السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو کافر کہہ دیں اور اس پر کفر کا الزام لگادیں ؟
کیا علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو کافر کہہ دیں اور اس پر کفر کا الزام لگادیں ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی کی تعین کئے بغیر (کسی کفریہ حرکت کی بناپر) کافر قرار دینا شرعاً درست ہے۔ مثلاً یہ کہنا ’’جس مصیبت کاٹالنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی شخص اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے غیر اللہ سے فریاد کرے تو وہ کافر ہے۔ ’’مثلاً کوئی شخص کسی نبی یا ولی سے یہ درخواست کرے کہ وہ اس کے بیٹے کو شفا دے دے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی کی تعین کئے بغیر (کسی کفریہ حرکت کی بناپر) کافر قرار دینا شرعاً درست ہے۔ مثلاً یہ کہنا ’’جس مصیبت کاٹالنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی شخص اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے غیر اللہ سے فریاد کرے تو وہ کافر ہے۔ ’’مثلاً کوئی شخص کسی نبی یا ولی سے یہ درخواست کرے کہ وہ اس کے بیٹے کو شفا دے دے۔
کسی معین شخص کو اس صورت میں کافر کہا جاسکتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کا انکار رکے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص وعام کو معلوم ہوگا۔ مثلاً نماز‘ زکوة یا روزہ وغیرہ۔ جو شخص اس کا علم ہونے کے بعد بھی انکار کرتا ہے اسے کافر کہنا واجب ہے۔ لیکن اسے نصیحت کرنی چاہئے اگر توبہ کر لے تو بہتر ہے ورنہ اسلامی حکمران اس کو سزائے موت دیں۔ اگر کفریہ اعمال کے ارکتاب کے بعد بھی کسی خاص شخص کو کافر کہنا درست نہ سمجھاجائے تو پھر کسی مرتد پو بھی حد نافذ نہیں ہوسکتی۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
اللجنة الدائمة۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
فتویٰ (۵۲۲۶)
فتویٰ (۵۲۲۶)