Assalam O Alaikum,
ye tehreer kai mah pehlay likhi thi,ye aik iqtebas hai jo zail main post ki gai tasveer ko dekh kar meray zehan main aya tha....
ajj aap sab k saath yahan share kar rahi hoon,ye TM par meri pehli tehreer hai,umeed karti hoon k khamiyun ko nazar andaaz karain ge...!!!
!!!مت سہل انھیں جانوناجانے کیسے کاریگر نکلیں۔۔۔۔۔۔
’’ لے جاؤ اس بد بخت کو اور جنگل بدر کردو۔کسی ایسی انسانی بستی میں لے جاکر چھوڑ دو کہ جہاں کے لوگ انتہائی ظالم اور بے حس ہوں۔‘‘پورا محل شیر دل کی گرجدار آواز سے گونج رہا تھا اور ہر ایک گردن جھکائے اور نظریں فرشِ راہ کئے بادشاہ کے غیض و غضب اور جلال سے پناہ مانگ رہا تھا۔شاہی سپاہی ایک !!!مجرم کو پکڑ کر لے جارہے تھے اور وہ فریاد تک کرنے کی ہمت نہ کر پا رہا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منظرعافیت نگرکے نام سے موسوم ایک جنگل کے بادشاہ کے دربار کا تھا ،جس کا نام شیر دل تھا۔بادشاہ بہت رحم دل ،عدل پرور،ذہین اور انصاف پسند تھا۔اُ س کی رعایا اسے بے حد پسند کرتی تھی کیونکہ شیر دل نے اپنے عوام کے لئے ہر وہ کام کیا تھا جو ان کی زندگیوں میں سہولت اور آرام کا باعث بنتا۔جنگل امن کا گہوارہ تھا،ہر ایک جانور دوسرے کے حقوق اور جنگل کے قوانین کی پاسداری کرتا تھا۔۔۔۔۔!!!
شیر دل کو کسی دوسرے جنگل میں ضروری مذاکرے کے لئے مدعو کیا گیا تھا اور اُسے اپنے ساتھ اپنے وزیروں اور مشیروں کو بھی لے کر جانا تھا،دورہ پندرہ دن پر مشتمل تھا۔۔ جہاں شیر دل کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی وہیں اُس کے خلاف سازشی عناصر بھی وقتاََ فوقتاََ سر اٹھا تے رہتے تھے جن سے شیر دل بے حد خوش اسلوبی سے نمٹ لیتا تھاچناچہ اب مشکل اسے یہ تھی کہ جنگل کا نظام کسے سونپا جائے جو تمام انتظامی امور کو اُس کی واپسی تک بہ احسن و خوبی چلا سکے اور تخت پر قابض بھی نہ ہو۔۔۔۔!!!
بالآخر شیر دل کی یہ مشکل کم عقونام کے ایک گدھے کی صورت حل ہوگئی،جو کہ بے حد بیوقوف تھا۔چالاکی نام کی شے اُس میں بالکل نہ تھی۔دن بھر شیخ چلی کی ہانڈی پکایا کرتا اور خود کو بہت ہوشیار سمجھتا ۔شیر دل نے کم عقو کو اپنے دربار میں بلا کر ساری صورتحال سمجھائی اور خود دوسرے جنگل مذاکرات کے لئے روانہ ہوگیا۔شیر دل کو یہ اطمینان تھا کہ کم عقو واپسی پر اُس کے لئے ہر گز بھی کو ئی مشکل کھڑی نہیں کرے گا۔۔۔۔!!!
اِدھر کم عقو کے ہاتھ گویا قارون کا خزانہ لگ گیا تھا۔اُس نے خود کو جنگل کا حقیقی بادشاہ تصور کرلیا اور شیر دل کی تمام ہدایات کو یکسر فراموش کرکے من مانی شروع کردی۔جنگل پولیس کے تمام اہلکاروں کو چھٹی دے دی۔تعلیم کو سب کے لئے مفت یعنی فری فور آل کردیا ،جس کی مرضی پڑھے جس کی مرضی نہ پڑھے۔اساتذہ کو مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جب جی چاہے پڑھائیں ورنہ موجاں ہی موجاں کریں۔۔۔۔!!!
ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے والے ادارے کو ختم کردیا اور اُس کے اہلکاروں
کو جیل میں ڈال دیا تاکہ ذخیرہ
اندوزوں اور منافع خوروں کے کام میں خلل نہ پڑ ے۔ہر ایک شے کی قیمت چار گنا زیادہ کر دی۔ مٹی کے تیل کا نقلی بحران پیدا کر کے پورے جنگل میں اندھیرے کا راج کردیا۔سرحدی افواج کو واپس بلالیا جس کی وجہ سے ارد گرد کے جنگلات سے شر پسند عناصر عافیت نگر میں گھس آئے ،جس سے عافیت نگر کا امن و سکون تباہ و برباد ہوگیا۔۔۔۔۔!!!
تمام جانوروں کے درمیان فرقہ پرستی اور لسانیت کے نام پر تفریق کو ہوا دی۔تمام قاضیانِ جنگل کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کردیا جس سے عوام کے قانونی معاملات التواء کا شکار ہوگئے۔پانی کی ذخیرے پر اپنی برادری کے گدھوں کو محافظ مقرر کر کے رعایا کو پانی کے مفت حصول سے محروم کرکے اُس پر ٹیکس عائد کردیا۔ہر ایک شے کی قیمتِ خرید پر قیمت سے زیادہ ٹیکسز عائد کردئیے۔رشوت ستانی اور بھتہ خوری کی اہم رسومات کی ابتداء کی ۔۔۔۔۔!!!
غرض یہ کہ ہر وہ کام جو جنگل کا نظم و نسق تباہ و برباد او ر امن و سکون کی رخصتی کا باعث اور خو شحالی کے خاتمے کا سبب تھا ،کم عقو نے کیا۔عافیت نگر ،عافیت نگر نہ رہا،ادھم پور ہوگیا۔پندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد جب شیر دل اپنے وزراء اور رفقاء کے ساتھ واپس آیا تو اس نے اپنی ہی سرزمیں کو پہچاننے سے انکار کردیا۔اُسے یقین کرنے میں خاصا وقت لگا کہ یہ وہی عافیت نگر ہے جس سے وہ پندرہ دن پہلے تک واقف تھا۔۔۔۔!!!
سب سے پہلے اُس نے اپنے دربار کا رخ کیا جہاں کم عقو نے رنگ و بود کی ایک محفل سجا رکھی تھی۔دربار میں ایک عجب ہڑ بونگ مچی ہوئی تھی۔یہ سب دیکھ کر شیر دل کا غصے سے برا حال ہوگیا۔اُس نے اپنے ساتھ موجود سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ کم عقو سمیت وہاں موجود ہر ایک کو فوراََ گرفتا ر کرلیں۔اُس کے بعد اُس نے ایک ایک کر کے تمام معاملات کو سمجھنا اور سلجھانا شروع کیا۔کم عقو کے دیئے تمام شاہی احکامات کو رد کیااور نئے احکامات جاری کئے۔پولیس کے تمام سپاہیوں کو فوری اپنی ڈیوٹی پر حاضری کا حکم دیا اور جنگل کے نظم و نسق اور امن کی بحالی کو سب سے پہلے ممکن بنایا۔اُس کے بعد ایک ایک مسئلے اور پریشانی کو باری باری حل کیا۔۔۔۔۔!!!
مسائل اتنے زیادہ تھے کہ اُن پر قابو پانے میں شیر دل کو کافی وقت لگااور اُسے اور اُس کے وزراء اور مشیران کو دن رات لگا تا ر کام کرنا پڑا۔جب تما م کام اور مسائل حل ہوگئے اور معاملات سلجھ گئے ،جب جنگل پہلے کی طرح عافیت نگر بن گیا ،تب شیردل نے کم عقو اور اُس کے ساتھیوں کو اپنے دربار میں بلا یا ۔کم عقو کواختیارات کے غلط استعمال اور جنگل کا نظم و نسق تباہ کرنے کے جرم میں جنگل بدر کرکے ایک ایسی انسانی بستی میں بھیجنے کی سزا دی گئی جہاں کے لوگ بہت ظالم اور بے حس ہوں تاکہ کم عقو اپنے !!!کئے پر سبق حاصل کر سکے۔۔۔۔۔
تمام جانوروں کے درمیان فرقہ پرستی اور لسانیت کے نام پر تفریق کو ہوا دی۔تمام قاضیانِ جنگل کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کردیا جس سے عوام کے قانونی معاملات التواء کا شکار ہوگئے۔پانی کی ذخیرے پر اپنی برادری کے گدھوں کو محافظ مقرر کر کے رعایا کو پانی کے مفت حصول سے محروم کرکے اُس پر ٹیکس عائد کردیا۔ہر ایک شے کی قیمتِ خرید پر قیمت سے زیادہ ٹیکسز عائد کردئیے۔رشوت ستانی اور بھتہ خوری کی اہم رسومات کی ابتداء کی ۔۔۔۔۔!!!
غرض یہ کہ ہر وہ کام جو جنگل کا نظم و نسق تباہ و برباد او ر امن و سکون کی رخصتی کا باعث اور خو شحالی کے خاتمے کا سبب تھا ،کم عقو نے کیا۔عافیت نگر ،عافیت نگر نہ رہا،ادھم پور ہوگیا۔پندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد جب شیر دل اپنے وزراء اور رفقاء کے ساتھ واپس آیا تو اس نے اپنی ہی سرزمیں کو پہچاننے سے انکار کردیا۔اُسے یقین کرنے میں خاصا وقت لگا کہ یہ وہی عافیت نگر ہے جس سے وہ پندرہ دن پہلے تک واقف تھا۔۔۔۔!!!
سب سے پہلے اُس نے اپنے دربار کا رخ کیا جہاں کم عقو نے رنگ و بود کی ایک محفل سجا رکھی تھی۔دربار میں ایک عجب ہڑ بونگ مچی ہوئی تھی۔یہ سب دیکھ کر شیر دل کا غصے سے برا حال ہوگیا۔اُس نے اپنے ساتھ موجود سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ کم عقو سمیت وہاں موجود ہر ایک کو فوراََ گرفتا ر کرلیں۔اُس کے بعد اُس نے ایک ایک کر کے تمام معاملات کو سمجھنا اور سلجھانا شروع کیا۔کم عقو کے دیئے تمام شاہی احکامات کو رد کیااور نئے احکامات جاری کئے۔پولیس کے تمام سپاہیوں کو فوری اپنی ڈیوٹی پر حاضری کا حکم دیا اور جنگل کے نظم و نسق اور امن کی بحالی کو سب سے پہلے ممکن بنایا۔اُس کے بعد ایک ایک مسئلے اور پریشانی کو باری باری حل کیا۔۔۔۔۔!!!
مسائل اتنے زیادہ تھے کہ اُن پر قابو پانے میں شیر دل کو کافی وقت لگااور اُسے اور اُس کے وزراء اور مشیران کو دن رات لگا تا ر کام کرنا پڑا۔جب تما م کام اور مسائل حل ہوگئے اور معاملات سلجھ گئے ،جب جنگل پہلے کی طرح عافیت نگر بن گیا ،تب شیردل نے کم عقو اور اُس کے ساتھیوں کو اپنے دربار میں بلا یا ۔کم عقو کواختیارات کے غلط استعمال اور جنگل کا نظم و نسق تباہ کرنے کے جرم میں جنگل بدر کرکے ایک ایسی انسانی بستی میں بھیجنے کی سزا دی گئی جہاں کے لوگ بہت ظالم اور بے حس ہوں تاکہ کم عقو اپنے !!!کئے پر سبق حاصل کر سکے۔۔۔۔۔
شیر دل کے سپاہی کم عقو کو ایک ایسی ہی انسانی بستی میں چھوڑ کر چلے گئے ۔جہاں وہ ایک ایسے مزدورکے ہاتھ لگ گیا جو بازار سے سامان اپنی گدھا گاڑی پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا تھا اور اُس کمائی سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا۔اُس کا نام عبدالشکورتھا۔عبدالشکور کم عقو کو اپنی گدھا گاڑی میں جوت کر بازار لے گیا۔اور گاڑی پر سامان لدوانا شروع کیا۔کم عقو کیونکہ بہت صحت مند اور توانا تھا ،اِس لئے عبدالشکور نے زیادہ سے زیادہ سامان گاڑی پر لدواکر زیادہ پیسے کمانے کا سوچا۔۔۔۔!!!
بلآخر ایک وقت ایسا آیا کہ سامان کی زیادتی کی وجہ سے گاڑی کی ملاقا ت زمیں سے ہونے کے سبب کم عقو ہوا سے باتیں کرنے لگے،اور تب کم عقو کو معلوم ہوا کہ سزا کسے کہتے ہیں اور یہ زندگی جس میں ا ب تک وہ بہت مزے کر رہا تھا ،درحقیقت ایک ایسی رات تھی جس کے خاتمے پر نمو دار ہونے والا اجالا اپنے ساتھ آزمائشوں کے تھیلے بھر کر لاتاہے۔تب کم عقو اپنی جنگل کی زندگی ،اُس کے مزے اور وہاں کے ساتھیوں کو یاد کر کے بہت پچھتایا ،مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب شیر دل نے کردئیے جنگل کے دروازے بند۔۔۔۔۔!!!
دوسر ی طرف شیر دل کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی کہ ایک کم عقل اور ناسمجھ کو بے ضرر نہیں جاننا چاہیئے۔اُس انسان کو ذمہ داریاں نہیں سونپنی چاہئییں جسے لفظ ذمے داری کا مطلب ہی معلوم نہ ہو،جسے اختیارات کا استعمال کرنا نہ آتاہواور جو ہر اچھائی کو برائی کی نظر سے دیکھے۔جو خود اپنے آپ کو عقل مند ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کرے کہ جو امن و سکون و آشتی کا خاتمہ کردیں۔۔۔۔!!!
کرکے کمال زندگی سب کی بنائیں دُشوار
بلآخر ایک وقت ایسا آیا کہ سامان کی زیادتی کی وجہ سے گاڑی کی ملاقا ت زمیں سے ہونے کے سبب کم عقو ہوا سے باتیں کرنے لگے،اور تب کم عقو کو معلوم ہوا کہ سزا کسے کہتے ہیں اور یہ زندگی جس میں ا ب تک وہ بہت مزے کر رہا تھا ،درحقیقت ایک ایسی رات تھی جس کے خاتمے پر نمو دار ہونے والا اجالا اپنے ساتھ آزمائشوں کے تھیلے بھر کر لاتاہے۔تب کم عقو اپنی جنگل کی زندگی ،اُس کے مزے اور وہاں کے ساتھیوں کو یاد کر کے بہت پچھتایا ،مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب شیر دل نے کردئیے جنگل کے دروازے بند۔۔۔۔۔!!!
دوسر ی طرف شیر دل کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی کہ ایک کم عقل اور ناسمجھ کو بے ضرر نہیں جاننا چاہیئے۔اُس انسان کو ذمہ داریاں نہیں سونپنی چاہئییں جسے لفظ ذمے داری کا مطلب ہی معلوم نہ ہو،جسے اختیارات کا استعمال کرنا نہ آتاہواور جو ہر اچھائی کو برائی کی نظر سے دیکھے۔جو خود اپنے آپ کو عقل مند ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کرے کہ جو امن و سکون و آشتی کا خاتمہ کردیں۔۔۔۔!!!
کرکے کمال زندگی سب کی بنائیں دُشوار
!!!مت سہل انھیں جانوناجانے کیسے کاریگر نکلیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامن مرزا