59 -134(علم کی فضیلت کے بیان میں (صحیح بخاری

  • Work-from-home

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب الفهم في العلم:
باب: علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں
(14) CHAPTER. (The superiority of) comprehending knowledge.


حدیث نمبر: 72


حَدَّثَنَا عَلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُجَاهِدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ،‏‏‏‏ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ،‏‏‏‏ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ،‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ".

ہم سے علی (بن مدینی) نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے (اس) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ (اسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ (ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔

Narrated Ibn `Umar: We were with the Prophet and fresh dates of a palm tree were brought to him. On that he said, "Amongst the trees, there is a tree which resembles a Muslim." I wanted to say that it was the datepalm tree but as I was the youngest of all (of them) I kept quiet. And then the Prophet said, "It is the date-palm tree."
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 72
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب الاغتباط في العلم والحكمة:
باب: علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں
(15) CHAPTER. Wish to be like the one who has knowledge and Al-Hikmah [wisdom i.e., the knowledge of the Quran and the Sunna (legal ways) of the Prophet ﷺ].

وَقَالَ عُمَرُ تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا.
اور عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھدار بنو (یعنی دین کا علم حاصل کرو)
اور ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔


حدیث نمبر: 73


حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ،‏‏‏‏ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ،‏‏‏‏ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

Narrated `Abdullah bin Mas`ud: The Prophet said, "Do not wish to be like anyone except in two cases. (The first is) A person, whom Allah has given wealth and he spends it righteously; (the second is) the one whom Allah has given wisdom (the Holy Qur'an) and he acts according to it and teaches it to others." (Fath-al-Bari page 177 Vol. 1)
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 73
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب ما ذكر في ذهاب موسى صلى الله عليه وسلم في البحر إلى الخضر:
باب: موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں
(16) CHAPTER. What has been said about the journey of Prophet Musa (Moses) علیہ السلام (when he went) in the sea to meet Al-Khidr.

وَقَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا‏‏‏‏.
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (جو موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے) کیا میں تمہارے ساتھ چلوں اس شرط پر کہ تم مجھے (اپنے علم سے کچھ) سکھاؤ۔


حدیث نمبر: 74

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى،‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ،‏‏‏‏ فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ،‏‏‏‏ هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ ؟ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ،‏‏‏‏ فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً،‏‏‏‏ وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ،‏‏‏‏ وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ،‏‏‏‏ فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ،‏‏‏‏ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي،‏‏‏‏ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا،‏‏‏‏ فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ".

ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحثے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of (the Prophet) Moses. Ibn `Abbas said that he was Al Khadir. Meanwhile, Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him, saying "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion, whom Moses asked the way to meet. Have you heard the Prophet mentioning something about him? He said, "Yes. I heard Allah's Apostle saying, "While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him. "Do you know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave Khadir (is more learned than you.)' Moses asked (Allah) how to meet him (Khadir). So Allah made the fish as a sign for him and he was told that when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said to him: Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses said: 'That is what we have been seeking? (18.64) So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (And) what happened further to them is narrated in the Holy Qur'an by Allah. (18.54 up to 18.82)
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 74
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم علمه الكتاب»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ”اللہ اسے قرآن کا علم عطا فرمائیو!“
(17) CHAPTER. The statement of the Prophet ﷺ: “O Allah! Bestow on him (Ibn Abbas) the knowledge of the Book (the Quran).”


حدیث نمبر: 75


حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ،‏‏‏‏ عَنْ عِكْرِمَةَ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ضَمَّنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے، ان سے خالد نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (سینے سے) لگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ ”اے اللہ اسے علم کتاب (قرآن) عطا فرمائیو“۔

Narrated Ibn `Abbas: Once the Prophet embraced me and said, "O Allah! Bestow on him the knowledge of the Book (Qur'an).
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 75
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب متى يصح سماع الصغير:
باب: اس بارے میں کہ بچے کا (حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟
(18) CHAPTER. At what age may a youth be listened to (i.e. quotation of the Hadith from a boy be acceptable).


حدیث نمبر: 76


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ،‏‏‏‏ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ،‏‏‏‏ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ،‏‏‏‏ فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ،‏‏‏‏ وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ،‏‏‏‏ فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَيَّ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار (کی آڑ) نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا (مگر) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔

Narrated Ibn `Abbas: Once I came riding a she-ass and had (just) attained the age of puberty. Allah's Apostle was offering the prayer at Mina. There was no wall in front of him and I passed in front of some of the row while they were offering their prayers. There I let the she-ass loose to graze and entered the row, and nobody objected to it.
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 76
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313
حدیث نمبر: 77

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ،‏‏‏‏ عَنِ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي،‏‏‏‏ وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ".

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔

Narrated Mahmud bin Rabi`a: When I was a boy of five, I remember, the Prophet took water from a bucket (used for getting water out of a well) with his mouth and threw it on my face.
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 77
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب الخروج في طلب العلم:
باب: علم کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں
(19) CHAPTER. To go out in search of knowledge.

وَرَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ فِي حَدِيثٍ وَاحِدٍ.
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔


حدیث نمبر: 78


حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَالِدُ بْنُ خَلِيٍّ قَاضِي حِمْصَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى،‏‏‏‏ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ،‏‏‏‏ فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ،‏‏‏‏ هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ،‏‏‏‏ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى:‏‏‏‏ بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ،‏‏‏‏ فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ،‏‏‏‏ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً،‏‏‏‏ وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ،‏‏‏‏ فَكَانَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ،‏‏‏‏ فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ،‏‏‏‏ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ،‏‏‏‏ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي،‏‏‏‏ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا،‏‏‏‏ فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ".

ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔ موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر علیہ السلام کو انہوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: that he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of the Prophet Moses. Meanwhile, Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him saying, "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion whom Moses asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle mentioning something about him? Ubai bin Ka`b said: "Yes, I heard the Prophet mentioning something about him (saying) while Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him: "Do you know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses: '--Yes, Our slave Khadir is more learned than you. Moses asked Allah how to meet him (Al-Khadir). So Allah made the fish a sign for him and he was told when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said: 'Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses said, 'That is what we have been seeking.' So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (and) what happened further about them is narrated in the Holy Qur'an by Allah." (18.54 up to 18.82)
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 78

 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب فضل من علم وعلم:
باب: پڑھنے اور پڑھانے والے کی فضیلت کے بیان میں
(20) CHAPTER. The superiority of a person who learns (Islam, becomes a religious scholar) and then teaches it to others.


حدیث نمبر: 79


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ،‏‏‏‏ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ،‏‏‏‏ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ،‏‏‏‏ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ،‏‏‏‏ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ،‏‏‏‏ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا،‏‏‏‏ وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً،‏‏‏‏ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ،‏‏‏‏ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ قَالَ إِسْحَاقُ:‏‏‏‏ وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ الْمَاءَ قَاعٌ يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ.

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے «قبلت الماء» کا لفظ نقل کیا ہے۔ قاعاس خطہٰ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے (مگر ٹھہرے نہیں) اور «صفصف» اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔

Narrated Abu Musa: The Prophet said, "The example of guidance and knowledge with which Allah has sent me is like abundant rain falling on the earth, some of which was fertile soil that absorbed rain water and brought forth vegetation and grass in abundance. (And) another portion of it was hard and held the rain water and Allah benefited the people with it and they utilized it for drinking, making their animals drink from it and for irrigation of the land for cultivation. (And) a portion of it was barren which could neither hold the water nor bring forth vegetation (then that land gave no benefits). The first is the example of the person who comprehends Allah's religion and gets benefit (from the knowledge) which Allah has revealed through me (the Prophets and learns and then teaches others. The last example is that of a person who does not care for it and does not take Allah's guidance revealed through me (He is like that barren land.)"
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 79
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب رفع العلم وظهور الجهل:
باب: علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں
(21) CHAPTER. (What is said regarding) the disappearance of the (religious) knowledge and the appearance of (religious) ignorance.

وَقَالَ رَبِيعَةُ لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ عِنْدَهُ شَيْءٌ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يُضَيِّعَ نَفْسَهُ.
اور ربیعہ کا قول ہے کہ جس کے پاس کچھ علم ہو، اسے یہ جائز نہیں کہ (دوسرے کام میں لگ کر علم کو چھوڑ دے اور) اپنے آپ کو ضائع کر دے۔


حدیث نمبر: 80

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ،‏‏‏‏ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرَ الزِّنَا".

ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے ابوالتیاح کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔

Narrated Anas: Allah's Apostle said, "From among the portents of the Hour are (the following): -1. Religious knowledge will be taken away (by the death of Religious learned men). -2. (Religious) ignorance will prevail. -3. Drinking of Alcoholic drinks (will be very common). -4. There will be prevalence of open illegal sexual intercourse.
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 80
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313
حدیث نمبر: 81

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى،‏‏‏‏ عَنْ شُعْبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمْ أَحَدٌ بَعْدِي،‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ،‏‏‏‏ أَنْ يَقِلَّ الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرَ الزِّنَا،‏‏‏‏ وَتَكْثُرَ النِّسَاءُ،‏‏‏‏ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے شعبہ سے نقل کیا، وہ قتادہ سے اور قتادہ انس سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے بعد تم سے کوئی نہیں بیان کرے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم (دین) کم ہو جائے گا۔ جہل ظاہر ہو جائے گا۔ زنا بکثرت ہو گا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ 50 عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔

Narrated Anas: I will narrate to you a Hadith and none other than I will tell you about after it. I heard Allah's Apostle saying: From among the portents of the Hour are (the following): -1. Religious knowledge will decrease (by the death of religious learned men). -2. Religious ignorance will prevail. -3. There will be prevalence of open illegal sexual intercourse. -4. Women will increase in number and men will decrease in number so much so that fifty women will be looked after by one man.
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 81
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب فضل العلم:
باب: علم کی فضیلت کے بیان میں
(22) CHAPTER. The superiority of (religious) knowledge.


حدیث نمبر: 82


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْث،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ،‏‏‏‏ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي،‏‏‏‏ ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ الْعِلْمَ".

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے لیث نے، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, "While I was sleeping, I saw that a cup full of milk was brought to me and I drank my fill till I noticed (the milk) its wetness coming out of my nails. Then I gave the remaining milk to `Umar Ibn Al-Khattab" The companions of the Prophet asked, "What have you interpreted (about this dream)? "O Allah's Apostle ,!" he replied, "(It is religious) knowledge."
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 82
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313
باب الفتيا وهو واقف على الدابة وغيرها:
باب: جانور وغیرہ پر سوار ہو کر فتویٰ دینا جائز ہے
(23) CHAPTER. To give a religious verdict while riding an animal or standing on anything else.


حدیث نمبر: 83


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ،‏‏‏‏ فَجَاءَ آخَرُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ارْمِ وَلَا حَرَجَ،‏‏‏‏ فَمَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) رمی کر لے۔ (اور پہلے کر دینے سے) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں (اس دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کچھ حرج نہیں۔

Narrated `Abdullah bin `Amr bin Al `Aas: Allah's Apostle stopped (for a while near the Jimar) at Mina during his last Hajj for the people and they were asking him questions. A man came and said, "I forgot and got my head shaved before slaughtering the Hadi (sacrificing animal)." The Prophet said, "There is no harm, go and do the slaughtering now." Then another person came and said, "I forgot and slaughtered (the camel) before Rami (throwing of the pebbles) at the Jamra." The Prophet said, "Do the Rami now and there is no harm." The narrator added: So on that day, when the Prophet was asked about anything (as regards the ceremonies of Hajj) performed before or after its due time, his reply was: "Do it (now) and there is no harm."
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 83
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب من أجاب الفتيا بإشارة اليد والرأس:
باب: اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے
(24) CHAPTER. Whoever gave a religious verdict by beckoning or by nodding.


حدیث نمبر: 84


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ،‏‏‏‏ عَنْ عِكْرِمَةَ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ فِي حَجَّتِهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَا حَرَجَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ وَلَا حَرَجَ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ایوب نے عکرمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے (آخری) حج میں کسی نے پوچھا کہ میں نے رمی کرنے (یعنی کنکر پھینکنے) سے پہلے ذبح کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا (اور) فرمایا کچھ حرج نہیں۔ کسی نے کہا کہ میں نے ذبح سے پہلے حلق کرا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ فرما دیا کہ کچھ حرج نہیں۔

Narrated Ibn `Abbas: Somebody said to the Prophet (during his last Hajj), "I did the slaughtering before doing the Rami.' The Prophet beckoned with his hand and said, "There is no harm in that." Then another person said. "I got my head shaved before offering the sacrifice." The Prophet beckoned with his hand saying, "There is no harm in that."
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 84
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313
حدیث نمبر: 85

حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ،‏‏‏‏ عَنْ سَالِمٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "يُقْبَضُ الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ وَالْفِتَنُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ،‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا الْهَرْجُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا بِيَدِهِ،‏‏‏‏ فَحَرَّفَهَا كَأَنَّه يُرِيدُ الْقَتْلَ".

ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، انہیں حنظلہ نے سالم سے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "(Religious) knowledge will be taken away (by the death of religious scholars) ignorance (in religion) and afflictions will appear; and Harj will increase." It was asked, "What is Harj, O Allah's Apostle?" He replied by beckoning with his hand indicating "killing." (Fath-al-Bari Page 192, Vol. 1)
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 85
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

حدیث نمبر: 86


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ،‏‏‏‏ عَنْ فَاطِمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَسْمَاءَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَتَيْتُ عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ،‏‏‏‏ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ آيَةٌ،‏‏‏‏ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ،‏‏‏‏ فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ،‏‏‏‏ فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ،‏‏‏‏ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ،‏‏‏‏ فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ مِثْلَ أَوْ قَرِيبًا لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ،‏‏‏‏ يُقَالُ:‏‏‏‏ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي بِأَيِّهِمَا،‏‏‏‏ قَالَتْ أَسْمَاءُ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا هُوَ مُحَمَّدٌ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ فَيُقَالُ:‏‏‏‏ نَمْ صَالِحًا،‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ،‏‏‏‏ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي،‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ہشام نے فاطمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی سورج کو گہن لگا ہے) اتنے میں لوگ (نماز کے لیے) کھڑے ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا (کیا یہ گہن) کوئی (خاص) نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! پھر میں (بھی نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی۔ حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (نماز کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، «مثل» یا «قرب» کا کون سا لفظ اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی، فاطمہ کہتی ہیں (یعنی) فتنہ دجال کی طرح (آزمائے جاؤ گے) کہا جائے گا (قبر کے اندر کہ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، کون سا لفظ فرمایا اسماء رضی اللہ عنہا نے، مجھے یاد نہیں۔ وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تین بار (اسی طرح کہے گا) پھر (اس سے) کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہرحال منافق یا شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا۔ تو وہ (منافق یا شکی آدمی) کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے (بھی) وہی کہہ دیا۔ (باقی میں کچھ نہیں جانتا۔)

Narrated Asma': I came to `Aisha while she was praying, and said to her, "What has happened to the people?" She pointed out towards the sky. (I looked towards the mosque), and saw the people offering the prayer. Aisha said, "Subhan Allah." I said to her, "Is there a sign?" She nodded with her head meaning, "Yes." I, too, then stood (for the prayer of eclipse) till I became (nearly) unconscious and later on I poured water on my head. After the prayer, the Prophet praised and glorified Allah and then said, "Just now at this place I have seen what I have never seen before, including Paradise and Hell. No doubt it has been inspired to me that you will be put to trials in your graves and these trials will be like the trials of Masih-ad-Dajjal or nearly like it (the sub narrator is not sure which expression Asma' used). You will be asked, 'What do you know about this man (the Prophet Muhammad)?' Then the faithful believer (or Asma' said a similar word) will reply, 'He is Muhammad Allah's Apostle who had come to us with clear evidences and guidance and so we accepted his teachings and followed him. And he is Muhammad.' And he will repeat it thrice. Then the angels will say to him, 'Sleep in peace as we have come to know that you were a faithful believer.' On the other hand, a hypocrite or a doubtful person will reply, 'I do not know, but I heard the people saying something and so I said it.' (the same). "
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 86
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب تحريض النبي صلى الله عليه وسلم وفد عبد القيس على أن يحفظوا الإيمان والعلم ويخبروا من وراءهم:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عبدالقیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خبر کر دیں
(25) CHAPTER. The Prophet ﷺ urged the people (mission) of Abdul Qais to memorize the faith and the (religious) knowledge (as he explained to them) and to inform (convey) to their people whom they have left behind (at home).

وَقَالَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ «ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ،‏‏‏‏ فَعَلِّمُوهُمْ».
اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انہیں (دین) علم سکھاؤ۔


حدیث نمبر: 87


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ رَبِيعَةُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ،‏‏‏‏ وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ،‏‏‏‏ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ،‏‏‏‏"فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ،‏‏‏‏ أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَإِقَامُ الصَّلَاةِ،‏‏‏‏ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ،‏‏‏‏ وَصَوْمُ رَمَضَانَ،‏‏‏‏ وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ،‏‏‏‏ وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ،‏‏‏‏ وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات «نقير» کہتے تھے اور بسا اوقات «مقير‏» ۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔

Narrated Abu Jamra: I was an interpreter between the people and Ibn `Abbas. Once Ibn `Abbas said that a delegation of the tribe of `Abdul Qais came to the Prophet who asked them, "Who are the people (i.e. you)? (Or) who are the delegates?" They replied, "We are from the tribe of Rabi`a." Then the Prophet said to them, "Welcome, O people (or said, "O delegation (of `Abdul Qais).") Neither will you have disgrace nor will you regret." They said, "We have come to you from a distant place and there is the tribe of the infidels of Mudar intervening between you and us and we cannot come to you except in the sacred month. So please order us to do something good (religious deeds) and that we may also inform our people whom we have left behind (at home) and that we may enter Paradise (by acting on them.)" The Prophet ordered them to do four things, and forbade them from four things. He ordered them to believe in Allah Alone, the Honorable the Majestic and said to them, "Do you know what is meant by believing in Allah Alone?" They replied, "Allah and His Apostle know better." Thereupon the Prophet said, "(That means to testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is His Apostle, to offer prayers perfectly, to pay Zakat, to observe fasts during the month of Ramadan, (and) to pay Al-Khumus (one fifth of the booty to be given in Allah's cause)." Then he forbade them four things, namely Ad-Dubba.' Hantam, Muzaffat (and) An-Naqir or Muqaiyar (These were the names of pots in which alcoholic drinks used to be prepared). The Prophet further said, "Memorize them (these instructions) and tell them to the people whom you have left behind."
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 87
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب الرحلة في المسألة النازلة وتعليم أهله:
باب: جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے لیے سفر کرنا (کیسا ہے؟)
(26) CHAPTER. To travel seeking an answer to a problematic matter, and to teach it to one’s family.


حدیث نمبر: 88


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،‏‏‏‏"أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ،‏‏‏‏ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ:‏‏‏‏ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي،‏‏‏‏ فَرَكِبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ فَسَأَلَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ،‏‏‏‏ فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ،‏‏‏‏ وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ".

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) حالانکہ (اس کے متعلق یہ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔

Narrated `Abdullah bin Abi Mulaika: `Uqba bin Al-Harith said that he had married the daughter of Abi Ihab bin `Aziz. Later on a woman came to him and said, "I have suckled (nursed) `Uqba and the woman whom he married (his wife) at my breast." `Uqba said to her, "Neither I knew that you have suckled (nursed) me nor did you tell me." Then he rode over to see Allah's Apostle at Medina, and asked him about it. Allah's Apostle said, "How can you keep her as a wife when it has been said (that she is your foster-sister)?" Then `Uqba divorced her, and she married another man.
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 88
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب التناوب في العلم:
باب: اس بارے میں کہ (طلباء کا حصول) علم کے لیے (استاد کی خدمت میں) اپنی اپنی باری مقرر کرنا درست ہے
(27) CHAPTER. To fix the duties in rotation for learning (religious) knowledge.


حدیث نمبر: 89


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ،‏‏‏‏ عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ،‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يُونُسُ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا،‏‏‏‏ فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ،‏‏‏‏ وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَنَزَلَ صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَثَمَّ هُوَ،‏‏‏‏ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ طَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي،‏‏‏‏ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ:‏‏‏‏ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی (ایک دوسری سند سے) امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے (پورب کی طرف) بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا (جب واپس آیا) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور (میرے بارے میں پوچھا کہ) کیا عمر یہاں ہیں؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے) پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ (یہ افواہ غلط ہے) تب میں نے (تعجب سے) کہا «الله اكبر» اللہ بہت بڑا ہے۔

Narrated `Umar: My Ansari neighbor from Bani Umaiya bin Zaid who used to live at `Awali Al-Medina and used to visit the Prophet by turns. He used to go one day and I another day. When I went I used to bring the news of that day regarding the Divine Inspiration and other things, and when he went, he used to do the same for me. Once my Ansari friend, in his turn (on returning from the Prophet), knocked violently at my door and asked if I was there." I became horrified and came out to him. He said, "Today a great thing has happened." I then went to Hafsa and saw her weeping. I asked her, "Did Allah's Apostle divorce you all?" She replied, "I do not know." Then, I entered upon the Prophet and said while standing, "Have you divorced your wives?" The Prophet replied in the negative. On what I said, "Allahu-Akbar (Allah is Greater)." (See Hadith No. 119, Vol. 3 for details)
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 89
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

باب الغضب في الموعظة والتعليم إذا رأى ما يكره:
باب: استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
(28) CHAPTER. To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates.


حدیث نمبر: 90


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ،‏‏‏‏ فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَيُّهَا النَّاسُ،‏‏‏‏ إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ،‏‏‏‏ فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ،‏‏‏‏ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انہیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔

Narrated Abu Mas`ud Al-Ansari: Once a man said to Allah's Apostle "O Allah's Apostle! I may not attend the (compulsory congregational) prayer because so and so (the Imam) prolongs the prayer when he leads us for it. The narrator added: "I never saw the Prophet more furious in giving advice than he was on that day. The Prophet said, "O people! Some of you make others dislike good deeds (the prayers). So whoever leads the people in prayer should shorten it because among them there are the sick the weak and the needy (having some jobs to do).
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 90
 

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313
حدیث نمبر: 91

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ،‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْرِفْ وِكَاءَهَا،‏‏‏‏ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً،‏‏‏‏ ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا،‏‏‏‏ فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ،‏‏‏‏ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ احْمَرَّ وَجْهُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا لَكَ وَلَهَا،‏‏‏‏ مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا،‏‏‏‏ تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ،‏‏‏‏ فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ".

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی (پہچان لے) پھر ایک سال تک اس کی شناخت (کا اعلان) کراؤ پھر (اس کا مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے (پاؤں کے) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے (بارے میں) کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔

Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: A man asked the Prophet about the picking up of a "Luqata" (fallen lost thing). The Prophet replied, "Recognize and remember its tying material and its container, and make public announcement (about it) for one year, then utilize it but give it to its owner if he comes." Then the person asked about the lost camel. On that, the Prophet got angry and his cheeks or his Face became red and he said, "You have no concern with it as it has its water container, and its feet and it will reach water, and eat (the leaves) of trees till its owner finds it." The man then asked about the lost sheep. The Prophet replied, "It is either for you, for your brother (another person) or for the wolf."
USC-MSA web (English): Volume 1, Book 3, Number 91
 
Top