھی کو میرے پاس لے کر آؤ پس علی (رض) نے عورت کو ذمے دار قرار نہ دیا اور کہا ان دونوں آدمیوں نے یہ چاہا تھا کہ اس عورت کا مل غضب کر لیں



ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بیان کر کے زاذان نے امیر المومنین عمر (رض) کے تدبر کی تنقیص اور علی (رض) کی تفضیل کا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے - عمر (رض) کی تنقیص کی یہ جسارت شیعت ہی کا نتیجہ ہے - ابو البشر الدولابی اور ابن ہجر عسقلانی کی زاذان کے متعلق شیعت کی وضاحت سے یہ بات قطعاً ثابت ہوتی ہے کہ ان کی زاذان کے بارے میں یہ رائے حتمی ہے نہ کہ سہو یا فرو گزاشت





 
Top