مہربانی کی مہک
----------------------
پچھلے دنوں میری والدہ سے ملنے پرانے محلے کی کچھ خواتین آئیں- میں انکو پہچان نہیں سکا تھا- مگر جب میری والدہ
نےانکا
تعارف کرایا تو میں انہیں پہچان گیا-
چودہ پندرہ برس پہلے یہ سب چھوٹی چھوٹی بچیاں تھیں- مگر اب ماشااللہ یہ تینوں بڑی ہو گئی تھیں اور ان میں سے ایک کی شادی اور دوسری کی منگنی ہو چکی تھی-
میں اگرچہ انھیں نہیں پہچانتا تھا مگر وہ سب مجھے پہچان گئی تھیں-
انھوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو میں انھیں اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھمایا کرتا تھا-
مجھے یاد آگیا کہ یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا- میں نے نئی نئی موتر بائیک خریدی تھی- میں اپنے خاندان کے چھوٹے بچوں کو اپنی موٹرسائیکل پر گھمایا کرتا تھا- ایسے میں وہ مجھے اپنے دروازے پر کھڑی ہوکر حسرت بھری نظروں سے دیکھتی تھیں کیوں کہ ان کے گھر میں کسی کے پاس موٹر بائیک نہ تھی- انکی معصوم سی خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں انہیں بھی اپنے ساتھ لے جایا کارتا تھا-
میرے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی- مگر محبت اور مہرنانی کی یہ بات انہیں ایک طویل عرصے بعد بھی یاد رہی- اس کا سبب یہ ہے کہ انساب نہ نفرت کو بھول پاتا ہے نہ محبت اور مہربانی کو فراموش کر پاتا ہے-خاص کر جب یہ مہربانی بغیر کسی وجہ اور سبب کے کی جائے-
آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کے دکھ بہت بڑھ گئے ہیں- اسکا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں کرنی چھوڑ دی ہیں- ہم نہیں جانتے کہ ہماری ایک مسکراہٹ
،ایک درگزر، ہمدردی کا ایک کلمہ، مہربانی کا ایک عمل چاہے کتنا بھی چھوٹا لگے کبھی چھوٹا نہیں ہوتا-
یہ عمل ایک کمزور اور محروم انسان کے دل میں ہمارا وہ عکس قائم کرتا ہے جو مدتوں نہیں بھلایا جاتا- یہ عکس کبھی ایک انسان تک نہیں رکتا بلکہ روشنی بن کر دوسروں میں منتقل ہوتا رہتا ہے-
انسان اس مہربانی سے دوسروں کے
ساتھ مہربانی کرنا سیکھتا ہے - یہاں تک پورا معاشرہ محبت کے پھولوں سے مہک اٹھتا ہے-
مصنف : ابو یحیٰی
----------------------
پچھلے دنوں میری والدہ سے ملنے پرانے محلے کی کچھ خواتین آئیں- میں انکو پہچان نہیں سکا تھا- مگر جب میری والدہ
نےانکا
تعارف کرایا تو میں انہیں پہچان گیا-
چودہ پندرہ برس پہلے یہ سب چھوٹی چھوٹی بچیاں تھیں- مگر اب ماشااللہ یہ تینوں بڑی ہو گئی تھیں اور ان میں سے ایک کی شادی اور دوسری کی منگنی ہو چکی تھی-
میں اگرچہ انھیں نہیں پہچانتا تھا مگر وہ سب مجھے پہچان گئی تھیں-
انھوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو میں انھیں اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھمایا کرتا تھا-
مجھے یاد آگیا کہ یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا- میں نے نئی نئی موتر بائیک خریدی تھی- میں اپنے خاندان کے چھوٹے بچوں کو اپنی موٹرسائیکل پر گھمایا کرتا تھا- ایسے میں وہ مجھے اپنے دروازے پر کھڑی ہوکر حسرت بھری نظروں سے دیکھتی تھیں کیوں کہ ان کے گھر میں کسی کے پاس موٹر بائیک نہ تھی- انکی معصوم سی خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں انہیں بھی اپنے ساتھ لے جایا کارتا تھا-
میرے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی- مگر محبت اور مہرنانی کی یہ بات انہیں ایک طویل عرصے بعد بھی یاد رہی- اس کا سبب یہ ہے کہ انساب نہ نفرت کو بھول پاتا ہے نہ محبت اور مہربانی کو فراموش کر پاتا ہے-خاص کر جب یہ مہربانی بغیر کسی وجہ اور سبب کے کی جائے-
آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کے دکھ بہت بڑھ گئے ہیں- اسکا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں کرنی چھوڑ دی ہیں- ہم نہیں جانتے کہ ہماری ایک مسکراہٹ
،ایک درگزر، ہمدردی کا ایک کلمہ، مہربانی کا ایک عمل چاہے کتنا بھی چھوٹا لگے کبھی چھوٹا نہیں ہوتا-
یہ عمل ایک کمزور اور محروم انسان کے دل میں ہمارا وہ عکس قائم کرتا ہے جو مدتوں نہیں بھلایا جاتا- یہ عکس کبھی ایک انسان تک نہیں رکتا بلکہ روشنی بن کر دوسروں میں منتقل ہوتا رہتا ہے-
انسان اس مہربانی سے دوسروں کے
ساتھ مہربانی کرنا سیکھتا ہے - یہاں تک پورا معاشرہ محبت کے پھولوں سے مہک اٹھتا ہے-
مصنف : ابو یحیٰی