سبز اور سرخ ”کاٹھی“ کا مسئلہ

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی

میرے بہت گہرے تعلقات دائیں اوربائیں بازو کے دانشوروں کے ساتھ رہے ہیں اور آج بھی ہیں بلکہ بائیں بازو کے دانشوروں سے میرے تعلقات اتنے زیادہ تھے کہ بعض ستم ظریفوں نے مجھے ”سرخا“ کہنا شروع کردیا تھا حالانکہ میں معروف معنوں میں کبھی ”سرخا“ نہیں رہا اور نہ میں پسند کروں گا کہ مجھے ”سرخا“ کہا جائے،اسی طرح بعض ستم ظریف ”سرخے“ مجھے پکا”اسلا م پسند“ کہتے اورسمجھتے تھے حالانکہ میں کبھی معروف معنوں میں ”اسلام پسند“ بھی نہیں رہا اور نہ خود پر یہ ٹھپا لگوانا مجھے پسند ہے۔ اقبال نے اس صورتحال کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں
سو جب کوئی شخص کسی دھڑے کے نظریات کا پابندہونے کی بجائے اپنی آزادانہ سوچ بروئے کار لاتا ہے تو اسے دوطرفہ مار تو پڑنا ہی ہوتی ہے تاہم یہ بھی دورکی باتیں ہیں کہ جب نظریاتی آویزش زوروں پر تھی ان دنوں دائیں بازو میں اسے شمار کیاجاتا جو ”اسٹیٹس کو“ کو برقرار رکھنے کا حامی ہو اور بائیں بازو میں اسے شامل سمجھا جاتا جو غربت، افلاس، استحصال کا خاتمہ اور ایک غیرطبقاتی معاشرے کا قیام چاہتا ہو تاہم اب یہ تعریف عملی طور پر آؤٹ آف ڈیٹ ہوچکی ہے، ان دنوں ہمیں اپنے اردگرد جو بائیں بازو کے لوگ نظر آتے ہیں، سوویت یونین کے خاتمے اور چین میں سرمایہ داری نظام کی نقب لگنے کے بعد سے ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں، اب ان سب طبقوں کو بھی بائیں بازو میں شامل سمجھا جاتا ہے جو لبرل ازم کے قائل ہیں اور جو مذہب کو انسان کاذاتی فعل سمجھتے ہیں چنانچہ اس کے بعد سے ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بخثیں بھی دم توڑ گئی ہیں سو اب ترقی پسند اور اینٹی ترقی پسند ایک پرچم تلے جمع ہیں۔ ہمارے صف اول کے ترقی پسند دانشور، افسانہ نگار اور صحافی جناب حمید اختر نے گزشتہ دنوں ہمارے صف اول کے ”رجعت پسند“ انتظارحسین کو اس دور کا سب سے بڑا ترقی پسند قرار دیا ہے کہ انتظار حسین اپنی ”رجعت پسندی“ (یہ خطاب ان کا اپنا دیا ہواہے) کے باوجود اعلیٰ انسانی قدروں کے علمبردار ہیں، لبرل ہیں اور سیکولر ازم کے حامی ہیں لہٰذا وہ بھی ترقی پسند ہیں۔
میرے خیال میں ، میں نے اپنے کالم کی تمہید قدرے غلط باندھ دی ہے کیونکہ میں بتانا یہ چاہتا تھا کہ میرے جو دوست خودکو سیکولر کہلانا پسند کرتے ہیں وہ بے دین بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ مذہب کو انسان کا ذاتی فعل سمجھتے ہیں مثلاً اردو کے ممتاز نقاد ڈاکٹر انوار احمد پکے سیکولر ہیں لیکن وہ نماز ِ پنجگانہ ادا کرتے ہیں اور پابندی سے روزے بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے غالباً حج بھی کیا ہواہے اور اگر نہیں کیا تووہ عنقریب یہ بھی کر گزریں گے۔


میرے بائیں بازوکے ثقافتی دوست خاور نعیم ہاشمی کا معاملہ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے موبائل فون پر تلاوت لگائی ہوتی ہے۔ ہمراز احسن تو باقاعدہ تصوف کی طرف مائل ہوچکے ہیں، فیض احمد فیض کی شاعری میں قرآنی لفظیات نگینے کی طرح جڑی نظر آتی ہیں اور ہم چند دوستوں نے توبرمنگھم کی جامع مسجد میں احمد ندیم قاسمی کی امامت میں نماز بھی پڑھی تھی۔ اسی طرح انتظار حسین کے بیشتر افسانوں کی بنیادیں اسلامی اساطیر سے اٹھائی گئی ہیں وہ تو کسی زمانے میں غالباً پاکستانی یا اسلامی ادب کے بھی پرچارک تھے۔ میں انتظار صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ ان کو ترقی پسندوں سے بریکٹ کرتا چلا جارہا ہوں لیکن حمید اخترصاحب نے انہیں جس حوالے سے ترقی پسند قراردیاہے وہ اس اصول پر بہرحال پورا اترتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ اب دائیں بازو کے دانشوروں کا بھی ہے چنانچہ ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کے افسانوں کی فضا ان کے اقوال سے بہرحال مختلف ہے۔ اشفاق کے بیشتر ڈرامے اور ان کی کتاب ”زاویئے“ کے اکثر مضامین انسان دوستی ہی کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ صحافت سے وابستہ دانشوروں میں مجیب الرحمن شامی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جانے کے بعد اب لبرل ازم کی طرف مائل ہی نہیں بلکہ اس کے قائل بھی ہوچکے ہیں۔ طالبان کا شکریہ کہ انہوں نے ہم میں سے بہت سوں کی سوچوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ وہ اگر اسلام کی اس قدر ہولناک تصویر پیش نہ کرتے اور دینی جماعتیں بالواسطہ طور پر ان کی تائید کرتی نظر نہ آتیں تو دائیں بازوکے بہت سے دانشور شاید آج بھی پرانی ڈگر پر چلتے نظر آتے!

”اسلام پسندوں“ اور ”ترقی پسندوں“ میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اپنی نظریاتی شدت پسندی کی وجہ سے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کر پایا۔ مجھے یاد ہے جب سقوط ِ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے پاکستانی قوم کے دل زخمی تھے، ٹی ہاؤس کی بالائی منزل پر اسی قماش کے لیفٹسٹوں کے ایک اجلاس میں پاکستان ٹوٹنے کا جشن منایا جارہا تھا۔ ان لمحوں میں لوگوں نے ظہیر کاشمیری کو جھومتے جھامتے ٹی ہاؤس کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھااور پھرانہوں نے ان احمقوں کی طرف اشارہ کرکے کہا ”لوگو! ان کے چہرے پہچان لو یہ تمہارے دوست نہیں ہیں۔“اس پر ایک کامریڈ خاتون نے ظہیرکاشمیری کو مخاطب کیا اورکہا ”ظہیر صاحب! آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں“ جس پر اس سکہ بند انقلابی شاعر نے جواب دیا ”میں نے تو اس وقت بھی تمہاری کسی بات کوسنجیدگی سے نہیں لیا تھا جب تم بالغ تھیں، اب جبکہ تم دوبارہ نابالغی کی عمر میں داخل ہورہی ہو، میں تمہاری کہاں سنوں گا؟“ اسی طرح انہی دنوں میں نے سقوط ِ ڈھاکہ کے حوالے سے بعض ”اسلام پسندوں“ کو یہ کہتے اوربغلیں بجاتے دیکھا کہ ”ہمارے بزرگوں نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ ملک قائم نہیں رہے گا!“ مگر ان کو کاؤنٹر کرنے والے بھی بہرحال ”اسلام پسند“ ہی تھے۔

شفیق الرحمن نے ایک کہانی کے اختتام پر لکھا تھا ”بچو! اس کہانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضروری نہیں ہر کہانی کا کوئی نتیجہ بھی ہو۔“ تاہم میرے کالم سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم پاکستانی ایک دوسرے کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے ایک دوسرے کے لئے دلوں میں نفرتیں نہ پالیں کیونکہ ان بدگمانیوں نے ہمارے درمیان بہت سی خلیجیں حائل کردی ہیں بلکہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو بالواسطہ کی بجائے بلاواسطہ جاننے کی کوشش کریں اور تب کوئی رائے قائم کریں صرف یہی نہیں بلکہ اگر نظریات میں اختلاف سامنے آئے تو بھی اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں، یہ وقت متحد ہوکر پاکستان کو مضبوط بنانے کا ہے اور میں کالم کا اختتام کامریڈ ظہیر کاشمیری کے اس جملے پر کروں گا کہ ”ہمیں پہلے اپنے ناتواں گھوڑے کوبہترین چارہ کھلا کراسے اس کے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہئے اور جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تب ہم اس پر بحث کریں گے کہ اس کی کاٹھی سبز رنگ کی ہو یا اس پر سرخ کاٹھی ڈالی جائے۔
 
Top