بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ
فتوائے عام:
کرسمس کی ’خوشیوں‘ میں شریک ہونا اور اِس کفریہ شعار پر عیسائیوں کو مبارکباد پیش کرنا
بالاتفاق حرام ہے اور ایمان کے لیے خطرہ
تمام اہل اسلام کو معلوم ہو:
۱۔ عیسائیوں کا کرسمس خالصتاً ایک کافرانہ تہوار ہے۔ یہ اُس کفریہ ملت کی ایک باقاعدہ پہچان اور شعار ہے جو حضرت عیسیٰؑ کو ’خدا کا بیٹا‘ کہہ کر پروردگارِ عالم کے ساتھ شرک کرتی ہے۔ نیز نبی آخر الزمان حضرت محمدٌ رسول اللہﷺ کو مسترد کر کے وقت کی آسمانی رسالت کی منکر اور عذابِ الٰہی کی طلبگار ٹھہرتی ہے۔ ’’کرسمس‘‘ کے اِس شرکیہ تہوار کی وجہِ مناسبت ہی یہ ہے کہ ان ظالموں کے بقول اس دن ’خدا کا بیٹا یسوع مسیح پیدا ہوا تھا‘۔
کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاھِہِمْ إِن یَقُولُونَ إِلَّا کَذِبا (الکہف:۵)
’’بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، نہیں بولتے یہ مگر بہتان‘‘۔
۲۔ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک ایسی قوم کو جو (معاذ اللہ) ’خدا کے ہاں بیٹے کی پیدائش‘ پر جشن منا رہی ہو مبارکباد پیش کرنے جائے اور اِس ’’خوشی‘‘ میں اُس کے ساتھ کسی بھی انداز اور کسی بھی حیثیت میں شریک ہو۔ یہ عمل بالاتفاق حرام ہے بلکہ توحید کی بنیادوں کو مسمار کر دینے کا موجب۔ ہر مسلمان خبردار ہو، اِس باطل ’’کرسمس‘‘ کی خوشیوں میں کسی بھی طرح کی
شمولیت آدمی کے اپنے ایمان کے لیے خطرہ ہے۔
۳۔ اِس گناہ کے مرتکب پر واجب ہے کہ وہ اِس سے تائب ہو۔ تاہم اگر وہ اہل اسلام کے کسی حلقہ میں راہبر جانا جاتا ہے تو اس کے حق میں لازم ہے کہ وہ اپنی توبہ کا کچھ چرچا بھی کرے تاکہ روزِ قیامت اُس کو دوسروں کا بارِگناہ نہ سمیٹنا پڑے۔
۴۔ ’’کرسمس‘‘ ایسے معلوم شعائرِ کفر سے دور رہنا تو فرض ہے ہی، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان اس ملتِ کفر سے کامل بیزاری کرے۔
۵۔ ’’کرسمس‘‘ ایسے معروف نصرانی تہوار کو محض ایک ’سماجی تہوار‘ کہہ کر
اس کے لیے جواز پیدا کرنا گمراہ کن ہے۔
۶۔ ہمارے اسلامی تصورات اور اصطلاحات کو مسخ کرنے کی جو سرتوڑ کوششیں اس وقت ہورہی ہیں، اہل اسلام پر ان سے خبردار رہنا واجب ہے۔ ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک سب سے بڑھ کر صحابہ ث کے عہد میں ہوا ہے۔ مگر ان کے دین اور دینی شعائر سے بیزاری بھی سب سے بڑھ کر صحابہ ث کے ہاں پائی گئی ہے۔ یقیناًیہ حسن سلوک آج بھی ہم پر واجب ہے، مگر اس کے جو انداز اور طریقے اس وقت رائج کرائے جا رہے ہیں وہ دراصل اسلام کو منہدم کرنے کے لیے ہیں۔
مفتیانِ کرام:
اِس فتویٰ پر درج ذیل مفتیان کرام نے عمومی تائید فرمائی ہے (ایک استفتاء کے جواب میں جو ادارہ ایقاظ کی جانب سے انکو بھیجا گیا تھا)۔ ان علماء کے تفصیلی کلمات ہماری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
1. مفتی محمد زکریا
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہو
2. مولانا عبد العزیز علوی
شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد
3. مولانا مفتی محمد اسحاق
جامعہ خیر المدارس ملتان
4. مولانا عبد المالک
مدیر شعبہ استفسارات جامعہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ لاہور
5. حافظ صلاح الدین یوسف
مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان
6. مفتی شاہد عبید
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
7. مولانا الطاف الرحمن بنوی
شیخ الحدیث جامعہ امداد العلوم، پشاور صدر
8. مولانا امین اللہ پشاوری
دار الافتاء الجامعہ تعلیم القران والسنہ گنج گیٹ پشاور
9. مولانا محمد قاسم حقانی
جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ
10. حافظ عبدالمنان نورپوری
شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ ، گوجرانوالہ
11. مفتی مبشر ربانی
جماعۃ الدعوۃ پاکستان
12. مولانا غلام اللہ رحمتی
مدیر دارالقرآن و الحدیث السلفیۃ ، قاضی آباد، پشاور۔
13. مولانا محفوظ احمد
دار الافتاء جامعۃ الصابر بہاول پور
14. مولانا عبد السلام رستمی
دار الافتاء جامعہ عربیہ بڈھ بیر پشاور
15. مولانا نقیب اللہ
استاذ الحدیث جامعہ امداد العلوم، پشاور صدر
16. سبحان اللہ جان
دارالافتاء جامعہ امداد العلوم، پشاور صدر
17. مولانا بشیر احمد حامد حصاری
تلمیذِ رشید علامہ یوسف بنوریؒ رحیم یار خان
18. مولانا محمد حسن
شیخ الحدیث دار الحدیث محمدیہ جلال پور پیروالا ملتان
19. مفتی محمد رضوان
دار الافتاء والاصلاح ادارہ غفران راولپنڈی