" جو شخص اپنی جان کے زریعے اللہ کی راہ میں لڑتا ھے'اسے دنیا کے اعزازات اور تاریخ میں یاد رکھے جانے یا نہ رکھے جانے سے کوئ فرق نھیں پڑتا-اسے اس بات سے بھی فرق نھیں پڑتا کہ گرفتاری کی صورت میں سب اسے چھوڑ دیں گے اور موت کی صورت میں کوئ اسکا جنازہ بھی نھیں اٹھانے اَۓگا،کونکہ اسے "اللہ کی رضا چا ھۓ ھوتی ھے اور جسے یہ مل جاۓ اسے کچھ اور نھیں چاھۓ ھوتا_" (جنت کے پتے'نمرہ احمد)
میں چاهتا تھا، هم ناراضگی میں کم سے کم سامنا کریں. مجھے پتا تھا ایک دن هماری صلح هو جائے گی. خون کے رشتوں میں صلح هو هی جاتی هے. مگر میں درمیان کی تکلیف سے بچنا چاهتا تھا.
سعدی: " ٹیکنکلی ہاں hypothetically شاید اور پریکٹیکلی تو بلکل بھی نہیں."
بڑے ابّا: "پڑھی لکھی بیٹیاں جب تیس عبور کر جائیں اور انکے پاس نہ ختم ہونے والے دلائل ہوں تو ان کو کوئی شادی کے لئے مجبور نہیں کر سکتا اور... اور وہ تو #اسے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی' #زندگی میں کیسے کرے گی؟"
کباب میں کوئی ہڈی تھی شاید جو سعدی کی حلق میں پھنس گئی.وہ بے اختیار آگے کو جھک کر کھانسا' پھر چہرہ اٹھا کر اڑی رنگت کی ساتھ انکو دیکھا.
سعدی : "میں نے ... یہ تو نہیں...کہا....."
بڑے ابّا : چھ فٹ کا پوتا پچیس سال کا ہو کر' باہر سے ڈگری لا کر سمجھتا ہے کہ دادا کی دوائیوں کی پرچی پڑھ سکتا ہے اور دادا اسکا ذہن نہیں پڑھ سکتا."
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.