گردِ گزراں میں کہیں گم تھا
پھر اک شہتوت کی چھاؤں سے پوچھا اپنے بارے میں
پھر اک بے عمر پنواڑی کا شکنوں سے بھرا چہرہ
کسی سیاح کے نقشے کی صورت کھل گیا مجھ پر
نہ اس میں میرا بچپن تھا
نہ میرے خانہ زادوں کی نشانی تھی
پھر اک دکان پہ لٹکی ہوئی تصویر سے پوچھا
تجھے تو سب خبر ہو گی
یہاں عباس تابش نام کا اک شخص رہتا تھا
کہاں ہے وہ
نہ اب سرسوں کی گندل ہے
نہ وہ چرخے کی گھوکر ہے
مگر اب بند دروازے پہ دھندلے نام کی تختی
مرے گھر کی نشانی ہے
یہ میری آج کے دن کی کہانی ہے