ایماں کی حلاوت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
سڑکوں پہ نگاہوں کو جھکا کیوں نہیں لیتے
سڑکوں پہ نگاہوں کو جھکا کیوں نہیں لیتے
کوّے تو نہیں ہو کہ ہو مرغوب غلاظت
تم ہنس ہو موتی کی غذا کیوں نہیں لیتے
تم ہنس ہو موتی کی غذا کیوں نہیں لیتے
کرتے ہو معاصی کے مرض کو نظر انداز
روحانی طبیبوں سے دوا کیوں نہیں لیتے
روحانی طبیبوں سے دوا کیوں نہیں لیتے
اب آتشِ الفت کی درآمد بھی کہاں تک
یہ آگ ہی سینے میں لگا کیوں نہیں لیتے
یہ آگ ہی سینے میں لگا کیوں نہیں لیتے
ہر بے کس و مجبور کی کرتے ہو خوشامد
اک صاحب قدرت کو منا کیوں نہیں لیتے
اک صاحب قدرت کو منا کیوں نہیں لیتے
سرکارﷺ کی صورت سے اگر پیار ہے تم کو
رخسار پہ سنت کو سجا کیوں نہیں لیتے
رخسار پہ سنت کو سجا کیوں نہیں لیتے
کیوں مسٹر و ملّا کے ہو مابین مرے دوست
داڑھی کو تم اک مشت بڑھا کیوں نہیں لیتے
داڑھی کو تم اک مشت بڑھا کیوں نہیں لیتے
کہتے ہو مرض کبر کا جب تم میں نہیں پھر
شلوار کو ٹخنے سے اٹھا کیوں نہیں لیتے
شلوار کو ٹخنے سے اٹھا کیوں نہیں لیتے
کیا رنگ و چمک دیکھتے پھرتے ہو بتوں کی
تم خالقِ سورج سے ضیا کیوں نہیں لیتے
تم خالقِ سورج سے ضیا کیوں نہیں لیتے
ہیں تیز بہت ساقی دوراں کی شرابیں
تم اپنی شراب اس میں ملا کیوں نہیں لیتے
تم اپنی شراب اس میں ملا کیوں نہیں لیتے
ہیں داغ جو عصیاں کے اثرؔ دامنِ دل پر
اشکوں کے سمندر میں نہا کیوں نہیں لیتے
حضرت شاہین اقبال اثرؔصاحب دامت برکاتہمwww bazm org
اشکوں کے سمندر میں نہا کیوں نہیں لیتے
حضرت شاہین اقبال اثرؔصاحب دامت برکاتہمwww bazm org