ڈر لگتا ہے
چاک لکھتا ہے جو تحریر سے ڈر لگتا ہے
میری مٹی کو اب تقدیر سے ڈر لگتا ہے
اب نہیں آتی مری پلکوں میں کوئی نیند
مجھے خوابوں کی تعبیر سے ڈر لگتا ہے
شام تیری یادوں کی جب سے اتر آئی ہے
ہر سحر کو دن کی تنویر سے ڈر لگتا ہے
درد میں ڈوبی ہے میری ہستی جب سے
تخیل میں بنی ہر تصویر سے ڈر لگتا ہے
حنا کے رنگ ہتھیلی پہ سجا آیا ہوں مگر
تیرے پیار کی اس زنجیر سے ڈر لگتا ہے
موت سے ٹوٹے گا جڑا یہ سلسلہء حیات
غم دنیا میں کی ہر تدبیر سے ڈر لگتا ہے
چلے بھی آو کہ کٹے زندگی کا سفر شاہد
مجھے عشق کی ہر تقصیر سے ڈر لگتا ہے