کسی کو ہم سے ھیں چند شکوے کسی کو بے حد شکائتیں ھیں
ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ھیں وضاحتیں ھیں
قدم قدم پر بدل رھے ھیں مسافروں کی طلب کے رستے
ہواؤں جیسی محبتیں ھیں صداؤں جیسی رفاقتیں ھیں
کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے
کوئی مری چاہتون کا دشمن کسی کو درکار چاہتیں ھیں
تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک
خلش ھے سینے میں پہلے دن سی لہو میں ویسی ہی وحشتیں ھیں
مری محبت کے رازداں نے یہ کہہ کے لوٹا دیا مرا خط
کہ بھیگی بھیگی سی آنسوؤں میں تمام گنجلک عبارتیں ھیں
میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں
مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ھیں