ہیں آنکھیں جھیل سی چہرہ کتاب جیسا ہے
کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے
کسی بھی بات پر اب بھگتی نہیں آنکھیں
کہ اپنا حال بھی سوکھے چناب جیسا ہے
یہ آرزو ہے کبھی تو اندھیری شب میں ملے
وہ اک شخص کہ جو مہتاب جیسا ہے
میں اُس کے حسن کی تعریف کس طرح سے کروں
وہ آفتاب سا، وہ مہتاب جیسا ہے
کیسے سناؤں میں اس دل کی داستاں ‘‘محسن’’
شبِ فراق کا ہر پل عذاب جیسا ہے
کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے
کسی بھی بات پر اب بھگتی نہیں آنکھیں
کہ اپنا حال بھی سوکھے چناب جیسا ہے
یہ آرزو ہے کبھی تو اندھیری شب میں ملے
وہ اک شخص کہ جو مہتاب جیسا ہے
میں اُس کے حسن کی تعریف کس طرح سے کروں
وہ آفتاب سا، وہ مہتاب جیسا ہے
کیسے سناؤں میں اس دل کی داستاں ‘‘محسن’’
شبِ فراق کا ہر پل عذاب جیسا ہے