History خلافت راشدہ میں فتوحات

  • Work-from-home

Bela

~*~A|!c3 in w0nd3r|@nd~*~
Active Member
Feb 4, 2010
5,975
3,851
1,113
Madrid, Spain
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیر نگیں آ چکا تھا اور اس کی سرحدیں روم کی عظیم بزنطینی سلطنت اور ایران کی ساسانی سلطنت سے جا ملی تھیں۔
خلافت راشدہ کے آغاز کے ساتھ ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عہد عرب میں فتنۂ ارتداد کے خاتمے اور حکومت کے استحکام میں گزرا جس کے بعد عہد فاروقی میں دو عظیم سالاروں خالد بن ولید اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کی زیر قیادت بزنطینی سلطنت کو اس کے مشرقی مقبوضات سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا جبکہ شام و مصر کے علاوہ مسلمانوں نے ایران کی عظیم ساسانی سلطنت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اسلام نے کبھی تقاضا نہیں کیا کہ مسلمان اپنا دین بزور قوت مسلط کریں اور ملک گیری کریں بلکہ مسلمانوں پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ ہے اللہ کے آخری پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانا اور وہ بھی بہترین حکمت اور طریقے کے ساتھ۔ ان دونوں ملکوں کی تسخیر کا مقصد یہ تھا کہ وہاں کے حکمران، جو خدا بنے بیٹھے تھے، دعوت دین حق کے فروغ میں رکاوٹ تھے بلکہ ساتھ ساتھ یہ ظلم کے معاشرے تھے جہاں کا عام انسان ظلم کی چکی میں پستا رہتا تھا۔ مسلمانوں نے ان افراد کو ظلم سے نکالا اور انہیں اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو اللہ کے اصلی دین کو اپنی مرضی سے اختیار کریں یا پھر نہ قبول کریں۔ اس زمانے میں ہمیں غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے بہت واقعات ملتے ہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیت المقدس کے مرکزی گرجے میں عبادت نہ کرنا کہ کہیں مسلمان اس کو بعد ازاں مسجد ہی نہ بنا لیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک یہودی کے خلاف مقدمہ ہار جانا وغیرہ۔


بہرحال، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ساسانی سلطنت کے خلاف جنگ قادسیہ ہوئی جس میں مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی اور اس کے بعد جنگ نہاوند کا زبردست معرکہ ہوا جس کی فتح کو "فتح الفتوح" کہا جاتا ہے۔ صرف 15 ہزار مسلمانوں نے ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کے لشکر کو شکست دی۔ اور پھر پورا ایران بشمول آذربائیجان، ارمینیہ، خراسان، سیستان، کرمان اور مکران مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔
دوسری جانب شام میں مسلم فتوحات کا سلسلہ جاری رہا جنہوں نے بصریٰ الشام پرقبضہ کر کے اس سرزمین پر فتوحات کا آغاز کیا۔ پھر دمشق، بعلبک، حمص کی فتوحات کے بعد یرموک کا عظیم معرکہ برپا ہوا جہاں ہرقل نے 2 لاکھ کے عظیم لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور ابو عبیدہ الجراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم نے یہاں فتح و کامرانی حاصل کر کے پورا شام مسلمانوں کی جھولی میں ڈال دیا۔
تیسری جانب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے عین شمس کی جنگ میں رومیوں کو بدترین شکست دی اور اور بالآخر اسکندریہ کی فتح کے ساتھ مصر کا پورا علاقہ مسلم ریاست میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد آپ آگے بڑھے اور برقہ (موجودہ لیبیا) کو مسلمانوں کی قلمرو میں شامل کر دیا۔
عہد عثمانی میں شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت مسلمانوں نے بحیرۂ روم میں جزیرۂ قبرص فتح کر لیا جو اب تک تمام فتوحات میں سب سے منفرد تھی کیونکہ پہلی بار مسلمانوں جنگ کے لیے بحری راستہ اختیار کیا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے عہد میں مسلمان ماوراء النہر تک بھی پہنچے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں درون خانہ فتنوں کے باعث مسلم ریاست میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور بالآخر
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد اموی عہد میں بہت بڑے پیمانے پر فتوحات ہوئیں۔
تاریخ صحابہ و تاریخ اسلام

@saviou bhaiya
 
Last edited by a moderator:
  • Like
Reactions: saviou
Top