حضرت بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مسلمان ہونے کو کہا اور اس کے بعد دریافت فرمایا: ”تمہارا کیا نام ہے؟“ میں نے کہا: ”نذیر (ڈرانے والا) “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”نہیں بلکہ تم بشیر (خوشی کی بات سنانے والا) ہو“۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صفہ (چبوترہ) پر ٹھہرادیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ہدیہ آتا تو اس میں ہم کو بھی شریک کرتے اور اگر صدقہ آتا تو سارا ہم لوگوں کو دے دیتے اور خود شرکت نہ فرماتے۔
ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا آپ جنت البقیع (ایک قبرستان کا نام ہے) تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر آپ نے کہا: ”السلام علیکم اے ایمان والی جماعت! ایک دن ہم بھی تم سے آملیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں ہم سب اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ جائیں گے تم نے خیر ِ کثیر حاصل کرلی اور بڑے فتنہ و فساد سے بچ نکلے“۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”کون؟“ میں نے عرض کیا : ”بشیر “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمام قبیلہ ربیعہ میں سے جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تمام مخلوق سمیت زمین پلٹ جاتی اللہ تمہارے کان اور تمہارے دل اور تمہاری آنکھ کو اسلام کیلئے قبول فرمالے“۔ میں نے کہا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے منظور ہے“۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”میرے پیچھے پیچھے کیوں آئے؟“ میں نے عرض کیا: ”میں ڈرا خدانخواستہ آپ کہیں مبتلائے زحمت نہ ہوجائیں یا کوئی کیڑا مکوڑہ نہ کاٹ کھائے“۔ ابن عساکر کی دوسری روایت میں اور طبرانی اور بیہقی میں اس طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کا شکر کیوں ادا نہیں کرتے جس نے اس پوری قوم ربیعہ میں سے جن کا خیال ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تمام لوگوں سمیت زمین پلٹ جاتی، تمہاری پیشانی کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ (منتخب:146/5)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صفہ (چبوترہ) پر ٹھہرادیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ہدیہ آتا تو اس میں ہم کو بھی شریک کرتے اور اگر صدقہ آتا تو سارا ہم لوگوں کو دے دیتے اور خود شرکت نہ فرماتے۔
ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا آپ جنت البقیع (ایک قبرستان کا نام ہے) تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر آپ نے کہا: ”السلام علیکم اے ایمان والی جماعت! ایک دن ہم بھی تم سے آملیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں ہم سب اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ جائیں گے تم نے خیر ِ کثیر حاصل کرلی اور بڑے فتنہ و فساد سے بچ نکلے“۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”کون؟“ میں نے عرض کیا : ”بشیر “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمام قبیلہ ربیعہ میں سے جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تمام مخلوق سمیت زمین پلٹ جاتی اللہ تمہارے کان اور تمہارے دل اور تمہاری آنکھ کو اسلام کیلئے قبول فرمالے“۔ میں نے کہا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے منظور ہے“۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”میرے پیچھے پیچھے کیوں آئے؟“ میں نے عرض کیا: ”میں ڈرا خدانخواستہ آپ کہیں مبتلائے زحمت نہ ہوجائیں یا کوئی کیڑا مکوڑہ نہ کاٹ کھائے“۔ ابن عساکر کی دوسری روایت میں اور طبرانی اور بیہقی میں اس طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کا شکر کیوں ادا نہیں کرتے جس نے اس پوری قوم ربیعہ میں سے جن کا خیال ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تمام لوگوں سمیت زمین پلٹ جاتی، تمہاری پیشانی کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ (منتخب:146/5)