،نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ، سمیت لو، تنِ داغ داغ لوٹا دیا
،میرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وو جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دی
،کرو کج جبیں پہ سر کفن، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
،ادھر اک حرف کے کشتنی، یہاں لاکھ گزار تھا گفتنی
جو کہا تو سن کے اڑا دیا، جو لکھا تو پڑھ کہ مٹا دیا
،جوڑ کے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم ، تجھے یاد گار بنا دیا