تیرا نمبر مشکل ہے

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
جناب نوازشریف خوشگوار موڈ میں ایک بار پھر لندن روانہ ہوئے۔ مگر جانے سے پہلے حکومت کو مصروفیات فراہم کرنا نہیں بھولے۔ ایک تجویز انہوں نے میڈیا بریفنگ میں پیش کی کہ حکومت دہشت گردی کے سوال پر ایک کل جماعتی کانفرنس طلب کرے۔ مگر واپسی کی تاریخ دیئے بغیر لندن روانہ ہو گئے۔ حکومت کی مصروفیت یہ رہے گی کہ اب وہ کانفرنس بلائے‘ تو کب بلائے؟ ہفتہ دس دن تو بالکل کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ ملک کی دوسری بڑی جماعت کے لیڈر دستیاب ہی نہیں ہوں گے۔اصولاً سب سے پہلے تاریخ ان سے لینا پڑے گی۔ اس کے بعد ہی دوسرے رہنماؤں کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔ سب کی اپنی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے نوازشریف کی تجویز کردہ تاریخ‘ کئی دوسرے لیڈروں کے لئے موزوں نہ ہو۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ نواز شریف نے کونسا کام وزیراعظم کے سپرد کیا ہے؟ یہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ ملازمت کے ایک امیدوار نے بھاری تنخواہ کا اشتہار پڑھ کر‘ زبردست سفارش کے ساتھ مشتہر سے رابطہ قائم کیا۔ انٹرویو کا وقت لیا۔ بھاری تنخواہ طے ہو گئی اور جب کام پوچھا گیا‘ تو جواب ملا ”آپ کا کام یہی ہے کہ اپنی تنخواہ پوری کرنے کے طریقے سوچیں۔“ جناب نوازشریف کی عدم موجودگی میں وزیراعظم ہاؤس کا کام یہی رہے گا کہ وہ کانفرنس کی تاریخ طے کرنے کا کام تب تک جاری رکھیں‘ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوجاتی۔دوسرے کئی کام انہوں نے وزیراعظم کو لکھے گئے ایک خط میں ان کے ذمے لگا دیئے ہیں۔ میں یہ خط اب تک نہیں پڑھ سکا لیکن خبر کے مطابق انہوں نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ وہ کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں پہلے یقین حاصل کریں کہ قابل نفاذ ہیں۔ یہ نہ ہونے والا دوسرا کام ہے۔ مختلف الخیال رہنماؤں کو اکٹھا کر کے اس طرح کے فیصلے حاصل کرنا‘ جو پوری طرح قابل نفاذ ہوں‘ خوابوں کی تعبیر کی طرح مشکل ہے۔ کانفرنسوں میں کئے گئے فیصلوں کا 50 فیصد بھی قابل نفاذ ہو تو اسے کامیابی کہا جاتا ہے۔ سوفیصد قابل نفاذ فیصلے اور وہ بھی مختلف الخیال رہنماؤں کی ایک کانفرنس میں؟ایسے کام فرینڈلی اپوزیشن ہی تجویز کر سکتی ہے۔
نوازشریف کی لندن روانگی سے پہلے حکومت اور (ن)لیگ کے درمیان ایک مباحثہ شروع ہے۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی صفوں میں خودکش بمباروں کی نشاندہی کرکے‘ مطالبے کر رہی ہیں کہ انہیں اپنی صفوں سے نکالو۔ اب تک بحث ایک دوسرے کی طرف سے نامزد خودکش بمباروں کے درمیان چل رہی ہے۔ (ن) لیگ والے رحمن ملک اور بابر اعوان کو خودکش بمبار کہہ رہے ہیں اور جواب میں خواجہ ضیاالدین اور رانا ثنا اللہ کو خودکش بمبار کہا جاتا ہے۔ اب نوازشریف اس بحث میں کود پڑے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی والوں نے کہہ دیا کہ سب سے بڑے خودکش بمبار خود نوازشریف ہیں‘ تو انہیں جھٹلانا مشکل ہو گا۔ دو طرفہ طور سے نامزد خودکش بمباروں نے ابھی تک ایسی کوئی واردات نہیں کی‘ جو نوازشریف دو مرتبہ کر چکے ہیں۔ پہلے انہوں نے غلام اسحق خان کے خلاف محاذکھول کے ان پر خودکش حملہ کیا اور وزارت عظمیٰ کے پرخچے اڑا کے گھر جا بیٹھے۔ دوسری مرتبہ گھر بھی نہ جا سکے۔ اپنے ہی مقرر کردہ چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف محاذ کھولا۔ ان پر بھی خودکش حملہ کر دیا اور اس بار گھر کے بجائے جیل چلے گئے۔ خود کش بمبار‘ چند درجن یا چند سو انسانی جانیں یا محدود مالی نقصان کرتا ہے۔ نوازشریف نے پہلے خودکش حملے میں تیزرفتاری سے ترقی پذیر معیشت کو جو انہی کی پالیسیوں کا نتیجہ تھی‘ ایسا دھچکا لگایا کہ پاکستان دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں ہونے والا مالی نقصان اربوں کھربوں تک پہنچتا ہے اور ترقی کی رفتار کم ہونے سے لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے اور ہزاروں فاقوں سے مرنے لگے۔ کیا کسی خودکش بمبار نے اتنا بڑا نقصان کیا ہے؟ دوسرے خودکش حملے میں انہوں نے پاکستانیوں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دھماکہ کیا۔ جس کے بعد ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد ہی اٹھ گیا اور ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں بیرونی پابندیوں کے ساتھ زرمبادلہ کے نجی ذخیروں پر قبضے نے‘ سارا معاشی ڈھانچہ ہی اڑا کے رکھ دیا اور چیف آف آرمی سٹاف کو اڑانے کے لئے انہوں نے جو خودکش حملہ کیا‘ اس کے نتیجے میں پاکستان 9 سال کے لئے آمریت کی تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ یہ نوازشریف کے خودکش حملے کا نتیجہ ہی تھا کہ آمریت کے زمانے میں خودکش حملوں کی لعنت پاکستان میں داخل ہوئی اور ہمارے شہر دہشت گردی کا نشانہ بننے لگے۔ میں جب ملک کی دونوں بڑی جماعتوں میں بیٹھے خودکش حملہ آوروں کے نام پڑھتا ہوں تو مجھے ہنسی آتی ہے کہ ملک کے سب سے نامور اور عظیم خودکش حملہ آور کے ساتھ کیوں ناانصافی ہو رہی ہے؟ خواجہ ضیاالدین ہوں یا رانا ثنا اللہ‘ بابر اعوان ہوں کہ رحمان ملک‘ یہ میاں صاحب کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ یہ بیچارے خودکش حملوں کی کوشش ضرور کرتے ہیں‘ مگر کامیابی ان کے نصیب میں نہیں لکھی۔ لکھی بھی ہو گی‘ تو وہ میاں صاحب کے مقابلے کی نہیں ہو سکتی۔مجھے نہیں معلوم میاں صاحب نے ماضی سے کیا سبق سیکھا؟ ڈرتا ضرور رہتا ہوں کہ اگر وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے‘ تو ان کا اور ہم سب کا کیا بنے گا؟ میاں صاحب لندن روانہ ہوتے ہوئے عمران خان کو طعنہ دینے سے نہیں چوکے۔ فرمایا ”عمران خان 90 دن میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کر سکتے۔“ بظاہر یہ ایک ذاتی حملہ لگتا ہے۔ لیکن عمران خان ان دنوں میاں برادران پر جو ذاتی حملے کر رہے ہیں‘ ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ میں سیاست میں ذاتی حملوں اور نجی زندگی زیربحث لاتا رہا ہوں۔ مگر ایسا صرف انتخابی مقابلوں کے درمیان کیا جاتا ہے‘ نارمل سیاسی حالات میں نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نوازشریف اور عمران خان دونوں نے انتخابی معیار کی لڑائی شروع کر دی ہے۔ عمران انہیں دولت کے طعنے دیتے ہیں اور نوازشریف ان کی ناکام ازدواجی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بالواسطہ کہتے ہیں کہ”جو کئی سالوں میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کر سکا‘ وہ 90 دنوں میں ملک کیسے ٹھیک کرے گا؟“ لگتا ہے اگلے انتخابی معرکے میں ایسے ہی موضوعات پر تماشہ لگے گا۔
میرا خیال ہے (ن) لیگ اور عمران پارٹی‘ مڈٹرم الیکشن کے لئے ”امید سے ہیں“۔ اگر ان کا انحصار جعلی ڈگریوں پر ہے‘ تو شاید یہ امید پوری نہ ہو۔ جتنے اراکین اسمبلی نان گریجوایٹ ثابت ہو رہے ہیں‘ ان کی تعداد مڈٹرم الیکشن مانگنے والوں کے لئے انتہائی مایوس کن ہے۔ پندرہ‘ بیس بلکہ پینتیس سیٹوں پر ضمنی انتخابات آسانی سے ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ امید بر آنے کی توقع نہیں اور وزارت عظمیٰ کے بے تاب امیدواروں کے لئے تو حالات حوصلہ شکن ہیں۔ ایک بے تاب امیدوار نے تو داتا دربار کی ماتمی فضا میں کھڑے ہو کر سوگواروں اور ماتم کرنے والوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ”میں وزیراعظم ہوتا‘ تو 90 دنوں میں دہشت گردی ختم کر دیتا۔“ یہ ایک ایسے نوجوان کی کیفیت ہے‘ جو جنازے میں اپنی محبوبہ کو یاد کر کے خواہش وصل سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ مگر عمران خان تو اب پختہ عمر میں پہنچ چکے ہیں۔ ٹھیک ہے وزارت عظمیٰ کا منصب ان کا محبوب ہے لیکن جنازوں میں محبوب کے وصل کی خواہش نہیں کی جاتی‘ سوگواروں کے جذبات کو دیکھا جاتا ہے۔
وزارت عظمیٰ کے لئے بے تاب امیدواروں کے حالات جلد سدھرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ نوازشریف جب لندن اترے‘ تو ان کے ساتھ حمزہ شریف تھے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ شریف گھرانہ مستقبل کی قیادت سامنے لا رہا ہے۔ دوسری طرف بیجنگ میں چین کے وزیراعظم نے آصفہ بھٹو زرداری کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف‘ ایسے زوردار انداز میں کی کہ صدر زرداری کی باچھیں گنجائش سے زیادہ کھل گئیں۔ ابھی نوازشریف‘ شہبازشریف اور آصف زرداری خود جوان ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے گھر سے مستقبل کی قیادتیں تیار کرنا شروع کر دی ہیں۔ مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے ہر بے تاب امیدوار سے یہی کہا جا سکتا ہے ”تیرا نمبر آنا مشکل ہے کالیہ!۔
 
Top