توہین رسالت کرتے ہو؟

  • Work-from-home

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
Really niCe Sharing brO​
inSha Allah wO din dOor nahi jab Saray Musalman Aik janday k neeChay hOngay​
kOi firqa bazi nahi hOgi Tab in kufar kO MuSalmanO ki aSal taQat Or iman ka andaza hOga jab yeh munh Chupayeh pirty hOngay Or in kO munh Chupanay ki jaga nahi millay gi​
inShaa Allah​
in sha Allah
 

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
khoub, bohat khoub
baita Allah aap ko khush rakhay aur jaza de[DOUBLEPOST=1348485562][/DOUBLEPOST]فیصلے کا وقت آ گیا ہے
میں بوڑھا بیمار اور کمزور آدمی ہوں۔ بہت بڑے کلیجے اور برداشت کا مالک نہیں ہوں۔ آپ کریم کی ذات گرامی کے لیے تو اور وہ کا صیغہ برداشت نہیں کر سکتا۔ جانتا ہوں میرا دم بند ہو جاءے گا۔ آپ کریم کے حوالہ سے فلم دیکھنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ ہر بات کو الگ رکھیے کسی کا دل دکھانا انتہائ غلیظ ترین حرکت ہے۔ فلم بنانے والے شیطان کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس کی اس حرکت سے اربوں انسانوں کا دل دکھی ہو گا ۔ مسلمانی کو ایک طرف رکھتا یہ تو دیکھتا کہ یہ انسان ہیں اس کی اس حرکت سے انسانوں کا دل دکھی ہو گا۔ پیداءش سے مکاشفہ تک ایک آیت موجود نہیں جو کسی انسان کا دل دکھانے کا راستہ دکھاتی ہو۔ آخر فلم بنانے والے کو ایسا کرنے کیا ضرورت پیش آئ یا ایسا کرنے کے لیے نوٹ دیے گیے۔ نوٹ دینے والے کے یقینا معاشی یا سیاسی عزاءم رہے ہوں گے۔

اگر وہ مسلماں کو دہشت گرد اور اسلامی فلسفہ جہاد کو دہشت گردی سمجھتا ہے تو اس کی لعنتی تحقیق اور سوچ پر افسوس ہے۔ اسلام تو سلامتی کا دین ہے۔ اسلام جانوروں درختوں تک کی سلامتی کا خواہاں ہے۔ اسلام چڑیا کے سے پرندے کو دکھی نہیں کرتا۔ پتہ نہیں اس نے اپنے گریبان میں جھانک کر کیوں نہیں دیکھا۔ کتاب مقدس میں بے گناہوں کی ہتھیا کرنے کے لیے کہاں لکھا ہے جو بچوں بوڑھوں اور عورتوں کے لاشے بچھا دو۔ جس کا باپ بھائ بیٹا ماں کو بدترین اور بلاوجہ اور بےدرد موت دو گے اور پھر اس سے خیر کی توقع رکھو گےتو اس سے بڑھ کر کونسی حماقت ہو گی۔ جو تم کرو وہ ٹھیک اس کیے کا ردعمل دہشت گردی۔ یہ ہر کسی کی سمجھ سے بالاتر رہے گی۔
آپ کریم کی شان میں گستاخی کے حوالہ سے جو ردعمل سامنے آیا عین فطری ہے۔ اسی طرح دنیا کے کسی ملک کا آءین زیادتی کے خلاف احتجاج سے روکتا نہیں۔ پوری اسلامی برادری نے پوری شدومد سے احتجاج کیا ہے۔ اس احتجاج سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئ ہے کہ
١۔ مسلمان آپ کریم سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
٢۔ اسلام اور ہادی کریم کے حوالہ سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے بلکہ ایک ہیں۔ اس ذیل میں کہیں اور کسی سطع پر رائ بھر اختلاف موجود نہیں۔
٣۔ ہمت والے ہیں ڈٹ سکتے ہیں۔
٤۔ اس ضمن میں کسی لین دین اور مصلحت کا شکار نہیں ہو سکتے بلکہ جان تک سے گزر سکتے ہیں۔
٥۔ مسلمانوں کے اتحاد کی قابل فخر اور تاریخی مثال سامنے آئ ہے۔
٦۔ یہ اگر کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں دنیا کی کوئ طاقت ان کے ارادوں کے سامنے سد راہ نہیں بن سکتی۔
٧۔ مسلم کش دمبی سٹی اور نمرودی قوتوں پر یہ واضع ہونا ضروری تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ اب خاموشی ہو جانی چاہیے کہ احتجاج ریکارڈ میں آ گیا ہے یا مزید اقدام کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہ مسلم کش دمبی سٹی اور نمرودی قوتوں پر اس کیا اثر ہوا ہے اور اسلامی برادری کے ہاتھ کچھ لگا ہے۔ چکنے گھڑے پر کیا اثر ہو
گا یہ ازلی جوٹھیں ہیں کل اس احتجاج کے ردعمل میں کچھ کرنے کے لیے کوئ دوسرا رستہ اختیار کریں گی۔ اب خاموشی اس سے بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اس احتجاج سے مسم برادری کا اربوں کا نقصان ہوا۔ گیس نہ ہونے کے سبب روزے کی سی حالت سے گزرنا پڑا۔ مارکیٹیں ان کی بند رہیں ان کا کیا بگڑا۔
میں یہ نہیں کہتا اسلامی برادری کے حکمرانوں میں غیرت ایمانی نہیں۔ یہ بڑے غیرت والے لوگ ہیں۔ بےغیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیع دینے والے لوگ ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اسلامی سربراہی کانفرس کا انعقاد ہو گا۔ وہ یقینا موجودہ معاملہ کے حوالہ سے انتہائ غیرت مندانہ اقدام کا فیصلہ کریں گے اور آتے وقت کے لیے کوئ ٹھوس حکمت عملی تجویز کریں گے۔
اسلامی برادری مغربی اشیاء مصنوعات کا باءیکاٹ کرے۔ اپنی سوکھی کو پرائ چوپڑی پر ترجیع دیں۔ الله کی بنائ کاءنات متبادلات سے خالی نہیں لہذا وہ دیانتداری سے تلاش کا عمل تیز کر دیں۔ چین ہمارا بہترین دوست ہے اس کی اشیاء اور مصنوعات کا ہر سطع پر استعمال کیا جاءے۔چینی اشیاء مصنوعات سستی ہیں۔ یہ کاروباری شوشہ ہے کہ وہ پاءیدار نہیں ہیں۔ اسلامی برادری کے ہر فرد کو طے کرنا ہو گا کہ جو امریکہ میڈ اشیاء استعمال میں لاءے گا وہ سوءر کی اولاد ہو گا۔ اس کے حرامدہ (حرامزادہ) ہونے میں رائ بھر شک کرنا بھی حرامزادگی کے زمرے میں آءے گا۔

دہشت گردی کے نام پر ہونے والی نام نہاد دہشت گردی میں امریکہ کی سر پیڑ امریکہ کے لیے رہنے دی جاءے۔ جن لوگوں کو ہر حوالہ سے برباد کیا گیا۔ ان کے اقارب اور چھوٹے بچوں کو مامے خاں نے بلاجرم موت کے گھاٹ اتارا قصاص طلب کیا جاءے اور اس ذیل میں ہر قسم کے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا جاءے۔ صرف یہی نہ دیکھا جاءے کہ یہ کیا کر رہے ہیں یہ بھی دیکھا جانے زمین کا ماما کیا کر رہا ہےاور کیا کرتا آیا ہے۔
تعلیمی نظام کو مغرب کا غلام نہ بنایا جاءے بلکہ اسے اپنے زمینی حالات ضرورت کے مطابق ڈھالا جاءے۔ یہ ایک کھلی بکواس ہے کہ مغرب کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ جو دماغ خرچ کرے گا اور اپنے دماغوں کو استعمال میں لاءے گا ترقی کرے گا۔ کپڑوں کے مختصر کر دینے سے ترقی نہیں ہو گی۔ محنت کوشش اور جستجو سے ہی ترقی ہو سکے گی۔
نمرودی شدادی اور یزیدی قوتوں کو خام مال اورافرادی قوت کی فراہمی بند کر دی جاءے۔ اسلامی برادری کے تیل کے کنووں کو آزاد کرایا جاءے۔ آقا کریم کے دشمنوں کو تیل کی ایک بوند فراہم کرنا جرم عظیم ہے۔
شکار مسلم علاقوں کی آزادی کے لیے کوششیں کی جاءیں۔ وہاں کے لوگوں کو اپنی جدوجہد ناصرف جاری رکھنی چاہیے بلکہ تیزتر کر دینی چاہیے۔ آزادی قربانی مانگتی ہے۔

مسلم برادری کے رابطے کی اپنی ایک زبان ہونی چاہیے۔ ہندوی (اردو+دیوناگری+رومن) اس وقت دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے اور اس کا ساؤنڈ سسٹم دنیا کی ہر زبان سے اچھا ہے اس لیے یہ مسلم برادری کے رابطے کی زبان بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یا کوئ بھی زبان طے کر لینی چاہیے اور اسے انگریزی کی جگہ بطور لازمی مضموں پڑھایا جاءے۔
اسلامی برادری کی سربراہی ایران ایسی آزاد مملکت کے حوالے ہونا آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس معاملے کوئ بھی سب کے لیے قابل قبول متفقہ طور پر رستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کو اب جاگ جانا چاہیے اور ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ علماء کو تفریق کے دروازوں کو بند کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لوگوں کو اسلام سے مت نکلالیں بلکہ داخل کریں۔ اسلام کو گٹوں اور مونچھوں کی قید سے باہر لایا جاءے۔ اگر آج مسمان نیند سے نہ جاگے تو آتے وقتوں میں ان کا اس سے بھی برا حال ہوگا۔ غنڈے کے سامنے میں میں کرو گے تو وہ اور سر پر چڑھے گا۔ آنکھیں دکھاؤ گے تو میدان چھوڑ دے گا۔[DOUBLEPOST=1348486142][/DOUBLEPOST]انسان کیڑے مکوڑے نہیں
انسان کسی حادثے واقعے معاملے فکری اور نظریاتی اختلاف وغیرہ کے حوالہ سے جذباتی ہو جاتا ہے اور یہ کوئ غیر فطری بات نہیں۔ ناگہانی صورت ہو تو ردعمل میں کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ عمومی حالات میں سوچ سمجھ سے کام لیتا ہے۔ جذباتی حالت میں بھی سوچتا ہےلیکن سوچ کی سطع عمومی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ شخص کا معاملے سے تعلق اور واسطہ کس سطع کا ہے۔
جذبات کو انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسان جذبات سے عاری ہو گیا تو اس میں اور مشین میں کوئ فرق نہیں رہ جاءے گا۔ تاہم مکمل طور پر جذبات کی انگلی پکڑنا درست نہیں۔
آج اخبار میں اوباما اور ہلیری کے بیان کی سہ سرخی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں کے بیانات ایک دوسرے سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں۔ اوباما کا کہنا ہے امریکی شہریوں کو نقصان پہنچانے والوں کا پیچھا کریں گے جبکہ ہلیری کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہروں کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ اصل ضرورت یہ تھی کہ کہا جاتا اسلامی دنیا تحمل اور برداشت سے کام لے ہم اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیں گے۔ چاہے یہ محض بیان ہوتا۔ لوگ سمجھتے کہ امریکی قیادت انسان دوست اور جمہوریت پسند ہے۔ اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ہم جو بھی چاہیں کریں یا کہیں اس کے ردعمل میں کسی کو کچھ کرنے یا کہنے کا حق حاصل نہیں۔ ہلیری کے مطابق یہ کوئ بات ہی نہیں جو مرضی کہا ہا کیا جاے۔ دونوں کے بیانوں میں کرختگی اوروں کے دکھ سکھ نظریات سے کوئ تعلق نہیں۔
ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کس قدر جذباتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے جذبات کا ان دل میں رائ بھر احساس اور احترام نہیں۔ وہ ان کے ہاتھ اور زبان سے مریں یا جیءیں یہ ان کی سردردی نہیں۔
گویا یہ سارے کیڑے مکوڑے ہیں اور ان کے نزدیک کوئ حثیث نہیں رکھتے۔ اوباما یا ہلیری کی بڑی دور کی بات ہے اسلامی دنیا پر چھوڑے گیےخنزیر پر اسلامی دنیا گرفت کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ اس خنزیر پر جو گرفت کرنے کی کوشش کرے گا اس کا پیچھا کیا جاءے گا۔ انسان دوست امریکہ اپنوں کے لیے کتنا جذباتی ہے اوباما کے بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کھلا جذباتی بیان ہے لیکن چمچے اس کی سو طرح سے تشریح و تفہیم کریں گے حالانکہ ان دونوں کے بیانات میں رائ بھر ابہام نہیں۔
میری تحریر “فیصلے کا وقت آ گیا ہے“ کو جذباتی تحریر کا نام دیا گیا ہے۔ میں نے اس تحریر کو پورے ہوش و حواس سے قلم بند کیا ہے۔ میں عمر کے جس حصہ میں ہوں وہاں ہوش مندی کو زیادہ دخل ہوتا ہے تاہم غلطی کے امکان کو رد نہیں کر سکتا۔ میں نے معاملے کا تجزیہ دلاءل سے کیا ہے۔ کیا یہ سچی باتیں نہیں ہیں۔ احتجاج حق تھا کیا گیا ۔ اس کا کیا اثر ہوا اوباما اور ہلیری کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے گویا یہ احتجاج ان کے لیے معنویت سے تہی ہے۔ اوباما کے بیان سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلامی برادری کے مجرم کو نقصان دینےوالے پر بھی گرفت ہو گی۔ یعنی اس کیا غلط نہیں۔
میں جانتا تھا کہ اس قسم کی باتیں معنویت نہیں رکھتیں۔ میں نے اسی تناظر میں تجاویز پیش کی تھیں۔ وقت حالات معاملات نے واضح کر دیا ہے کہ یہ باتوں سے سمجھنے والی جنسں کب ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے ان سے لین دین رکھنا انتہائ خسارے کا سودا نہیں ۔ جرم کرنے والا جرم کرانے والا جرم کی صلاح دینے والا مجرم کی مدد کرنے والا مجرم کی ہاں میں ہاں ملانے والے بذات خود مجرم نہیں ہیں۔ اوباما اور ہلیری بذت خود مجرم ہیں ان پر بھی‘ وہی تعزیر بنتی ہے جو فلم بنانے‘کردار ادا کرنےاور فلم کا مواد تخلیق کرنے والے پر بنتی ہے۔

نفرت کو جبر سے ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے جب معاملہ حد تجاوز کر جاتا ہے تو سونامی بن جاتا ہے۔ سونامی کی راہ میں دیوار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ امریکہ آج طاقت کے نشہ میں سرشار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ چونٹیاں اور کیڑے مکوڑے ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ آمر آج سے پہلے بھی یہی سوچتے آءے ہیں ان کی اس سوچ نے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ طاقت لگام میں رہے تو ہی کامیاب رہتی ہے۔ مست ہاتھی مول میں کتنے کا کیوں نہ رہا ہو موت کا لقمہ بنتا ہے۔ امریکی دانشور اہل سیاست اور بااثر طبقے اس مدے پر سنجیدگی سے غور کریں اور گورا ہاؤس مکینوں کو مشورہ دیں کہ وہ حد تجاوز نہ کریں۔ انسانوں کو کیڑا مکوڑا سمجھنے کی بجاءے انسان سمجھیں اس میں ان کی اور دوسروں بھلائ ہے۔
 

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
زندگی کے پہیے کی درستی کرتے جان دینا انبیاء کی سنت ہے

بلور ذاتی طور پر کیسے ہیں‘ ان پر عدالت میں کتنے اور کس نوعیت کے کیس ہیں میں نہیں جانتا اور میرے موضوع کا اس سے کوئ تعلق نہیں۔ ان کا بیان سیاسی ہے مجھے اس کی خبر نہیں کیونکہ دلوں کے حال صرف اور صرف الله ہی جانتا ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ان کا بیان ایک سچے اور کھرے مسلمان کا ہے یہاں تک کہ ان کے مطابق وہ ناموس رسالت کے لیے جان سے بھی گزرنے کے لیے تیار ہے۔ مجھے تو بہر طور ان کے ہر لفظ میں آقا کریم کی سچی محبت نظر آتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سیاست وزرات امارت کی اس ذیل میں کی کوئ پرواہ نہیں۔
جن دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے ان کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بیان سے حکومتی حلقوں کو پوٹیاں لگ گئ ہیں اور ان کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا عجیب لوجک ہے۔ کیا وہ موجودہ سرکار سے متعلق نہیں۔ سرکاری ذمہ دار عہدے دار کی کوئ بات ذاتی نہیں ہوتی اسے سرکاری ہی سمجھا جاتا ہے اور سمجھا بھی جانا چاہیے۔
امام کعبہ فلم بنانے والے کو دوسرا سلمان رشدی قرار دے چکے ہیں۔ سلمان رشدی کے لی دیا گیا فتوی ریکارڈ میں ہے۔ اس حوالہ وفاقی وزیر ریلوے کا بیان کس طرح غلط ہے۔ انھوں عین شرع کے مطابق کام کیا ہے۔
جعمہ کے روز سرکاری چھٹی دی گئ تاکہ لوگ مغربی قیادت کے اس فعل کی اپنے اپنے انداز سے مذمت کر سکیں اور سراپا احتجاج کا رستہ اختیار کریں۔
کس احتجاج کس طرح ہوا یہ باالکل الگ سے بحث ہے۔

وہ چھٹی کا اعلان محض ٹوپی ڈرامہ اور سیاست چمکانے کا ذریعہ سمجھا گیا اور اپنی حکمت کے وزیر کی کہی بات کو غیر سرکاری کہا جا رہا ہے۔

الله کا ڈر اور آقا کریم کی محبت پر غیر الله کا ڈر غالب آ گیا ہے۔ زمینی خدا عزت نہیں دے سکتے ہاں ذلت کی دلدل میں ضرور دھکیل سکتے ہیں۔ رزق بھی ان کے ہاتھ میں نہیں۔ رازق صرف اور صرف الله کی ذات گرامی ہے۔ ماں کے پیٹ میں زمینی خدا رزق بھجواتے ہیں۔ پیدایش کے فورا بعد دودھ اور شہد کی دو نہریں جاری کرنے وا لا صرف اور صرف الله ہی ہے۔ جب عزت ذلت رزق الله کے ہاتھ میں ہے تو ڈنڈی مار زمینی خدا کی خدائ کو ماننا کیا خود اپنے ساتھ ظلم نہیں ہے۔

مسلمانی کے لیے الله کو الله ماننا اور آقا کریم کی رسا لت کو دل و جان سے تسلیم کرنا لازم ہے تو یہ کس طرح کی مسلمانی ہے جو ان جعلی خداؤں کی گھرکی سے لوٹا ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹ رہا۔ یہ لوٹا ہولڈر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے موجودہ پوزیشن کے ساتھ قاءم داءم رہیں گے۔ کوئ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کوئ آج تو کوئ کل یہاں سے جانے والا ہے۔ ٹیپو نے کہا تھا شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندی سے بہتر ہے۔ وہ آج بھی زندہ ہے اور کل بھی دلوں میں زندہ رہے گا۔ بزدل اور پیٹ کا بندہ زندہ ہو کر بھی زندہ نہیں ہوتا۔ بلور صاحب دلوں کے صاحب بن کر ابھرے ہیں اور یہی زمین کی سرخروئ ہے۔
مغرب کی قیادت انسانی حقوق اور آزادی کا رولا ڈالتی رہتی ہے۔ یہ کیسی انسانی حقوق کی پاسداری ہے جو کرڑوں انسانوں کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ ان کے جذبات مجروع کرتی ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جو اوروں کے نظریات اور جذبات کا قتل کرتی ہے۔ ڈسٹرب کرنے اور امن وسکون برباد کرنے والے پر کوئ کرفت نہیں۔ اس کے خلاف بات کرنے والا مجرم ہے۔ اگر اسے کھلی چھٹی دیے رکھنا ہے تو مذمتی بیان داغنے کی کیا ضرورت ہے۔
برطانیہ کا کہنا ہے انتہا پسند کو بردشت نہیں کریں گے۔ انتہا پسندی کی یہ دہری تعریف سمجھ سے بالاتر ہے۔ زمین کا امن و سکون برباد کرنے والا انتہا پسند نہیں اور وہ ہر قسم کی تعزیر سے بالاتر ہے۔ گویا تھپڑ مارنے والا درست ہے جوابی کاروائ کرنے والا مجرم یعنی انتہا پسند ہے۔ آتی نسلیں اس دہری تعریف کو لعنتی قرار دیں گی۔ ڈراون حملوں سے لوگوں سے زندگیاں چھین لینے والا انتہا پسند نہیں۔ اس کے فعل بد کی مذمت کرنے والا انتہا پسند ہے۔
جب چور درستی اور گھر والا مجرم ٹھہرے گا تو زندگی کا پہیہ الٹا چلنے لگے گا۔ کچھ بھی درست نہیں رہے گا۔ انبیاء کرام ذندگی کے پہیے کی درستی کے لیے تشریف لاتے رہے۔ انھیں صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بہت سے شہید بھی ہوءے۔ گویا زندگی کے پہیے کی درستی کے کام کے حوالہ سے مرنا انبیاء کی سنت ہے۔ اگر آج پیٹھ دکھائ گئ تو حقیقی اتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ وہ اس سے بڑھ کر ایسی مذموم حرکتیں کریں گے۔ آج ہماری لیڈر شپ کو شیر بننا پڑے گا اور بلور صاحب کے بیان کو سرکاری بیان تسلیم کرنے میں کوئ عار نہیں سمجھنی چاہیے۔ ان کے باہر اقامت رکھنے والے بچوں کو کچھ نہیں ہو گا کیونکہ الله سے زیادہ حفاظت کرنے والا کوئ نہیں۔
اسی طرح ادھر پڑی قوم کی لوٹی اور اب ان کی رقوم کو خطرہ ہے۔ الله سے زیادہ دینے والا کون ہو سکتا ہے۔ اس کے دینے کے ان حد رستے ہیں۔ آقا کریم کی شان اور قومی عزت سے بڑھ کر دولت اور زندگی کیسے بالاتر ہو سکتی ہے۔ اصل مسلہ یہ ہے کہ وہ خود کو اس قوم کا سمجھیں وہ اپنا شمار مغربی دنیا میں کرتے ہیں۔
ن لیگ کی قیادت نے معاملے کو بین الا قومی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قابل تحسین فیصلہ ہے۔ اپنا نقطہ نظر تو پیش ہونا چاہیے۔ اس حوالہ سے مجرم کو انسانی حقوق کا قاتل تو قرار دینے کی سعی کی جا سکتی ہے۔ اس سے آءندہ اس قسم کی مذموم حرکات کی راہ میں دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے۔
 
  • Like
Reactions: i love sahabah

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
اپنے قدموںپر کھڑا ہونا پڑے گا

کمزور طبقے ہمیشہ سے ورکنگ بیز سے بھی کمتر حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ شہد وہ مہیا کرتے ہیں لیکن لیڈر پھنڈر بیر اور کوءین پھنڈر بی کا موجو لگا رہتا ہے۔ مصلحین اور انبیاء کرام توازن پیدا کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں زیادہ تر کمزور طبقے ہی ان کے حامی ہوے جبکہ لیڈر پھنڈر بیز اور کوءین پھنڈر بی نے ان کی مخالفت کی۔ ان کی جانیں تک لے لیں۔ مصلیحین اور انبیاء کرام کے پاس کوئ فوج نہیں تھی اور ناہی انھوں نے حملہ میں کبھی پہل کی۔
سقراط کوئ کون سا فوجیں ساتھ لیے پھرتا تھا۔ گلیوں میں ننگے پاؤں چلتا پھرتا راستی کی باتیں کرتا تھا۔ لیڈر پھنڈر بیز اور کوءین پھنڈر بی کا مسلہ یہ تھا کہ شہد دے کر جوتے صاف کرنے والے ہاتھ سے نکلتے تھے۔ انہیں اپنا ٹہر ٹپا ختم ہوتا نظر آتا تھا۔ راستی کیا ہے یا اس کی افادیت سے نیل کنٹھ کو کوئ غرض نہیں ہوتی۔ وہ خوب خوب جانتے تھے کہ وہ پھنڈر ہیں اور ان کا ٹہکا مصلحین اور انبیاء کرام کھوہ کھاتے ڈال رہے ہیں گویا وہ آسمان سے زمین پر آ جاءیں گے۔ ان کی اصلیت کا باقی ماندہ کو بھی علم ہو جاءے گا۔ اس ذیل میں وہ آخری حد تک گیے ہیں۔ بےشمار بےگناہوں کے سر تن سے جدا ہوتے رہے ہو رہے ہیں اور خدا معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
یہ جانتے ہوءے بھی کہ یہ رستہ موت کی طرف جاتا ہے۔ مخلصین مصلحین اور انبیاء اس راہ پر چلتے آءے ہیں زہر ہو کہ صلیب اپنی معنویت میں صفر سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ ہاں البتہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں جس دن یہ برابر ہو گءیں اس روز قیامت برپا ہو جاءے گی۔ لیڈر بیز میں کچھ شہد اگلتی ہیں۔ وہ بہکاوے میں نہیں آتیں اور ناہی خط پھاڑنے کا جرم کرتی ہیں۔ الله انہیں عزت اور شان سے نوازتا ہے۔ لیڈر پھنڈر بیز کے گن گانے والا مورکھ بھی انہیں نظر انداز نہیں کر پا تا۔ الله اس نوع کی لیڈر بیز کو امرتا سے سرفراز فرماتا ہے۔ گویا دنیا اور آخرت کی سرفرازی ان کے حصہ میں آتی ہے۔
ہمارے ہاں بہت سووں میں سے یہ سرفرازی غلام بلور کے مقدر کا حصہ بنی۔ اب سردار سلیم حیدر وزیر مملکت کے نصیب میں یہ ٹرافی آئ ہے۔ انہوں نے کوءین پھنڈر بی کا پتلا جلانے اور نعرہ بازی کے جرم کی پاداش میں پاڑٹی کی طرف سے تادیبی کاروائ کی خبر سنائ گئ ہے۔ سردار سلیم حیدر نے بھی موت سے نظریں ملاتے ہوءے اپنے موقف اور کءے کو درست قرار دیا ہے۔ موت آقا کریم (آپ کی خدمت میں ان حد درود و سلام) کی حرمت کے سامنے کیا معنویت رکھتی ہے۔ان کی محبت میں ایسی لاکھوں زندگیاں قربان کرنا بے بدل اعزاز سے کسی طرح کم نہیں۔ بےشک الله کے پاس راستی کا رستہ اختیار کرنے والوں کے لیے بڑا ہی اجر ہے۔ انٹرنیٹ پر نام نہاد شاعری ڈاٹ کوم جیسے فورم لیڈر پھنڈر بیز کے گماشتے موجود ہیں جو دکھلاوا تو کرتے ہیں لیکن کوءین پھنڈر بی کی شان میں ایک کلمہ برداشت نہیں کرتے۔ ہاں البتہ منہ زبانی جان قربان کرنے کی بڑکیں مارتے ہیں۔
ایک شخص اپنا نام صادق مسح بتاتا ہے لیکن کام حضرت عیسی مسیح کی محترم تعلیمات کے برعکس کرتا ہے اور عیسائ ہونے کا دعوی بندھتا ہے۔ اسے عیسائ مان لیں مگر کیوں اور کس بنیاد پر۔ ایک شخص اپنا نام نور محمد بتاتا ہے لیکن کھڑا محمد (آپ کی خدمت میں ان حد درود و سلام) دشمنوں کی صف میں ہوتا ہے اس کو کیوں اور کس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جاءے۔ ایمان کے لیے تین شراءط ہیں زبان سے اقرار کرنا دل سے تسلیم کرنا اور اس کےمطابق عمل کرنا۔ آقا کریم کا پیرو کار الله کے سوا کسی کو الله نہیں مان سکتا۔ یہی اس کے محمدن ھونے کی نشانی ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے یہ پہلی اورآخری شرط ہے۔
لیڈر پھنڈر بیز اور معاون لیڈر پھنڈر بیز زبان سے دعوے باندھتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں کوءین پھنڈر بی کے لیے کرتے ہیں ان کا ہر کرنا کوءین پھنڈر بی کی شرع کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جو عمل‘ کہے کے مطابق کرتے ہیں ان کے لیے تادیبی کاروائ کا دفتر کھل جاتا ہے۔
کوءین پھنڈر بی کی گماشتہ اور معاون گماشتہ قوتوں کے سامنے سینہ تان کر غلام بلور اور سردار سلیم حیدر کھڑے ہو گءے ہیں۔ وہ نا صرف اپنے کیے کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ قاءم اور اس کہے اور کیے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس پختہ ایمانی کردار کی تحسین کرنا اور ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونا حق پرست طبقوں کا فرض عین ٹھہرتا ہے۔ اگر اس موقع پر صاحب ایمان مگر کمزور طبقوں نے پیٹھ دکھائ تو یاد رکھیں اب آسمان سے موسی کلیم الله اترنے کے نہیں۔ آج لوگوں کو اپنے قدموں پربہر صورت کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس معرکہ حق و باطل میں کوءین پھنڈر بی سے نجات صاصل کرنے کا موقع ہے۔ بصورت دیگر کوءین پھنڈر بی اور اس کی معاون پھنڈر بیز ان کا گوشت کیا ہڈیاں بھی چبا جاءیں گی جبکہ آتی نسل کا حشر آج سے بدتر ہو گا۔
 

Hiba_samya

Newbie
Oct 1, 2012
39
17
58
30
RWp
jazak
توہین رسالت کرتے ہو؟


گوہر ملسیانی
اے ظالم، جابر انسانوں! اے جام نجس کے دیوانو!
اے شمع ہوس کے پروانوں! اے عقل وخرد سے بیگانو!
اخلاق سے عاری نادانوں! اے بے خبر، اے شیطانو!
اے کافر، مشرک فرزانوا! توہین رسالت کرتے ہو؟
اس فعل شنیع کا مغرب میں ڈنمارک سے آغاز ہوا
اک ارذل، فاسق اہل قلم، بدبخت ہے،بندۂ آز ہوا
تضحیک ہے جس کی خصلت میں بدخو وہ شعبدہ باز ہوا
ان سب سے کہہ دو حیوانو! توہین رسالت کرتے ہو؟
انجام کو اک دن پہنچے گی، اے مغرب والو یہ دنیا
اعمال ترازو میں ہوں گے، سب دیکھیں گے سچا جھوٹا
پھر بول اٹھے گا محشر میں، فن کار کا اک اک فن پارہ
لو اپنی خباثت پہچانو! توہین رسالت کرتے ہو؟

ALLlah......very nice ji:D
 
Top