’فوری طور پر خون کا بندوبست کرنا ہوگا‘ڈاکٹر نے فکرمندی سے کہا
’میرا تو گروپ ہی دوسرا ہے ڈاکٹر صاحبآپ ہی کہیں سے بندوبست کریں‘فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں بولے
’ہسپتال میں بی پلس گروپ کا خون نہیں ہےآپ ایسا کریں بلڈ بنک چلے جائیں اور اپنا خون دے کر بی پلس کی دو بوتلیں لے آئیں‘ڈاکٹر بولا
’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب میں جاتا ہوں‘ فرقان بیگ نے کہا
’بس جلدی کریں تا کہ آپریشن شروع کیا جا سکے‘ڈاکٹر نے کہا اور فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں تقریبا دوڑتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکلےآج ہی انھیں دفتر میں اطلاع ملی تھی کہ ان کے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہےوہ افراتفری کے عالم میں ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ بھائی کی حالت نازک ہےاس کا کافی خون بہ چکا تھا اور فوری آپریشن کرنا تھامگر ہسپتال میں بی پلس گروپ کا خون موجود نہیں تھااب وہ تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے بلڈ بنک کی طرف جا رہے تھےاچانک انھیں بریک لگانا پڑےسڑک پر گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی انھوں نے دیکھا کہ اشارہ کھلا تھا مگر پولیس والوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی ’نہ جانے کیا مسئلہ ہے؟‘وہ پریشانی کے عالم میں بڑبڑائےاور کار سے نیچے اترے اور ایک سارجنٹ کی طرف بڑھے ’یہ سڑک کیوں بند کر رکھی ہے‘انھوں نے پوچھا
’صدر صاحب آرہے ہیں ان کے گزرنے کے بعد سڑک کھلے گی‘سارجنٹ بولا اب فرقان بیگ کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگر انھیں تو فورا بلڈ بنک پہنچنا تھا ’کب تک گزریں گے صدر صاحب؟‘انھوں نے فکرمندانہ لہجے میں پوچھا
’پتہ نہیں صاحب ابھی تو ان کا جہاز بھی نہیں پہنچا‘وہ بولا
’اور سڑک ابھی سے بند کر دی ہےدیکھو بھئی مجھے فوری طور پر بلڈ بنک پہنچنا ہےمیرے بھائی کا آپریشن ہونا ہےمجھے اس کے لئے خون کا بندوبست کرنا ہے‘فرقان بیگ بولے
’میں کیا کرسکتا ہوں ہمیں تو یہی آرڈر ہےجب تک صدر صاحب نہ گزر جائیں سڑک بند رہے گی‘وہ بولا فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں واپس مڑےان کی کار کے پیچھے بھی کئی گاڑیاں لگ چکی تھیںاب وہ واپس بھی نہیں مڑ سکتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد کو پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھیآج اس کا آخری پرچہ تھااور اسے پورے نو بجے یونیورسٹی پہنچنا تھاآج کل ویسے ہی حالات خراب تھےیونیورسٹی میں بھی رینجرز کا پہرہ تھا جو وقت کے بعد کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھےاس کا گھر بھی شہر سے کافی دور تھاجہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے خاصے مسائل تھےاس لیے وہ صبح سات بجے ہی گھر سے نکل جاتاآدھے گھنٹے کی واک کے بعد اسٹاپ پر پہنچتاوہاں بھی گاڑی ملنے میں خاصا وقت لگ جاتاتب کہیں جا کر وہ یونیورسٹی پہنچتااور آج تو اسے گھر سے نکلنے میں ہی ساڑھے سات بج گئے تھےوہ تقریبا دوڑتا ہوا بس اسٹاپ کی طرف جارہا تھا7:50 پر وہ اسٹاپ پر پہنچ گیاوہاں سواریوں کا کافی رش تھاصبح صبح سب اسکول کالج اور آفس جانے کے لیے جلدی میں ہوتے ہیںلہذا جونہی کوئی وین آتی سب اس پر ٹوٹ پڑتےایک دوسرے کو بے دردی سے دھکے دیتے اور خود پہلے گھسنے کی کوشش کرتےلائن لگانے کی کوئی زحمت نہ کرتاکیونکہ ایسے کام باشعور قومیں کرتی ہیںارشد نے گھڑی پر نظر ڈالی8:10 ہو چکے تھے ’یا اﷲ جلدی سے کوئی وین بھیج دے‘وہ بے چینی سے بڑبڑایا پھر ایک وین اور آتی نظر آئیاس نے بھی تہیہ کر لیا کہ اب اندر گھس کر رہے گاپھر وین کے رکنے سے بھی پہلے وہ اس کی طرف دوڑا اور دھکم پیل میں بالاخر اندر گھسنے میں کامیاب ہو گیالوگ بھی دھڑادھڑ اندر گھس گئے
اس کا دم گھٹنے لگا مگر یہ تو روز کا معمول تھاوین چلی تو اس نے سکون کا سانس لیا اب وہ نو بجے تک یونیورسٹی پہنچ سکتا تھاوین اپنے راستے پر تھی کہ اچانک بریک لگے اور وین رک گئی پھر جب خاصی دیر تک وین نے چلنے کا نام نہ لیا تو سب سواریاں چلانے لگیں ’راستہ بند ہے بھائی پولیس نے سڑک بند کر رکھی ہے‘کنڈکٹر بولا اندر ٹھنسی ہوئی سواریاں باہر نکلنے لگیںارشد نے بھی باہر نکل کر دیکھا سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطار لگی تھیاور آگے سڑک بلاک تھی ’آخر مسئلہ کیا ہے؟‘ایک صاحب بولے
’صدر صاحب آرہے ہیں‘ایک کار سے سر نکال کر ایک بزرگ بولے تو ارشد کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگراسے تو فورا یونیورسٹی پہنچنا تھااب وہ کیا کرتایہاں تو سب پھنسے ہوئے تھے
’یااﷲجلدی سے راستہ کھلوادے‘اس نے بے بسی سے دعا کی
...........
’میرا تو گروپ ہی دوسرا ہے ڈاکٹر صاحبآپ ہی کہیں سے بندوبست کریں‘فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں بولے
’ہسپتال میں بی پلس گروپ کا خون نہیں ہےآپ ایسا کریں بلڈ بنک چلے جائیں اور اپنا خون دے کر بی پلس کی دو بوتلیں لے آئیں‘ڈاکٹر بولا
’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب میں جاتا ہوں‘ فرقان بیگ نے کہا
’بس جلدی کریں تا کہ آپریشن شروع کیا جا سکے‘ڈاکٹر نے کہا اور فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں تقریبا دوڑتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکلےآج ہی انھیں دفتر میں اطلاع ملی تھی کہ ان کے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہےوہ افراتفری کے عالم میں ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ بھائی کی حالت نازک ہےاس کا کافی خون بہ چکا تھا اور فوری آپریشن کرنا تھامگر ہسپتال میں بی پلس گروپ کا خون موجود نہیں تھااب وہ تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے بلڈ بنک کی طرف جا رہے تھےاچانک انھیں بریک لگانا پڑےسڑک پر گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی انھوں نے دیکھا کہ اشارہ کھلا تھا مگر پولیس والوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی ’نہ جانے کیا مسئلہ ہے؟‘وہ پریشانی کے عالم میں بڑبڑائےاور کار سے نیچے اترے اور ایک سارجنٹ کی طرف بڑھے ’یہ سڑک کیوں بند کر رکھی ہے‘انھوں نے پوچھا
’صدر صاحب آرہے ہیں ان کے گزرنے کے بعد سڑک کھلے گی‘سارجنٹ بولا اب فرقان بیگ کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگر انھیں تو فورا بلڈ بنک پہنچنا تھا ’کب تک گزریں گے صدر صاحب؟‘انھوں نے فکرمندانہ لہجے میں پوچھا
’پتہ نہیں صاحب ابھی تو ان کا جہاز بھی نہیں پہنچا‘وہ بولا
’اور سڑک ابھی سے بند کر دی ہےدیکھو بھئی مجھے فوری طور پر بلڈ بنک پہنچنا ہےمیرے بھائی کا آپریشن ہونا ہےمجھے اس کے لئے خون کا بندوبست کرنا ہے‘فرقان بیگ بولے
’میں کیا کرسکتا ہوں ہمیں تو یہی آرڈر ہےجب تک صدر صاحب نہ گزر جائیں سڑک بند رہے گی‘وہ بولا فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں واپس مڑےان کی کار کے پیچھے بھی کئی گاڑیاں لگ چکی تھیںاب وہ واپس بھی نہیں مڑ سکتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد کو پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھیآج اس کا آخری پرچہ تھااور اسے پورے نو بجے یونیورسٹی پہنچنا تھاآج کل ویسے ہی حالات خراب تھےیونیورسٹی میں بھی رینجرز کا پہرہ تھا جو وقت کے بعد کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھےاس کا گھر بھی شہر سے کافی دور تھاجہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے خاصے مسائل تھےاس لیے وہ صبح سات بجے ہی گھر سے نکل جاتاآدھے گھنٹے کی واک کے بعد اسٹاپ پر پہنچتاوہاں بھی گاڑی ملنے میں خاصا وقت لگ جاتاتب کہیں جا کر وہ یونیورسٹی پہنچتااور آج تو اسے گھر سے نکلنے میں ہی ساڑھے سات بج گئے تھےوہ تقریبا دوڑتا ہوا بس اسٹاپ کی طرف جارہا تھا7:50 پر وہ اسٹاپ پر پہنچ گیاوہاں سواریوں کا کافی رش تھاصبح صبح سب اسکول کالج اور آفس جانے کے لیے جلدی میں ہوتے ہیںلہذا جونہی کوئی وین آتی سب اس پر ٹوٹ پڑتےایک دوسرے کو بے دردی سے دھکے دیتے اور خود پہلے گھسنے کی کوشش کرتےلائن لگانے کی کوئی زحمت نہ کرتاکیونکہ ایسے کام باشعور قومیں کرتی ہیںارشد نے گھڑی پر نظر ڈالی8:10 ہو چکے تھے ’یا اﷲ جلدی سے کوئی وین بھیج دے‘وہ بے چینی سے بڑبڑایا پھر ایک وین اور آتی نظر آئیاس نے بھی تہیہ کر لیا کہ اب اندر گھس کر رہے گاپھر وین کے رکنے سے بھی پہلے وہ اس کی طرف دوڑا اور دھکم پیل میں بالاخر اندر گھسنے میں کامیاب ہو گیالوگ بھی دھڑادھڑ اندر گھس گئے
اس کا دم گھٹنے لگا مگر یہ تو روز کا معمول تھاوین چلی تو اس نے سکون کا سانس لیا اب وہ نو بجے تک یونیورسٹی پہنچ سکتا تھاوین اپنے راستے پر تھی کہ اچانک بریک لگے اور وین رک گئی پھر جب خاصی دیر تک وین نے چلنے کا نام نہ لیا تو سب سواریاں چلانے لگیں ’راستہ بند ہے بھائی پولیس نے سڑک بند کر رکھی ہے‘کنڈکٹر بولا اندر ٹھنسی ہوئی سواریاں باہر نکلنے لگیںارشد نے بھی باہر نکل کر دیکھا سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطار لگی تھیاور آگے سڑک بلاک تھی ’آخر مسئلہ کیا ہے؟‘ایک صاحب بولے
’صدر صاحب آرہے ہیں‘ایک کار سے سر نکال کر ایک بزرگ بولے تو ارشد کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگراسے تو فورا یونیورسٹی پہنچنا تھااب وہ کیا کرتایہاں تو سب پھنسے ہوئے تھے
’یااﷲجلدی سے راستہ کھلوادے‘اس نے بے بسی سے دعا کی
...........