فرشتوں کی بریگیڈ

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
فرشتوں کی بریگیڈ ایک استعارہ ہے۔ جس بریگیڈ کا ہمیں سامنا ہے، متوسط طبقے پر مشتمل دن رات عہد حاضر کی خرابیوں کے خلاف سراپا احتجاج اور امید لگائے بیٹھی ہے کہ اچانک معجزے برپا ہوں گے جس سے بربادی کے تاریک بادل ہمیشہ کیلئے چھٹ جائیں گے ۔
حق و سچ کے یہ علمبردار ، جو گلی کوچے میں مل جاتے ہیں ،کو یہ کہا جائے کہ ثابت قدم رہیں اور سیاسی عمل کو موقع دیں کہ اس کے ذریعے سیاسی نظام کی صفائی ہو سکے اور حقیقی تبدیلی برپا ہو،تو فوری جواب یہ ملے گا کہ اگر قوم نے مزید انتظار کیا تو بچانے کو کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اگر فرشتوں کی فوج سے متبادل نظام کے بارے میں سوال کیا جائے تو مختلف جواب گھڑنے لگ پڑتے ہیں۔ ان فرشتوں کا دل ٹٹولا جائے تو اس میں ایک نئی فوجی مداخلت کی خواہش کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے گا۔
دیگر ممالک میں شاندار کیریئر کے بعد ریٹائر ہونے والے حضرات جن کی جیب بھری ہو، شاندار مکان ہو عموماً وقت گزاری کے لئے گالف کھیلتے ہیں یا باغبانی کا شغل اختیار کرتے ہیں۔ بعض کتاب بینی یا دیگر مہذب مشاغل اپنا لیتے ہیں۔ زیادہ آسودہ حال مالیاتی شعبوں میں چلے جاتے ہیں مگر پاکستان میں اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے والے اچانک نئے قسم کے مسلمان بن جاتے ہیں جس سے سراپا ایک نئے کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض میں نیا جذبہ حب الوطنی پیدا ہو جاتا ہے اور قوم کے حالت زار پر ہروقت رنجیدہ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہی عناصر جب اعلیٰ عہدوں پر فائز، ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں تھے ، مزید بگاڑ کے علاوہ کچھ نہ کر پائے۔ قوم کی بقاء کے نسخے تیار کرنے والے ان عناصر کا ضمیر کبھی ان کی ملامت نہیں کرتا۔ انکساری اور اپنے گریبان میں جھانکنے جیسی اعلیٰ انسانی صفات ان کے کردار کا حصہ ہی نہ تھیں۔آج کے گھڑ سوار جنرل کیانی ہیں، حق و سچائی اور حب الوطنی سے سرشار فرشتوں کی اس بریگیڈ کو یہی چیز متاثر کرتی ہے۔ پاکستان آج جن مشکلات سے دوچار ہے ، ماضی کے گھڑ سواروں اور قوم کو بربادی سے بچانے والوں کی مہم جوئی کا نتیجہ ہے۔ مختلف وقفوں میں مہم جوئی کرنے والے چار گھڑ سواروں ایوب ، یحییٰ ، ضیاء اور مشرف کے دور میں پیدا ہونے والی خرابیاں فرشتوں کی بریگیڈ کے اس ایمان کو متزلزل نہیں کرتیں کہ اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو زرداری کی جمہوریت ملک کو برباد کرکے رکھ دے گی ۔ان فرشتوں کے عزم کو نیا جوش و ولولہ ملک کا جہادی میڈیا دیتا ہے۔ میڈیا میں موجود کرائے کے یہ جنگجو گزشتہ سال بھی تبدیلی کی پیش گوئیاں کرتے رہے۔ بے قراری کی چنگاریوں کو ہوا دینے والے ان میڈیا جہادیوں کی استقامت لائق تحسین ہے چونکہ ان کا پر عزم ایجنڈے مکمل نہیں ہو پایا اس لئے ان دنوں کچھ آزردہ دکھائی دیتے ہیں۔ بعض پر تھوڑی بہت مایوسی ضرور چھائی ہوئی ہے مگر ان کی دلیری کا غلط اندازہ نہ لگائیں ، ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی، آج بھی خود کو سچا اصلاح کار سمجھتے ہیں۔ وہ واحد جنس ہے جو ملک میں بکثرت پائی جاتی ہے۔
فرشتوں کے اس ہجوم کو یہ سچائی تسلیم کر لینی چاہئے کہ اگر پاکستان میں حقیقی تبدیلی لا کر ماضی کی ناکامیوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنی ہے تو اس کا واحد ذریعہ بیلٹ بکس ہے۔ 63 سالہ ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جمہوریت کا علم ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھوں میں گیا ہو، ایک جمہوری حکومت کی مدت کے خاتمے کے بعد دوسری جمہوری حکومت اقتدار میں آئی ہو۔ ہر مرتبہ فوج یا بیوروکریسی کی مداخلت ہوئی جس سے ملک آگے بڑھنے کے بجائے بیس سال پیچھے چلا گیا۔ بدقسمتی سے ہم تلخ ماضی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ زرداری کے موجودہ انتظامی ڈھانچے کے لئے ان فرشتوں کی زبان پر اچھے الفاظ ہیں ؟ مان لیا کہ موجودہ صدر ایک حادثے کے نتیجے میں ایوان تک پہنچے۔ اگر تبدیلی کی بات کی جائے تو یہ صرف جمہوری عمل کے ذریعے ہی آنی چاہئے وگرنہ ہم ایسی تاریک غار میں پھنس جائیں گے جس سے نکلنا ہمارے لئے آسان نہ ہو گا۔ ڈھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، دو سال بعد نئے انتخاب کا نقارہ بج جائے گا۔ ہمارے لئے یہی ممکن ہے کہ اس وقت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اگلے انتخاب کی تیاری میں لگ جائیں۔ انتخابات بھی ایسے ہوں جس میں صرف حقیقی کامیابی حاصل کرنے والے ہی سامنے آئیں۔
انتہائی مشکل حالات میں اوڈیسس نے کہا ”صبر کا مظاہرہ کرو، آپ لوگوں نے موجودہ حالات سے کہیں زیادہ مشکل حالات کا سامنا کیا ہے“ ہماری تاریخ کیسے کیسے نازک موڑ نہیں آئے؟ کیسے کیسے نیم حکیموں، حقیقی بدفطرت افراد ، اوسط درجے کی صلاحیت رکھنے والوں سے ہمارا واسطہ نہیں پڑا؟ موجودہ وقت بھی گزر جائے گا۔ اگر کوئی بڑا سانحہ پیش نہ آیا تو ہمیں لوگوں کے سامنے اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کے اعتراف کرنا ہوں گے، اسی دوران نئے انتخابات کا وقت ہمارے سر پر ہو گا۔
اس وقت ہم اپنے کرب و تکالیف کو تعمیری شکل دے سکیں گے۔اگر موجودہ جمہوری حکومت کرپٹ ہے تو قوم کو موقع ملے گا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اگلی جمہوری حکومت بہت زیادہ کرپٹ نہ ہو۔ خرابیوں سے پاک کامل جمہوری حکومت تک پہنچنا ابھی ہمارے لئے ممکن نہیں کیونکہ کامل ہونا ایک روحانی خصوصیت ہے جس تک پہنچا انسان کیلئے ممکن نہیں۔ بدی اور کرپشن کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں البتہ انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ناانصافی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں البتہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی یقینی بنا کر ناانصافی کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری قومی زندگی میں ایک تسلسل جاری رہے ، قومی زندگی کے دھاگے اچانک ٹوٹ نہ جائیں کیونکہ ان سے ہماری قومی زندگی الٹے گیئر میں چلی جاتی ہے۔
تبدیلی کیلئے سول سوسائٹی کو ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیاست اچھی ہے یا بری اس کا تعلق سوچ سے ہے کہ ہم مواقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں یا پھر صرف وقت دینا چاہتے ہیں۔ اگر شادی کی تقریب میں قوم کی حالت زار پر رنجیدہ کوئی ریٹائرڈ فرشتہ آپ کو گھیر لے تو تقریب کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے ۔ اگر ان فرشتوں کو قوم کے حالت زار کی اتنی فکر ہے تو انہیں چاہئے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کر لیں اور نچلی سطح تک جا کر حالات بدلنے کی کوشش کریں۔ ایک کنارے پر رہ کر ملکی حالت زار پر چیخنے چلانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
فوج صرف دفاع کر سکتی ہے جیسا کہ فاٹا میں اس کی کارکردگی لائق تحسین ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ فوج قوم کیلئے نجات دہندہ نہیں۔ عدلیہ کو انصاف ضرور کرنا چاہئے مگر انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ اس کیلئے ممکن نہیں کیونکہ یہ کام عدلیہ کے دائرہ کار میں نہیں۔
عدالت نے چینی کی قیمت مقرر کرنے کی کوشش کی جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے پٹرولیم پالیسی میں مداخلت کی اور نتیجہ ہم جانتے ہیں۔ انہوں نے انتظامی امور میں مداخلت کی ، انتظامی افسروں کی ترقی کے معاملات کا چھیڑا مگر خوشگوار نتائج برآمد نہ ہوئے ۔پاکستان اسٹیل ملز کی کرپشن کا معاملہ بھی سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھ میں لیا مگر اس سفید ہاتھی کے حالات مزید ابتر ہو گئے۔ ایک وقت تھا کہ اسٹیل ملز کی بآسانی نج کاری ہو سکتی تھی مگر آج خریدنے کی غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کوئی نہیں کر ے گا۔
سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ خالد انور نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایف آئی اے جس طرح اسٹیل ملز کے معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے، اس سے پوری اسٹیل انڈسٹری میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے جس سے ہر چیز برباد ہو کر رہ جائے گی۔ایف آئی اے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تحقیقات کر رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ مختلف ادارے اپنے دائرہ اختیار تک محدود رہتے۔
سپریم کورٹ نے جعلی ڈگریوں کے معاملے کو ہاتھ میں لیا مگر الیکشن کمیشن کو مشکل میں ڈال دیا، اگرچہ اس کی ایک وجہ حکومتی مداخلت بھی ہے۔ یہ معاملہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان مزید تلخیاں پیدا کر رہا ہے۔ جبکہ ہمیں استحکام کی ضرورت ہے، اس کے برعکس ملک کو مسلسل غیر یقینی صورتحال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ، اخبارات ان خدشات کی روزانہ تصدیق کر رہے ہیں کہ جمہوریت ایک ناکام عمل ہے۔
فرشتوں کی فوج اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ ایک جھٹکے سے پورے نظام کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ قانون کی حکمرانی کی ٹھوس بنیادیں استوار کرنا ایک دن کا کام نہیں۔ برطانوی پنجاب (1857-1947)میں اداروں کی تشکیل کا عمل 98 سال تک چلتا رہا ، 47 ء کے بعد ہم نے ان اداروں کو تباہ کرنے کی پوری کوشش کی مگر مکمل طور پر برباد نہ کر پائے۔ سلطنت برطانیہ اداروں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کا ہنر جانتی تھی اور ان کے پاس وسائل بھی تھے۔پنجاب پاکستان کا نصف سے زائد ہے۔ اس کی آبادی اور وسائل کے باعث وفاق پاکستان کو چلانے کی بڑی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مختصر دور کے علاوہ ہزار سالہ تاریخ میں کیا پنجاب کو ریاست یا سلطنت چلانے کا کبھی موقع ملا؟ نہیں ، اس کا مطلب ہے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اسے صرف سسٹم کے اطاعت سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan
Top