میں بے امان سہی
میں بے امان سہی پھر بھی یہ گمان تو ہے
زمیں ہے پاؤں تلے سر پہ آسمان تو ہے
ہر ایک لمحہ کسی تیر کا ہے ڈر لیکن
میں مطمئن ہوں کہ میرے پروں میں جان تو ہے
میں اس طرح در و دیوار سے ہوں بیگانہ
کہ گھر نہیں نہ سہی گھر کا اک نشان تو ہے
میں اپنی کشتئ امید سے نہیں مایوس
پھٹا پرانا سہی پھر بھی بادبان تو ہے
میں اپنی ذات سے باہر نکل کے سوچتا ہوں
نہیں ہے ربط مگر میرا خاندان تو ہے
چراغ جاں کا مقدر ہو جو بھی اے معصومؔ
ہوا کے سامنے مصروف امتحان تو ہے