کلام: "معراج فیض آبادی"
تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں تنہا تھا مگر اتنا نہیں تھا
تیری تصویر سے کرتا تھا باتیں
میرے کمرےمیں آئینہ نہیں تھا
سمندر نے مجھے پیاسا ہی رکھا
میں جب صحرا میں تھا پیاسا نہیں تھا
منانے روٹھنے کے کھیل میں ہم
بچھڑ جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا
سنا ھے بند کر لیں اس نے آنکھیں
کئی راتوں سے وہ سویا نہیں تھا
تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں تنہا تھا مگر اتنا نہیں تھا
تیری تصویر سے کرتا تھا باتیں
میرے کمرےمیں آئینہ نہیں تھا
سمندر نے مجھے پیاسا ہی رکھا
میں جب صحرا میں تھا پیاسا نہیں تھا
منانے روٹھنے کے کھیل میں ہم
بچھڑ جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا
سنا ھے بند کر لیں اس نے آنکھیں
کئی راتوں سے وہ سویا نہیں تھا