تفسیر ابنِ کثیر
(تفسیر محمدی)
حصہ اول
سورۂ فاتحہ و سورۂ بقرہ
عماد الدین ابن کثیر
1(تفسیر محمدی)
حصہ اول
سورۂ فاتحہ و سورۂ بقرہ
عماد الدین ابن کثیر
سورۂ فاتحہ
۱بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟
صحابہ نے اللہ کی کتاب کو اسی سے شروع کیا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورہ نمل کی ایک آیت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ اور ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورہ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لئے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور متاخرین کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نازل نہیں ہوتی تھی۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ایک مرسل حدیث میں یہ روایت حضرت سعید بن جبیر سے بھی مروی ہے۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم، حضرت عطا، حضرت طاؤس، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مکحول اور حضرت زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ بسم اللہ ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورہ برات کے۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابو عبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ البتہ امام مالک امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ بسم اللہ نہ تو سورہ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔ امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔ داؤد کہتے ہیں کہ ہر سورت کے اول میں بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔ امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے ابو بکر رازی نے ابو حسن کرخی کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابو حنیفہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔ یہ تو تھی بحث بسم اللہ کے سورہ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔ (صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے واللہ اعلم۔ مترجم)
بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے ؟
اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورہ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورہ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے۔ ان میں اختلاف ہے۔ شافعی رحمت اللہ کا مذہب ہے کہ سورہ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و موخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابن عمر، ابن عباس، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بیہقی، ابن عبدالبر نے حضرت عمر اور حضرت علیسے بھی روایت کیا اور امام خطیب بغدادی نے چاروں خلیفوں سے بھی روایت کیا لیکن سند غریب بیان کیا ہے۔ تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر، حضرت عکرمہ حضرت ابو قلابہ، حضرت زہری، حضرت علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطا، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابو وائل ابن سیرین کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابو شعثا، مکحول، عبد اللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبد اللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرات اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورہ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرات میں اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں۔ اس حدیث کو دار قطنی خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انداز قرات
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سنائی بسم اللہ پر مد کیا الرحمن پر مد کیا الرحیم پر مد کیا۔ مسند احمد، سنن ابو داؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرات الگ الگ ہوتی تھی جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر الحمد للہ رب العلمین پھر ٹھہر کر الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر ملک یوم الدین دار قطنی اسے صحیح بتاتے ہیں۔ امام شافعی، امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو بسم اللہ پڑھی۔ غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لئے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا چاہیے۔ خلفاء اربعہ اور عبد اللہ بن معقل، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہی ثابت ہے۔ ابو حنیفہ، ثوری، احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے بسم اللہ پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند کیا۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو تکبیر سے اور قرات کو الحمد للہ رب العلمین سے ہی شروع کیا کرتے تھے۔ صحیحین میں ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔ مسلم میں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرات کے شروع میں نہ اس قرات کے آخر میں۔ سنن میں حضرت معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ ہے دلیل ان ائمہ کے بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ فالحمد للہ (بسم اللہ کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زوردار ہیں واللہ اعلم۔ مترجم)